علاء الدین خلجی کی فتح رنتھمبور
سنہ 1301ء میں سلطنت دہلی کے حکمران علاء الدین خلجی نے اپنی ہمسایہ ریاست رنتھمبور پر لشکر کشی کرکے فتح حاصل کر لی تھی۔ اس لشکر کشی کی وجہ یہ تھی کہ سنہ 1299ء میں رنتھمبور کے بادشاہ ہمیر چوہان نے تخت دلی کے کچھ منگول باغیوں کو پناہ دے دی تھی۔ علاء الدین نے بادشاہ ہمیر چوہان سے درخواست کی کہ وہ ان باغیوں کو تہ تیغ کر دے یا ہمیں سونپ دے لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ اس صورت میں علاء الدین کے لیے لشکر کشی ایک انتظامی و سیاسی مجبوری تھی چنانچہ انھوں نے رنتھمبور پر چڑھائی کر دی۔ لشکر سلطانی الغ خان کی قیادت میں بر سر پیکار تھا۔ اس حملے میں ہمیر چوہان کے سالار بھیم سنگھ کی جان چلی گئی اور کچھ دنوں بعد ان کا بھائی بھوج علاء الدین کے لشکر میں شامل ہو گیا۔ تاہم ان ابتدائی ہزیمتوں کے بعد ہمیر کے سالاروں (بشمول منگول باغی) نے صورت حال کو قابو میں کر لیا اور رنتھمبور کے قریب ایک پہاڑی گزرگاہ کے پاس الغ خان کی فوج کو شکست دے دی۔ علاء الدین نے فوراً نصرت خان جلیسری کو کمک دے کر روانہ کیا لیکن قلعہ کے محاصرے کے دوران میں وہ خود مارے گئے۔
لشکر سلطانی کی اس ذلت آمیز پسپائی کو دیکھ کر سلطان نے بنفس نفیس معرکہ رنتھمبور کی کمان سنبھالی۔ انھوں نے حکم دیا کہ قلعہ کی دیواروں کے متوازی ایک پہاڑی ٹیلہ بنایا جائے جس کی اونچائی قلعہ کی دیواروں کے مساوی ہو۔ سلطان کا محاصرہ اس قدر شدید تھا کہ محصورین بلبلا اٹھے، غذائی اجناس ختم ہو گئے اور قحط کی نوبت آپہنچی۔ اس حوصلہ شکن صورت حال سے دوچار ہمیر چوہان اور ان کے وفادار ساتھیوں نے جولائی 1301ء کو قلعے سے باہر نکل کر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا۔ ہمیر کے قتل کے بعد ان کے حرم میں موجود خواتین، بیویوں، بچیوں اور دیگر خواتین رشتہ داروں نے جوہر (اجتماعی خود کشی) کر لیا اور سلطان علاء الدین نے قلعہ پر قبضہ کرکے الغ خان کو اس کا حاکم بنایا۔
پس منظر
ترمیمقلعہ رنتھمبور کے متعلق مشہور تھا کہ وہ ناقابل تسخیر ہے، سلطان علاء الدین کے پیشرو سلطان جلال الدین خلجی نے سنہ 1291ء میں بھی اس قلعہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن نامراد رہے۔[1]
سنہ 1299ء میں سلطان علاء الدین خلجی نے اپنے جانباز سالاروں الغ خان اور نصرت خان جلیسری کو تسخیر گجرات کی مہم پر مامور کیا تھا۔ اس مہم پر بھیجے جانے والے لشکر میں کچھ منگول سپاہی بھی تھے جنھوں نے حال ہی میں اسلام قبول کیا تھا۔ فتح گجرات کے بعد لشکر سلطانی دلی واپس ہو رہا تھا کہ جالور کے مقام پر کچھ منگولوں نے علائی سالاروں کے خلاف بغاوت کر دی۔
بغاوت کو فی الفور فرو کر دیا گیا اور لشکر دلی واپس ہو گیا۔ بعد ازاں دو باغی منگول سردار محمد شاہ اور کبھرو اپنے ساتھیوں کے ساتھ فرار ہو گئے۔ رنتھمبور کے بادشاہ ہمیر چوہان (مسلمان وقائع نگار انھیں ہمیر دیو سے یاد کرتے ہیں) نے ان منگول مفروروں کو اپنے پاس پناہ دے دی۔[2]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Kishori Saran Lal 1950، صفحہ 100-101
- ↑ Kishori Saran Lal 1950، صفحہ 88
کتابیات
ترمیم- Dasharatha Sharma (1959). Early Chauhān Dynasties. S. Chand / Motilal Banarsidass. ISBN:9780842606189.
{{حوالہ کتاب}}
: الوسيط|ref=harv
غير صالح (مساعدة)تصنيف:أخطاء الاستشهاد: قيمة غير صالحة لوسيطتصنيف:صيانة الاستشهاد: استشهادات بمسارات غير مؤرشفة - Banarsi Prasad Saksena (1992) [1970]. "The Khaljis: Alauddin Khalji". في Mohammad Habib and Khaliq Ahmad Nizami (المحرر). A Comprehensive History of India: The Delhi Sultanat (A.D. 1206-1526) (ط. Second). The Indian History Congress / People's Publishing House. ج. 5. OCLC:31870180.
{{حوالہ کتاب}}
: الوسيط|ref=harv
غير صالح (مساعدة)تصنيف:أخطاء الاستشهاد: قيمة غير صالحة لوسيطتصنيف:صيانة الاستشهاد: استشهادات بمسارات غير مؤرشفة - Kishori Saran Lal (1950). History of the Khaljis (1290-1320). Allahabad: The Indian Press. OCLC:685167335.
{{حوالہ کتاب}}
: الوسيط|ref=harv
غير صالح (مساعدة)تصنيف:أخطاء الاستشهاد: قيمة غير صالحة لوسيطتصنيف:صيانة الاستشهاد: استشهادات بمسارات غير مؤرشفة - Satish Chandra (2007). History of Medieval India: 800-1700. Orient Longman. ISBN:978-81-250-3226-7.
{{حوالہ کتاب}}
: الوسيط|ref=harv
غير صالح (مساعدة)تصنيف:أخطاء الاستشهاد: قيمة غير صالحة لوسيطتصنيف:صيانة الاستشهاد: استشهادات بمسارات غير مؤرشفة