ایک کثیرخلوی جاندار کے جسم میں بہت سے نظام پائے جاتے ہیں جو زندگی کے لیے لازمی افعال (مثلاً ؛ کھانا، سانس لینا، حرکت کرنا، سوچنا وغیرہ) انجام دیتے ہیں اور اس طرح زندگی کے لیے ہر ضروری فعل انجام دینے کے لیے کثیر خلوی جانداروں میں ایک ایک نظام ہوتا ہے۔

انسان کا عصبی نظام ؛ یوں کہا جائے تو مناسب ہو گا کہ عصبی نظام کا اہم ترین حصہ تو کھوپڑی میں موجود ہوتا ہے جسے دماغ کہتے ہیں اور اس کے نچلے حصے کی جانب سے ایک دم لٹکی ہوئی ہوتی ہے جو نیچے کی جانب بڑھ کر ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کی نالی میں اتر جاتی ہے، اس دم کو نُخاع (یا حرام مغز) کہا جاتا ہے۔ دماغ اور نُخاع سے تار نما اجسام نکل کر تمام جسم میں پھیل جاتے ہیں جو پیغامات کو دماغ اور نُخاع سے جسم میں اور جسم سے دماغ اور نُخاع تک لاتے لے جاتے رہنے کا کام کرتے ہیں۔

چونکہ یہ نظام الگ آزادانہ زندہ جاندار کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ اس جاندار کا حصہ ہوتے ہیں جس کے لیے یہ کام کر رہے ہوں لہذا یہ بات بھی ضروری ہے کہ انکا کام آپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہو اور اس کے لیے ایک ایسے نظام کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو ان تمام الگ الگ افعال انجام دینے والے نظاموں کو آپس میں مربوط کر سکے اور ان کے افعال کی نگرانی بھی کر سکے اور وقت ضرورت ان کو پیغامات یا ہدایات بھی مہیا کر سکے تاکہ ہر نظام وہی کام کرے اور اسی انداز میں کرے جس طرح اس جاندار کی زندگی کے لیے فائدہ مند اور مفید ثابت ہو۔ اور اس مقصد کے لیے جانداروں میں عصبی نظام (nervous system) پایا جاتا ہے جو جسم کے دیگر نظام کو (افرازی نظام کے ساتھ مل کر) منظم بھی کرتا ہے اور جاندار کو اس کے بیرونی ماحول سے آگاہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس میں شعور و ادراک بھی پیدا کرتا ہے۔

عصبی نظام کو پھر مطالعے میں آسانی کی خاطر مختلف حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے یہ تقسیم مقصد کے لحاظ سے کئی انداز میں کی جا سکتی ہے جن میں سے دو اہم اقسام کی تقسیم وہ ہیں کہ جن میں عصبی نظام کو یا تو افعال کے لحاظ سے تقسیم کیا گیا ہو اور یا پھر ساخت کے لحاظ سے۔ 1- فعلیاتی لحاظ سے

2- ساختی لحاظ سے