عمومی اضافیت
وابستہ موضوعات

ترمیم

عمومی اضافیت (انگریزی: General relativity) (جسے عمومی نظریہ اضافت بھی کہا جاتا ہے) کشش ثقل کے بارے میں سنہ 1915ء میں آئن سٹائن کا جیومیٹری کی بنا پر پیش کیا گیا ایک نظریہ ہے[1] جسے اب جدید طبیعیات میں کششِ ثقل کی قابلِ اعتماد وضاحت مانا جاتا ہے۔ عمومی نظریہ اضافت میں آئن سٹائن کے خصوصی نظریہ اضافت اور نیوٹن کے کششِ ثقل کے قوانین کی ایک عمومی توضیح کی جاتی ہے جس کے مطابق کششِ ثقل زمان و مکان یعنی زمان-مکان کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو جیومیٹری کے ذریعے بیان کی جا سکتی ہے، خصوصاً زمان-مکان میں گھماؤ (curvature) اس میں موجود مادہ اور شعاعوں (فوٹونز) کی توانائی اور مومینٹم کے ساتھ منسلک ہے۔ اس تعلق کو آئن سٹائن کی میدانی مساوات (field equations) میں ظاہر کیا گیا ہے جو چند جزوی تفرقی مساواتوں (partial differential equations) پر مشتمل ہیں۔

عمومی نظریہ اضافت کی کچھ پیش گوئیاں کلاسیکی طبیعیات کی پیش گوئیوں سے بہت مختلف ہیں، خاص طور پر وقت کے گزرنے، خلا کی جیومیٹری، آزادانہ طور پر گرتے ہوئے اجسام کی حرکات اور روشنی کے گذرنے کے بارے میں دونوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان کی کچھ مثالیں یہ ہیں، کششِ ثقل کی وجہ سے وقت کی رفتار کم ہوجانا، کششِ ثقل کا عدسے کی طرح کام کرنا، کششِ ثقل کی وجہ سے روشنی کے رنگوں کا سرخی کی طرف مائل ہونا وغیرہ۔

عمومی نظریہ اضافت کے حوالے سے آج تک جتنے بھی تجربات کیے گئے ہیں ان میں اس کی پیش گوئیاں درست ثابت ہوئی ہیں، اگرچہ عمومی نظریہ اضافت کششِ ثقل کا واحد نظریہ نہیں ہے لیکن دیگر نظریات کی بنسبت یہ سب سے سادہ ہے اور اس کی پیش گوئیاں زیادہ صحیح ثابت ہوئی ہیں، تاہم ابھی تک بہت سے سوالات کے جواب دینا باقی ہیں۔ سب سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ عمومی نظریہ اضافت کو کوانٹم میکانکس کے ساتھ کس طرح منطبق کیا جائے تاکہ کششِ ثقل کی کوانٹم فزکس کی رو سے وضاحت کی جاسکے۔

آئن سٹائن کے نظریات کے بہت سے نتائج دیکھے جا چکے ہیں، مثال کے طور پر عمومی نظریہ اضافت بلیک ہولز کی پیش گوئی کرتا ہے جس میں ایک بہت زیادہ کمیت والے ستارے کی زندگی کے اختتام پر اس میں موجود مادہ کے اپنے مرکز کی طرف گرنے سے زمان-مکان اتنا مسخ ہو جاتا ہے کہ اس سے کچھ بھی باہر نہیں نکل سکتا، حتی کہ روشنی بھی نہیں نکل سکتی۔ ہمارے پاس اب ایسے بہت سے شواہد ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ بہت دور موجود کچھ اجسام میں سے بے انتہا طاقتور شعاعوں کا اخراج اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہاں پر ایک بلیک ہول موجود ہے، مثال کے طور پر مائکرو کوازرز اور کہکشاؤں کے مرکز سے نکلنے والی شعاعیں بالترتیب ستاروں کے گرنے سے بنے بلیک ہول اور عظیم الجثہ بلیک ہول (supermassive black hole) کی وجہ سے ہوتی ہے۔

کششِ ثقل کی وجہ سے روشنی کے مڑ جانے سے ثقلی عدسہ (gravitational lensing) کا مظہر پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے دور دراز کے فلکی اجسام دو یا دو سے زیادہ جگہ نظر آنے لگتے ہیں- عمومی نظریہ اضافت کی ایک اور پیش گوئی کششِ ثقل کی لہریں ہے جن کا بالواسطہ طور پر تو مشاہدہ کیا جا چکا ہے لیکن بلاواسطہ مشاہدے کے لیے LIGO ،eLISA اور pulsar timing array جیسے آلات بنائے گئے ہیں، اس کے علاوہ عمومی نظریہ اضافت کائنات کے پھیلاؤ کے موجودہ تکوینی ماڈل کی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. O'Connor, J.J. and Robertson, E.F. (1996), General relativity. Mathematical Physics index, School of Mathematics and Statistics, University of St. Andrews, Scotland. Retrieved 2015-02-04.