مسلم بن عقیل
مسلم ابن عقیل (شہادت: 9 ذوالحجۃ 60ھ) علی ابن ابی طالب کے بھائی عقیل ابن ابو طالب کے بیٹے تھے یعنی حسین ابن علی کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان کا لقب سفیر حسین اور غریبِ کوفہ (کوفہ کے مسافر) تھا۔ واقعۂ کربلا سے کچھ عرصہ پہلے جب کوفہ کے لوگوں نے حسین ابن علی کو خطوط بھیج کر کوفہ آنے کی دعوت دی تو انھوں نے مسلم ابن عقیل کو صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے کوفہ روانہ کیا۔ وہاں پہنچ کر انھیں صورت حال مناسب لگی اور انھوں نے امام حسین کو خط بھیج دیا کہ کوفہ آنے میں کوئی قباحت نہیں۔ مگر بعد میں یزید بن معاویہ نے عبید اللہ ابن زیاد کو کوفہ کا حکمران بنا کر بھیجا جس نے مسلم بن عقیل اور ان کے دو کم سن فرزندوں کو شہید کروا دیا۔
مسلم بن عقیل | |
---|---|
مزار مسلم بن عقیل
| |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 632ء مدینہ منورہ |
وفات | 10 ستمبر 680ء (47–48 سال) کوفہ |
وجہ وفات | سر قلم |
مدفن | مسجد کوفہ |
طرز وفات | سزائے موت |
شہریت | سلطنت امویہ |
مذہب | اسلام |
زوجہ | رقیہ بنت علی |
اولاد | محمد بن مسلم بن عقیل ، عاتکہ بنت مسلم بن عقیل ، عبد اللہ بن مسلم بن عقیل |
والد | عقیل ابن ابی طالب |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
پیشہ | جنگجو ، انقلابی |
مادری زبان | عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | جنگ صفین ، سانحۂ کربلا |
درستی - ترمیم |
ابتدائی واقعات
ترمیمجب امام حسین نے مسلم بن عقیل کو کوفہ جانے کا حکم دیا تو اس وقت وہ مکہ میں تھے۔ وہاں سے وہ مدینہ گئے جہاں انھوں نے روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حاضری دی پھر اپنے دو بیٹوں محمد اور ابراہیم جن کی عمریں سات اور آٹھ سال کی تھیں، کو لے کر کوفہ چلے گئے۔ کوفہ میں انھوں نے جناب مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کے گھر پر قیام کیا۔ کوفہ والوں نے ان کی بیعت شروع کی جن کی تعداد تیس ہزار تک پہنچ گئی۔ انھوں نے امام حسین کو خط لکھ دیا کہ کوفہ آنے کے لیے حالات سازگار ہیں۔ اس وقت کوفہ کا گورنر نعمان بن بشیر تھا۔ جب یہ خبر یزید تک پہنچی تو اس نے بصرہ کے عبید اللہ ابن زیاد کو پیغام بھیجا کہ وہ جلد کوفہ پہنچ کر نعمان بن بشیر کی جگہ حکمران مقرر ہوں اور مسلم بن عقیل کا سر کاٹ کر یزید کے پاس بھیجیں۔ ابن زیاد نے کوفہ پہنچ کر گورنری سنبھالی تو مسلم بن عقیل امیر مختار کے گھر سے صحابیِ رسول درود ہانی بن عروہ کے گھر منتقل ہو گئے۔ ابن زیاد نے فوج کو انھیں پکڑنے کے لیے بھیجا تو ہانی بن عروہ جن کی عمر اس وقت 90 سال تھی، نے اپنے مہمان کو حوالہ کرنے سے انکار کر دیا۔ ہانی بن عروہ کو قید کر لیا گیا۔ اس پر بھی انھوں نے انکار کیا تو انھیں باندھ کر پانچ سو کوڑوں کی سزا دی گئی جس کے دوران میں جب وہ بے ہوش ہو گئے تو ان کا سر تن سے کاٹ کر لٹکا دیا گیا۔[1]
جنگ
ترمیمہانی بن عروہ کی گرفتاری کے بعد مسلم بن عقیل باہر آ گئے اور جنگ شروع کی مگر آہستہ آہستہ سب کوفیوں نے ساتھ چھوڑ دیا حتیٰ کہ صرف تیس افراد ان کے ساتھ رہ گئے۔ مغرب کی نماز تک وہ بھی باقی نہ رہے۔ انھیں محمد ابن کثیر نے اپنے گھر میں پناہ دی۔ محمد ابن کثیر کے حمایتیوں کے ساتھ ابن زیاد کی فوج نے جنگ کی اور انھیں بھی شہید کر دیا۔ یہ دیکھ کر مسلم بن عقیل کوفہ سے باہر جانے کی کوشش کرنے لگے مگر شہر کے سب دروازے بند تھے۔ آپ نے ایک بوڑھی عورت سے پانی مانگا۔ جب انھوں نے بتایا کہ ان کا تعلق خاندانِ رسالت سے ہے تو اس عورت نے انھیں اپنے گھر میں پناہ دی۔ مگر اس عورت کے بیٹے طوعہ نے انعام کے لالچ میں مخبری کر دی۔ ابن زیاد نے تین ہزار فوج بھیجی تو مسلم بن عقیل گھر سے باہر آ کر لڑنے لگے اور بنو ہاشم کی تلوار بازی کے جوہر دکھائے۔ جب سینکڑوں لوگ ہلاک ہو گئے تو ابن زیاد کے سالار ابن اشعش نے اور فوج کا پیغام بھیجا۔ یہ سن کر ابن زیاد نے کہلا بھیجا کہ کیا ایک شخص کے لیے تین ہزار کی فوج بھی ناکافی ہے؟ تو ابن اشعش نے جواب بھجوایا کہ 'یہ کوئی بقال یا جولاہا نہیں بنو ہاشم کا چشم و چراغ ہے'۔ بعد میں ایک گڑھے میں مسلم بن عقیل کو دھوکے سے گرا کر گرفتار کر لیا گیا۔[2]
شہادت
ترمیمجب مسلم کو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے انھیں سزا دی کہ کوفہ کے دار الامارۃ کی چھت سے گرا دیا جائے۔ مسلم بن عقیل نے شہادت سے پہلے چند وصیتیں کیں جس کے بعد ان کو چھت سے گرا کر شہید کر دیا گیا۔ یہ واقعہ 9 ذوالحجۃ 60ھ کا ہے۔ شہید ہونے کے بعد ان کا سر کاٹ دیا گیا اور اسے یزید کو دمشق بھجوا دیا گیا اور جسم کو کوفہ کے قصابوں کے بازار میں دار پر لٹکا دیا گیا تا کہ کوفہ کے لوگ اب بنو ہاشم کی حمایت نہ کریں۔[1]
بچوں کی شہادت
ترمیمان کی شہادت کے بعد ابن زیاد کے حکم سے ان کے دونوں کم سن بچوں کو جو قاضی شریح کے گھر میں چھپے ہوئے تھے، شہید کر دیا گیا۔ قاضی شریح نے کوشش کی کہ بچوں کو خفیہ طور پر مدینہ پہنچا دیا جائے مگر کامیابی نہ ہو سکی کیونکہ شہر کے تمام دروازے بند کر کے راستوں پر پہرہ بٹھا دیا گیا تھآ۔ ان بچوں کے بھی سر کاٹ لیے گئے تھے۔ ایک کا نام محمد اور دوسرے کا ابراہیم تھا۔