عتبہ بن فرقد سلمی مشہور صحابی ہیں، عراق کے شمالی حصہ اور آذربائیجان کے فاتح ہیں۔[1]

عتبہ بن فرقد سلمی
معلومات شخصیت
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ خیبر   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابو عبد اللہ عتبہ بن فرقد بن یربوع بن حبیب بن مالک بن اسعد بن رفاعہ بن ربیعہ بن رفاعہ بن حارث بن بہثہ بن سلیم سلمی (بنو سلیم

قبولِ اسلام

ترمیم

عتبہ بن فرقد سلمی نے غزوہ خیبر سے پہلے اسلام قبول کیا اور اس غزوہ میں پیغمبر اسلام کے ساتھ شریک تھے۔ غزوہ خیبر سنہ 7ہجری میں پیش آئی تھی، روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ اسی سال اور اس سے کچھ پہلے اسلام قبول کیا تھا، محمد کے ساتھ رہتے تھے، ان کے ساتھ دو غزوات میں شریک رہے۔

فتوحات

ترمیم

عتبہ سلمی پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد مرتدوں کے خلاف جہاد کے لیے کھڑے ہو گئے اور اس سے کامیاب مقابلہ کے بعد پھر اسلامی فتوحات ہی کے لیے خود کو وقف کر دیا۔

(شہزور)، (صامغان) اور (دارا باد) کی فتح

ترمیم

(شہزور) کو فتح کیا، (صامغان) والوں سے صلح پر معاہدہ ہوا اور (دارا باد) کو خراج و جزیہ کی شرط پر معاہدہ کیا۔ پھر عمر بن خطاب کو خط لکھا کہ میری فتوحات آذربائیجان تک پہنچ چکی ہیں، عمر فاروق نے انھیں آذربائیجان کا والی بنا دیا اور وہاں سے عرفجہ بن ہرثمہ بارقی کو موصل بھیج دیا۔

آذربائیجان کی فتح

ترمیم

آذربائیجان کے مضافات (شہرزور) وغیرہ کو فتح کر کے آذربائیجان کی طرف پیش قدمی کی۔ اس علاقے کا کمانڈر (بہرام) عتبہ بن فرقد سلمی کو آذربائیجان پر چڑھائی سے روکنے کے لیے ایک بڑی فوج لے کر جمع تھا، عتبہ سلمی نے اپنی پوری قوت سے بہرام کے لشکر مقابلہ کیا اور زبردست شکست دی، اس طرح آذربائیجان کا ایک بڑا حصہ فتح کر لیا اور باقی دوسرے حصے خود وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کے حوالے کر دیے اور پورا آذربائیجان اس طرح اسلامی خلافت کے زیر نگیں آ گیا، عتبہ بن فرقد سلمی نے وہاں کے مذہبی رہنماؤں اور سیاسی قائدین کو ایک زبردست دو ٹوک خط لکھا جس میں ان کے امن و امان اور ان کے مذہب و شریعت کی آزادی کی پوری ضمانت کا وعدہ کیا اور جزیہ ادا کرنے پر زور دیا۔ خط کا متن کچھ یوں ہے ترجمہ:

اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے، یہ خط امیر المؤمنین عمر بن خطاب کے عامل عتبہ بن فرقد سلمی کی جانب سے ہے، جس میں آذربائیجان کے پہاڑوں، ٹیلوں، میدانوں، سرسبز وشاداب اور بنجر زمینوں پر رہنے والوں کے لیے، تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے ان کی جان، مال، مذہب اور شریعت کی ضمانت کا وعدہ ہے، اس شرط کے ساتھ کہ وہ اپنا جزیہ ادا کریں۔ ہاں غریب بچے، عورتیں، بیمار اور راہب اس سے مستثنی ہونگے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہوگا جو جزیہ ادا کریں گے اور جو ادا کرنے والوں کے ساتھ رہیں گے۔ اور جو خلاف ورزی کریں گے تو مسلمانوں کا لشکر دن ورات اس دن (فتح کے دن) کی طرح تیار رہیں گے۔ جو یہاں رہنا چاہتے ہیں انھیں یہاں رہنے کی پوری ضمانت ہے، اور جو یہاں سے نکل کر کہیں اور جانا چاہتے ہیں انھیں ان کی پناہ گاہ تک پہنچانے کی بھی ضمانت ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. اسد الغابة في معرفة الصحابة بن الاثير