عمرہ بنت عبد الرحمن انصاریہ، مدینہ منورہ کی تابعیہ ہیں اور حدیث کی راویہ ہیں۔

عمرہ بنت عبد الرحمن
(عربی میں: عمرة بنت عبد الرحمن بن أسعد بن زرارة بن عُدُس)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائشی نام عمرہ بنت عبد الرحمن
پیدائش سنہ 642ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 724ء (81–82 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد ابو الرجال محمد بن عبد الرحمن انصاری
عملی زندگی
نسب نجاریہ انصاریہ
پیشہ محدثہ [3]،  فقیہہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سیرت

ترمیم

عمرہ بنت عبد الرحمن بن سعد بن زرارہ بن عدس نجاریہ انصاریہ کی پیدائش مدینہ منورہ میں سنہ 29 ہجری میں ہوئی،[4] ان کے دادا سعد بن زرارہ صحابی ہیں اور مشہور صحابی اور انصار کے سرداروں میں سے ایک اسعد بن زرارہ کے بھائی ہیں۔[5] عمرہ کی والدہ سالمہ بنت حکیم بن ہاشم بن قوالہ ہیں۔[6] عمرہ اور ان کی بہنوں کی پرورش و تربیت ام المؤمنین عائشہ بنت ابی بکر کے زیر سایہ ہوئی،[4][5][6] ان سے حدیث کی سماعت کی اور انھیں سے فقہ بھی حاصل کیا، یہاں تک کہ حضرت عائشہ سے مروی روایات کی طالبین حدیث کے لیے مرجع بن گئیں اور جب اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے حدیث کی جمع و تدوین کا ارادہ کیا تو عمرہ کے بھتیجے ابو بکر بن حازم جو اس وقت مدینہ منورہ کے قاضی تھے انھیں حکم دیا: «رسول اللہ کی احادیث، سنت ماضیہ اور عمرہ سے مروی احادیث کو دیکھو تو اسے لکھ لیا کرو، مجھے علم کے اسباق اور اس کے اہل کے ختم ہو جانے کا خدشہ ہے»۔[6]

اساتذہ

ترمیم

یعنی جن سے عمرہ نے روایت بیان کی ہے۔

تلامذہ

ترمیم

عمرہ سے روایات بیان کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے: ابن شہاب زہری، عبد اللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم، یحیی بن سعید انصاری،[6] ابو الرجال محمد بن عبد الرحمن انصاری، حارثہ بن ابو الرجال، مالک بن ابو الرجال، قاضی ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم، محمد بن ابو بکر (قاضی ابو بکر کے بیٹے)،[5] رزیق بن حکیم، سعد بن سعید انصاری، عروہ بن زبیر، عمرو بن دینار، یحیی بن عبد اللہ بن عبد الرحمن انصاری، رائطہ مزنیہ اور فاطمہ بنت منذر بن زبیر وغیرہ۔[4]

علمائے جرح و تعدیل کی آرا

ترمیم

عمرہ کے بارے میں امام ذہبی لکھتے ہیں: «عالمہ، فقیہہ، حجت اور کثیر العلم تھیں»، قاسم بن محمد بن ابی بکر نے ابن شہاب زہری کو ان الفاظ سے وصیت کی ہے: «بچے، کیا تجھے طلب علم کا شوق ہے، کیا تمھیں علم کے حافظہ کی رہنمائی کروں؟» کہا «کیوں نہیں» فرمایا: «عمرہ کی صحبت اختیار کر لو، اس لیے وہ عائشہ کی گود میں پروان چڑھی ہیں» زہری کہتے ہیں: «جب میں ان کے پاس آیا، میں نے دیکھا کہ (علم کا) ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہیں»۔[5] علی بن مدینی کہتے ہیں: «عمرہ، عائشہ سے علم کرنے والے ثقہ اور ثابت لوگوں میں سے ہیں»۔ یحیی بن معین اور عجلی نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے، اسی ابن حبان نے اپنی کتاب "الثقات" میں ان کا ذکر کیا ہے۔ ایک بڑی جماعت نے ان سے روایت کیا ہے۔[4]

وفات

ترمیم

سنہ وفات میں اختلاف ہے، بعض کے مطابق سنہ 98ہجری میں وفات ہوئی اور بعض کے مطابق سنہ 106ھ میں۔[5] وفات کے وقت ان کی عمر تقریباً 77 سال تھی۔[4]

عمرہ کا نکاح عبد الرحمن بن عبد اللہ بن حارثہ بن نعمان نجاری انصاری سے ہوا تھا۔[7] ان سے ان کے لڑکے ابو الرجال محمد بن عبد الرحمن انصاری ہوئے جو حدیث کے ثقہ راوی ہیں۔[4][6]

حوالہ جات

ترمیم