عمان میں اسلام
عمان کی تقریباً ساری آبادی مسلمان ہے، جن میں سے تین چوتھائی عبد اللہ بن اباض کے اباضیہ مکتب فکر سے ہیں۔[1] یہ خارجیوں کا واحد اظہار ہے ج واب بھ باقی ہے، جن کی وجہ سے اسلام میں اولین فرقہ پیدا ہوا۔[2]
تاریخ
ترمیمعمان میں اسلام اپنے آغاز کے وقت ہی سے پھیل گیا تھا، اہل عمان کا ایک وف قبیلہ ازد سے محمد بن عبد اللہ کے پاس آیا۔ جب اہل عمان مسلمان ہوئے تو محمد بن عبد اللہ نے علا بن الحضرمی کو ان کے پاس بھیجا تاکہ انھیں شرائع اسلام سکھائیں اور زکوۃ وصول کریں۔
ان لوگوں کا ایک وفد آیا جن میں أسد بن یبرح الطاحی بھی تھے، جب محمد بن عبد اللہ سے ملاقات کی تو عرض کیا کہ ان کے ساتھ کسی ایسے شخص کو روانہ کریں جو ان کے معاملات کا انتظام بھی کرے۔ مخربہ العبدی جن کا نام مدرك بن خوط تھا نے عرض کی کہ مجھے ان کے ساتھ روانہ کریں کیونکہ ان کا مجھ پر ایک احسان بھی ہے کہ جنگ جنوب میں میں جب گرفتار ہو گیا تھا انھوں نے مجھے احسان کرتے ہوئے رہا کیا تھا محمد بن عبد اللہ نے انہی کو ان کے ساتھ عمان روانہ فرمایا۔
ان کے بعد سلمہ بن عياذ الأزدی بھی اپنی قوم کے چند لوگوں کے ساتھ آئے انھوں نے محمد بن عبد اللہ سے دریافت کیا کہ آپ کس کی عبادت کرتے ہیں اور کس چیز کی دعوت دیتے ہیں، جب محمد بن عبد اللہ نے انھیں بتایا تو کہنے لگے دعا کریں کہ اللہ ہماری بات اور الفت کو جمع کر دے۔
آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی وہ اور ان کے ساتھی اسلام لائے۔[3]
محمد بن عبد اللہ نے فرمایا قبیلہ ازد کے لوگ کتنی بہترین قوم ہیں ان کے منہ پاکیزہ ایمان عمدہ اور دل صاف ستھرے ہوتے ہیں۔[4]
عمان کا پیغام
ترمیمعمان کا پیغام اردن، عمان میں قاضی القضا شیخ عز الدین التمیمی نے شاہ عبد اللہ دوم اند بہت سے مسلمان علما کی موجودگی میں رمضان کے خطاب کے طور پر دیا۔[5] بین الاقوامی بحران کی جماعت (انگریزی: International Crisis Group) کی ایک شائع کردہ رپورٹ کے مطابق خطاب میں دردمندی، برداشت، قبولیت اور مذہبی آزادی کی بنیادی اسلامی اقدار پر دوبارہ زور دیا گیا۔"[6] اگلے سال، جولائی 2005 میں 50 مسلم ممالک کے 200 مسلمان علما کے ایک اجلاس کے بعد تین نکاتی فیصلہ شائع کیا گیا جو بعد میں ‘عمان کے پیغام کے تین نکات‘ ('Three Points of the Amman Message') کے نام سے جانا گیا۔[7] اس اعلان میں اس بات پر توجہ دلائی گئی کہ:[8]
- اسلام میں آٹھ قانونی مذاہب اور متغیر شاخیں تسلیم کی گئی ہیں جس کی تفصیل یہ ہے:[9]
- درج ذیل مذاہب/طریق/عقائد کے مقلدین کو مرتد قرار دینے سے منع کیا گیا:[9]
- اشعری مذہب
- حقیقی تصوف کے طریقے (صوفی ازم)
- حقیقی “سلفی تحریک“ عقائد کے حاملین
- اُن دوسرے تمام فرقوں کی تکفیر کی ممانعت کی گئی ہے جو مسلمان مانے جاتے ہیں۔
- خلاف شرع فتاویٰ کی روک تھام کے لیے یہ بنیادی شرائط رکھی گئی ہیں۔
شاہ عبد اللہ نے اس پیغام کے اعلان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، “ہم نے محسوس کیا ہے کہ اسلام کے برداشت سے متعلق پیغام کو اسلام کی روح سے ناواقف مغربی دنیا کے کچھ لوگوں اور غیر ذمہ دارانہ اعمال کو چھپانے کے لیے اپنا تعلق اسلام سے ظاہر کرنے والے کچھ لوگوں کی طرف سے شدید اور غیر منصفانہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔“[10]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "Oman"۔ CIA – The World Factbook۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-10-29
- ↑ Common، Richard K.۔ "Barriers To Developing 'Leadership' In The Sultanate Of Oman" (PDF)۔ International Journal of Leadership Studies۔ 2018-04-09 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-11-24
- ↑ طبقات ابن سعد ، حصہ دوم صفحہ 94، محمد بن سعد ،نفیس اکیڈمی کراچی
- ↑ مسند احمد: جلد چہارم:ح دیث نمبر 1440
- ↑ "Jordan issues the 'Amman Message' on Islam"۔ Embassy of Jordan – Washington, DC۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2007-08-15
{{حوالہ ویب}}
: اس حوالہ میں نامعلوم یا خالی پیرامیٹر موجود ہے:|5=
(معاونت) والوسيط غير المعروف|deadurl=
تم تجاهله (معاونت) - ↑
- ↑
- ↑ The Amman Message summary – Official website
- ^ ا ب The Three Points of The Amman Message V.1
- ↑ "King Abdullah calls to end extremism"۔ Jerusalem Post۔ اخذ شدہ بتاریخ 2007-08-15
بیرونی روابط
ترمیم- Omani Ministry of Foreign Affairsآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ mofa.gov.om (Error: unknown archive URL)