عبد المجید سیلم (1882ء - 1954ء)، یہ الازہر کے شیخ تھے، جن کا تعلق مصر کے صوبہ منوفیہ کے مرکز الشہداء کی ایک بستی "میٹ شہالہ" سے تھا، جہاں وہ پیدا ہوئے۔

عبد المجيد سليم
(عربی میں: عبد المجيد سليم ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش 13 اکتوبر 1882ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 7 اکتوبر 1954ء (72 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاہرہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش مصري
شہریت مملکت مصر   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
امام اکبر (38  )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
1950  – 1951 
Muhammad Ma'mun al-Shinnawi  
Ibrahim Hamrush  
امام اکبر (40  )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
1952  – 1952 
Ibrahim Hamrush  
محمد خضر حسین  
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ الازہر   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مفتی ،  امام اکبر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالات زندگی

ترمیم

شیخ عبد المجید سلیم 1 ذی الحجہ 1299ھ/ 13 اکتوبر 1882ء کو مصر کے صوبہ منوفیہ کے شہر الشہداء کے گاؤں میٹ شہالہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے قرآن پاک حفظ کیا اور تجوید سیکھی، پھر جامعہ ازہر میں داخلہ لیا۔ وہ غیرمعمولی ذہانت کے حامل اور علوم و فنون کے شیدائی تھے، اور ہر قسم کے علمی معارف کو سیکھنے کا شوق رکھتے تھے۔

انہوں نے ممتاز اساتذہ اور مشائخ سے تعلیم حاصل کی، جن میں امام محمد عبده، شیخ حسن الطویل، اور شیخ احمد ابو خطوة جیسے عظیم علما شامل ہیں۔ 1908ء میں انہوں نے "شہادتِ عالمیہ" فرسٹ ڈگری میں حاصل کی۔ بعد ازاں تدریس، قضا، افتا، اور مشیختِ ازہر کے مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ شیخ عبد المجید نے تقریباً بیس سال تک دار الافتاء میں خدمات انجام دیں، اور ان کے فتاویٰ کی تعداد 15 ہزار کے قریب ہے۔ وہ دو مرتبہ جامعہ ازہر کے شیخ مقرر ہوئے، لیکن پہلی بار انہیں بادشاہ پر تنقید کے باعث معزول کر دیا گیا، اور دوسری مرتبہ 17 ستمبر 1952ء کو از خود مستعفی ہوگئے۔

شیخ عبد المجید سلیم کا انتقال 10 صفر 1374ھ/ 7 اکتوبر 1954ء بروز جمعرات ہوا۔ ان کے علمی ورثے میں فقہی فتاویٰ اور دیگر علمی خدمات شامل ہیں، جنہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔.[1]

ربا المصارف پر موقف

ترمیم

شیخ عبد المجید سلیم کا ربا (سود) اور بینکوں کی سودی پالیسیوں کے حوالے سے موقف بالکل واضح اور سخت تھا۔ انہوں نے فرمایا: «بینکوں میں رکھی گئی رقوم پر جو فوائد حاصل کیے جاتے ہیں، وہ شرعی طور پر ممنوعہ ربا کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس سود کو صدقہ کرنے کی نیت سے بھی لینا جائز نہیں ہے، کیونکہ قرآن کریم اور احادیثِ نبویہ میں ربا کی ہر صورت کو مطلقاً حرام قرار دیا گیا ہے۔ ہمیں علماءِ اسلام کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ملا کہ ربا ہر حال میں شرعاً حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ اس طرح کے صدقے کو قبول نہیں کرتا، بلکہ اس کا مرتکب گناہگار ہوگا، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی بہت سی احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔» [2][3]

یہ بیان ان کے سود کے مکمل انکار اور شریعت کے اصولوں پر سختی سے کاربند رہنے کا مظہر ہے۔

نذر غیر اللہ پر موقف

ترمیم

شیخ عبد المجید سلیم نے غیر اللہ کے لیے نذر کو حرام قرار دیا اور کہا: "عوام کا اولیاء یا مزارات کے لیے نذر ماننا یا ان کے تقرب کی نیت سے صدقہ کرنا شرعاً حرام ہے اور مسلمانوں کے اجماع کے خلاف ہے۔ ایسی نذر کی رقم اصل مالک کو واپس کرنا واجب ہے، اور اگر مالک معلوم نہ ہو تو یہ رقم مسلمانوں کی فلاح و بہبود یا فقراء پر خرچ کی جائے گی۔ کسی خاص فقیر یا مزار کے خادم کو اس رقم میں کوئی حق حاصل نہیں، سوائے اس کے کہ وہ فقیر اسے وصول کر لے۔ البتہ کسی مالدار کے لیے اس رقم کو لینا جائز نہیں۔"[4]

موقف شیخ عبد المجید سلیم از سبِّ دین

ترمیم

شیخ عبد المجید سلیم نے دین کو گالی دینے کے عمل کو واضح طور پر کفر قرار دیا۔ انہوں نے فرمایا: "جس شخص نے دین کو گالی دینے جیسا گھناؤنا جملہ کہا، وہ بلا اختلاف ائمہ مسلمین کے اسلام سے مرتد اور کافر ہے۔ اس معاملے میں کوئی ابہام نہیں، اور یہ ایسا واضح مسئلہ ہے جس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔"[5] [6] شیخ عبد المجید کے ایسے مضبوط اور واضح فتاویٰ ان کی دینی غیرت اور علم و عمل کا مظہر ہیں، جو بعد کے علما کے لیے نمونہ ہیں۔ اللہ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور ہمیں بہترین رہنما عطا کرے۔

وفات

ترمیم

شیخ عبد المجید سلیم 7 اکتوبر 1954ء بمطابق 10 صفر 1374ھ کو وفات پا گئے۔ اللہ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور ان کے علم و عمل کو صدقہ جاریہ بنائے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "سير أعلام هيئة كبار العلماء القدامى (الشيخ عبد المَجيد سَليم )"۔ Azhar 
  2. (ماخذ: فتاویٰ دار الافتاء المصریہ، فتویٰ نمبر 3252، مورخہ 20 مئی 1943ء، بحوالہ "فتاویٰ كبار علماء الأزهر الشريف والمجامع الفقهية في ربا البنوك والمصارف")
  3. "المكتبة الإسلامية - فتاوي دار الافتاء المصريه"۔ books.islam-db.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اگست 2024 
  4. "الأزهر يرد على الصوفية"۔ مشروع الحصن ll للدفاع عن الإسلام والحوار مع الأديان والرد على الشبهات المثارة ll (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اگست 2024 
  5. "المكتبة الإسلامية - فتاوي دار الافتاء المصريه"۔ books.islam-db.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اگست 2024 
  6. (ماخذ: فتاویٰ دار الافتاء المصریہ، شوال 1352ھ/ 6 جنوری 1934ء)