نصرت خان (وفات: 1301ء) سلطنت دہلی کے فرماں روا علاء الدین خلجی کے ایک سالار تھے۔ نصرت خان سلطان علاء الدین کے وزیر بھی رہے۔ سنہ 1296ء کی دیوگیری اور سنہ 1299ء کی گجرات مہموں میں ان کا کلیدی کردار رہا۔ سنہ 1301ء میں محاصرہ رنتھمبور کے دوران میں نصرت خان مارے گئے۔

نصرت خان جلیسری
معلومات شخصیت
پیدائش جلسر   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1301ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رنتھمبور قلعہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی

ترمیم

نصرت خان "ملک نصرت جلیسری" کے نام سے بھی مشہور تھے۔ ان کے نام میں جلیسری کی نسبت بتاتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح جلیسر سے نسبت رکھتے تھے۔ سلطان علاء الدین خلجی نے انھیں "نصرت خان" کا خطاب دیا تھا۔[1]

پیشہ ورانہ زندگی

ترمیم

دیوگیری پر حملہ

ترمیم

نصرت خان سلطان علاء الدین خلجی کی رفاقت میں اس وقت سے تھے جب کہ ابھی وہ سلطنت دہلی کے تخت پر متمکن نہیں ہوئے تھے۔ جب سلطان کڑا کے حاکم تھے اس وقت انھوں نے نصرت خان کو دیوگیری پر حملہ کی فوجی مہم میں اپنی ہمرکابی کا شرف بخشا۔ یہ مہم سنہ 1296ء میں سر انجام پائی۔ علاء الدین کے پاس آٹھ ہزار گھڑ سواروں پر مشتمل لشکر تھا۔[2] لیکن افواہ یہ پھیلائی کہ لشکر کے محض ہراول دستے میں بیس ہزار گھڑ سوار ہیں، یہ افواہ جلد ہی دیوگیری پہنچ گئی۔[3] نیز شاہ دیوگیری رام چندر کی اپنی فوج بھی شہزادہ سنہان کی سرکردگی میں حدود سلطنت سے دور کسی مہم میں مصروف تھی۔ چنانچہ شاہ رام چندر نے علاء الدین کے سامنے مصالحت کا ڈول ڈالا۔[4]

تاہم معاہدہ صلح کے دستاویز پر دستخط ہونے سے قبل شہزادہ سنہان لوٹ آئے اور علاء الدین سے آمادہ جنگ ہوئے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر علاء الدین نے اپنی آدھی فوج یعنی ایک ہزار گھڑ سواروں کو نصرت خان کی کمان میں دیوگیری شہر میں چھوڑا اور خود بقیہ فوج کو لے کر سنہان سے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے۔ ابتدا میں علاء الدین کی فوج کو شکست ہوئی، لیکن نصرت خان کو جیسے ہی اس کی اطلاع ملی تو انھوں نے سلطان کے حکم کا انتظار کیے بغیر اپنی فوج کو لے کر میدان جنگ کی طرف روانہ ہو گئے۔ سنہان کی فوجیوں نے بیس ہزار فوجیوں کے ہراول دستہ کی افواہ سن رکھی تھی، چنانچہ جب انھوں نے نصرت خان کو آتے دیکھا تو اس غلط فہمی میں پڑ گئے کہ علاء الدین کا لشکر جرار آپہنچا ہے اور اسی دہشت میں میدان جنگ سے فرار ہو گئے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Iqtidar Alam Khan 2008، صفحہ 111
  2. Kishori Saran Lal 1950، صفحہ 49
  3. Kishori Saran Lal 1950، صفحہ 54
  4. Kishori Saran Lal 1950، صفحہ 55

کتابیات

ترمیم
  • Abraham Eraly (2015)۔ The Age of Wrath: A History of the Delhi Sultanate۔ Penguin Books۔ ISBN:978-93-5118-658-8۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-24 {{حوالہ کتاب}}: پیرامیٹر |ref=harv درست نہیں (معاونت)
  • Banarsi Prasad Saksena (1992)۔ "The Khaljis: Alauddin Khalji"۔ در Mohammad Habib and Khaliq Ahmad Nizami (مدیر)۔ A Comprehensive History of India: The Delhi Sultanat (A.D. 1206-1526) (Second ایڈیشن)۔ The Indian History Congress / People's Publishing House۔ ج 5۔ OCLC:31870180 {{حوالہ کتاب}}: پیرامیٹر |ref=harv درست نہیں (معاونت)
  • Iqtidar Alam Khan (2008)۔ Historical Dictionary of Medieval India۔ Scarecrow۔ ISBN:9780810864016۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-24 {{حوالہ کتاب}}: پیرامیٹر |ref=harv درست نہیں (معاونت)
  • Kishori Saran Lal (1950)۔ History of the Khaljis (1290-1320)۔ Allahabad: The Indian Press۔ OCLC:685167335 {{حوالہ کتاب}}: پیرامیٹر |ref=harv درست نہیں (معاونت)