علی پور سیداں جو پہلے تحصیل بھلوال میں شامل تھا اب بھیرہ کو تحصیل کا درجہ ملنے کے بعد تحصیل بھیرہ ضلع سرگودھا میں شامل کر دیا گیا ہے اس قصبہ کا اصل نام دہلی میں موجود متحدہ ہندوستان کے سرکاری لینڈ ریکارڈ کے مطابق “ علی پور سادہ “ ہے عربی اور فارسی میں لفظ سادہ جمع ہے“ سید “کی جس کا اردو ترجمہ ” سادات“ ہے یعنی علی پور سادات جو مقامی زبان اور وقت کے گذرنے کے ساتھ علی پور سادہ سے “علی پور سیداں” کہا جانے لگا جبکہ اصل لینڈ ریکارڈ کے مطابق اب بھی علی پور سادہ ہے جس کی بنیاد 1516میں بزرگ فقہی عالم سید قیام الدین ماژندرانی جن کا نسب پندرہ پشتوں کے بعد حضرت امام محمد تقی سے جا کر ملتا ہے نے رکھی۔ سید قیام الدین مازندرانی ایران نے شمالی صوبہ ماژندران سے مہاجرت کر کے مشہد خراسان افغانستان پارہ چنار سے ہوتے ہوئے متحدہ ہندوستان کے قدیمی اور جنگی گذرگاہ پر واقع اہم ترین شہر بھیرہ کے مقام پردریا کو عبورکرنے کے بعد دریا کے پاس دور دور تک پھیلے ہوئے گھنے جنگل میں کچھ درخت کاٹ کروہاں اپنی فرود گاہ بنانے کا فیصلہ کیا اپ نے اپنے بیٹے سید محمود مازندرانی اور پوتے عالم فقہی سید عطا اللہ مازندرانی کے ہمراہ مٹی سے چند گھر تعمیر کرنے کے بعد اپنے خاندان کو ان میں آباد کیا اور ان چند مکانات پر مشتمل جگہ کا نام علی پور سادہ رکھا جس میں آباد آپ کی اولاد تقوی سادات کہلاتی ہے شیر شاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد مغل شہزادے ہمایوں نے خراسان کے حاکم شاہ طہماسب کے ہاں پناہ حاصل کرلی اس دوران ہمایوں نے شاہ طہماسب کی کمک کے ساتھ ہندوستان پر دوبارہ حملہ کی تیاری کی اور 1554ءمیں مغل بادشاہ ہمایوں نے دوبارہ ہندوستان اپنی فوج کے ہمراہ دریا کو عبورکر کے بھیرہ پہنچا تو اس نے دریا کے پاس جنگی حکمت عملی کے تحت گھنے جنگل میں قیام کرنے کا فیصلہ کیا جب ان گھروں پر مشتمل علی پور سادہ کے سردار اورعالم فقہی نوجوان سید عطا اللہ مازندرانی التقوی کو ہمایوں کی آمد کا علم ہوا تو آپ نے اس کو گرم جوشی کے ساتھ خوش آمدید کہہ کراستقبال کرنے کے بعدہر ممکن مدد اور ایرانی رسم و رواج کے مطابق بھرپورمہمان نوازی کی جس کے صلہ میں بھیرہ کے نواح میں گھنے جنگل میں آباد علی پور سادہ اور اس کے جنوب مغرب کا سو مربع علاقہ سید عطا اللہ مازندرانی التقوی کو عطا کر دیا جس کے بعد نوجوان عالم فقہی سید عطا اللہ مازندرانی التقوی نے اس علاقہ میں اسلام کی بھرپور تبلیغ کے علاوہ اپنے گھروں کی حفاظت کے لیے گارے اور مٹی سے ایک چھوٹا سا قلعہ تعمیربھی کیا جسے رنجیت سنگھ کے بھیرہ پر حملہ کے دوران نہ صرف تباہ کیا بلکہ تقوی سادات کے گیارہ نوجوان سید زادوں کو تسلیم نہ ہونے کی وجہ سے اسی قلعہ کے سامنے درختوں کے ساتھ لٹکا کر پھانسی بھی دے دی اس قلعہ کے آثار آج بھی علی پور سیداں میں موجود ہیں علی پور سیداں میں سید عطا اللہ ماژندرانی کے دو صاحبزادے سید مبارک ماژندرانی اور سید نعمت ماژندرانی مدفون ہیں ان کے علاوہ انھی کی نسل سے حاجی سید رفیع الدین مازندرانی عرف باوہ حاجی صاحب جنھوں نے اس وقت صوبہ بھیرہ کے علاقہ میں دین اسلام کی تبلیغ کا پورا حق ادا کیا کے جن کے مزارات آج بھی علی پور سیداں میں مرکزِ انواروتجلیات ہیں۔ [2]