الغ خان
الماس بیگ (وفات: 1301ء یا 1302ء) جو اپنے لقب الغ خان سے معروف ہیں، سلطنت دہلی کے فرماں روا علاء الدین خلجی کے بھائی اور سالار تھے۔ انھیں بیانا کا اقتدار حاصل تھا۔ سنہ 1296ء میں علاء الدین خلجی کے سلطنت دہلی کی تخت نشینی میں الغ خان کا انتہائی اہم کردار رہا ہے۔ الغ خان سلطان جلال الدین خلجی کو بہلا پھسلا کر کڑا مانک پور لے آئے جہاں علاء الدین نے انھیں قتل کر دیا۔ بعد ازاں انھوں نے ملتان کا انتہائی کامیاب محاصرہ کیا اور جلال الدین کے خاندان کے بچ رہنے والے افراد کو زیر کر لیا۔
الغ خان | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | 13ویں صدی |
وفات | سنہ 1315ء (113–114 سال) سلطنت دہلی |
خاندان | خلجی خاندان |
عسکری خدمات | |
وفاداری | سلطنت دہلی |
عہدہ | جرنیل |
لڑائیاں اور جنگیں | معرکہ کلی |
درستی - ترمیم |
سنہ 1298ء میں خانیت چغتائی کی جانب سے منگول ہندوستان پر حملہ آور ہوئے۔ چنانچہ الغ خان ان منگولوں کے خلاف ڈٹے رہے، بالآخر ان منگولوں کو پسپا ہونا پڑا۔ علاء الدین کی اس فتح نے ان کے قد کو مزید بلند کر دیا۔ اگلے سال الغ اور نصرت خان نے متمول صوبہ گجرات پر حملہ کیا۔ اس فتح کے نتیجے میں علاء الدین کے شاہی خزانے بھر گئے۔ نیز الغ خان نے منگولوں کے خلاف معرکہ کلی میں بھی فوجی کمک کی قیادت تھی اور محاصرہ رنتھمبور (1301ء) کے ابتدائی مرحلوں کے کماندار رہے تھے۔ رنتھمبور کی مہم ختم ہونے کے کچھ مہینوں بعد الغ خان کا انتقال ہو گیا۔
ابتدائی زندگی
ترمیمالغ خان کا اصل نام الماس خان تھا۔ ان کے والد شہاب الدین مسعود خلجی خاندان کے بانی سلطان جلال الدین خلجی کے بڑے بھائی تھے۔ علاء الدین خلجی کے علاوہ الغ کے مزید دو بھائی قطلغتگین اور محمد بھی تھے۔[1]
علاء الدین اور الغ خان دونوں کا نکاح جلال الدین خلجی کی بیٹیوں سے ہوا تھا۔ جب جلال الدین سلطنت دہلی کے تخت پر متمکن ہوئے تو انھوں نے علاء الدین کو امیر تزک اور الماس بیگ کو آخور بیگ (شہ سوار) کے منصب عطا کیے۔[2]
علاء الدین کی تخت نشینی
ترمیمسنہ 1291ء میں سلطان جلال الدین خلجی نے علاء الدین کو صوبہ کڑا کا حاکم بنایا۔ اگلے کچھ برس میں علاء الدین نے جلال الدین خلجی کو تخت سے ہٹانے دیوگیری پر حملہ آور ہوا، فتح کے بعد ہاتھ آئے مال غنیمت کو بجائے دلی بھیجنے کے کڑا لے آیا اور یہاں سے سلطان کو معذرت نامہ روانہ کر دیا۔[3] تاہم الغ خان نے سلطان کو یقین دلایا کہ علاء الدین باغی نہیں ہوا ہے۔ نیز انھوں نے سلطان کو یہ کہہ کر کڑا جانے کے لیے رضامند کر لیا کہ اگر سلطان خود کڑا جا کر علاء الدین کو معاف نہ کریں تو وہ اس احساس جرم کی وجہ سے خود کشی کر لے گا۔ چنانچہ سلطان کڑا پہنچے جہاں علاء الدین نے 20 جولائی 1296ء کو انھیں قتل کر دیا۔[4]
بعد ازاں جب علاء الدین خلجی سلطنت دہلی کے تخت پر متمکن ہوئے تو انھوں نے اپنے بھائی الماس کو "الغ خان" (عظیم خان[5]) کا خطاب دے کر بار بیگ بنا دیا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Banarsi Prasad Saksena 1992، ص 326
- ↑ Kishori Saran Lal 1950، ص 41
- ↑ Banarsi Prasad Saksena 1992، ص 323
- ↑ Banarsi Prasad Saksena 1992، ص 324
- ↑ Sunil Kumar 2013، ص 61
کتابیات
ترمیم- Asoke Kumar Majumdar (1956)۔ Chaulukyas of Gujarat۔ Bharatiya Vidya Bhavan۔ OCLC 4413150
- Banarsi Prasad Saksena (1992)۔ "The Khaljis: Alauddin Khalji"۔ $1 میں Mohammad Habib and Khaliq Ahmad Nizami۔ A Comprehensive History of India: The Delhi Sultanat (A.D. 1206-1526)۔ 5 (Second ایڈیشن)۔ The Indian History Congress / People's Publishing House۔ OCLC 31870180
- Edward Clive Bayley (1886)۔ The Local Muhammadan Dynasties - Gujarát۔ The History of India as Told by Its Own Historians۔ W.H. Allen and Co.۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مئی 2018
- Dasharatha Sharma (1959)۔ Early Chauhān Dynasties۔ S. Chand / Motilal Banarsidass۔ ISBN 9780842606189
- Kishori Saran Lal (1950)۔ History of the Khaljis (1290-1320)۔ Allahabad: The Indian Press۔ OCLC 685167335
- Peter Jackson (2003)۔ The Delhi Sultanate: A Political and Military History۔ Cambridge University Press۔ ISBN 978-0-521-54329-3۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مئی 2018
- Sunil Kumar (2013)۔ "The Ignored Elites: Turks, Mongols and a Persian Secretarial Class in the Early Delhi Sultanate"۔ $1 میں Richard M. Eaton۔ Expanding Frontiers in South Asian and World History۔ Cambridge University Press۔ ISBN 978-1-107-03428-0۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مئی 2018