خواجہ سید علاؤ الدین عطار کا شمار سلسلہ نقشبندیہ کے اکابرین مشائخ میں ہوتا ہے۔

علاؤ الدین عطار
(عربی میں: الشيخ علاء الدين عطار بخاری الخوارزمي قدس الله سره ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1318ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بخارا  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 26 مارچ 1400ء (81–82 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بخارا  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ بہاء الدین نقشبند بخاری  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص یعقوب چرخی،  شریف جرجانی  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ الٰہیات دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تصوف،  سلسلہ نقشبندیہ  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ولادت ترمیم

خواجہ علاؤ الدین عطار کی ولادت 718ھ میں ہوئی۔

نام ترمیم

آپ کا نام محمد بن محمد البخاری ہے اورعلاؤ الدین عطار کے نام سے معروف ہیں۔ جب آپ کے والد ماجد نے وفات پائی تو آپ نے ان کے ترکہ سے کوئی چیز قبول نہ کی اور حالت تجرید میں بخارا کے ایک مدرسے میں داخل ہو گئے۔ شروع ہی سے آپ کی طبیعت فقر کی طرف مائل تھی۔

آثار بزرگی ترمیم

ایک دن شاہ نقشبند اس مدرسے میں تشریف لائے جہاں آپ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ آپ نے شاہ نقشبند کی نورانی شکل دیکھی تو اٹھکر آپ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے۔ شاہ نقشبند نے آپ میں بزرگی کے آثار دیکھ لیے تھے اسی لیے لڑکپن ہی سے آپ پر شاہ نقشبند کی خصوصی نظر عنایت رہی۔ شاہ نقشبند آپ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ تھوڑے ہی عرصے بعد اپنی صاحبزادی کا نکاح آپ سے کر دیا۔ شاہ نقشبندکی آپ پر خاص نظر تھی مجالس میں آپ کو اپنے پاس بٹھاتے اور بار بار آپ کی طرف متوجہ ہوتے۔ بعض لوگوں نے اس کا سبب دریافت کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں اس کو اس لیے اپنے پاس بٹھاتا ہوں تا کہ ان کو بھیڑیا نہ کھا جائے۔ ان کے نفس کا بھیڑیا گھات لگا ئے بیٹھا ہے اس لیے ہر لحظہ ان کا حا ل دریافت کرتا رہتا ہوں۔ چنانچہ ان کی خاص توجہ سے آپ بہت جلد درجہ کمال پر پہنچ گئے۔[1]

شاہ نقشبند سے تعلق ترمیم

شاہ بہاؤ الدین نقشبند بانی سلسلہ نقشبندیہ کے قریبی دوست اور سب سے پہلے خلیفہ داماد اور جانشین ہیں۔ لڑکپن ہی سے آپ پر حضرت شاہ نقشبند کی خصوصی نظر عنایت رہی۔ درجہ کمال پر فائز ہونے کے بعد اپنے سامنے ہی طالبان طریقت کی تربیت خواجہ علاؤ الدین عطار کے سپرد کر دی تھی اور فرماتے تھے کہ علاؤ الدین نے ہمارا بوجھ کم کر دیا۔ یہی وہ چیز ہے کہ انوار و ولایت کے آثار بہت پہلے ہی سے موجود تھے۔ اور ان کی صحبت سے بہت سے سالکین مرتبہ کمال تک پہنچ گئے۔ انہی میں شریف الدین جرجانی بھی شامل تھے۔ جو آپ کے متعلق فرماتے ہیں۔ ”و اللہ ما عرفت الحق سبحانہ وتعالیٰ کما ینبغی مالم اصل الیٰ خدمۃ العطار البخاری“ کہ خدا کی قسم میں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو جیسا چاہیے نہیں پہچانا تھا جب تک کہ میں علاؤالدین عطار کی خدمت میں نہ پہنچا۔

وفات ترمیم

آپ کی وفات 20 ربیع الاول 802ھ بمطابق 20 نومبر 1399ء کو ہوئی۔[2][3] مزار موضع چغانیاں بخارا، ماوراء النہر کے علاقہ میں ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. حضرت مراد علی خاں رحمۃ اللہ علیہ
  2. باقیات جہان امام ربانی جلد دوم،صفحہ 359 ،امام ربانی فاؤنڈیشن کراچی
  3. نفحات الانس ،عبد الرحمن جامی،صفحہ 419،شبیر برادرز اردو بازار لاہور