غزوہ حمراء الاسد

مسلمانوں اور مکہ کی ابتدائی جنگوں میں سے ایک

حضور نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مجاہدین اسلام کو جنگ احد کے بعد ہتهیار اتارے ابهی ایک دن بهی نہ گذرا تها کہ غزوہ حمراءالاسد پیش آگیا۔ جب کفار مکہ میدان احد سے باہر نکلے تهے تو حضور نبی کریم ﷺ نے علی المرتضی کو ان کا تعاقب کرنے کا حکم دیا تاکہ یہ یقین کر لیا جائے کہ وہ واقعی مکہ معظمہ واپس جا رہے ہیں یا دوبارہ مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ رکهتے ہیں علی المرتضی نے کافی دور تک ان کا تعاقب کیا اور واپس آکر خبر دی کہ کفار نے مکہ کا ہی رخ کیا ہوا۔ لہذا اب خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن شیطان نے ان کو ورغلایا کہ مسلمانوں کی اہم ہستیاں ابهی زندہ ہیں اور یہ لوگ دوبارہ مسلمانوں کو منظم کرکے مزید طاقتور لشکر لے کر دوبارہ مکہ پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکهتے ہیں لیکن اس وقت مسلمان زخموں سے نڈهال ہیں ابهی ان میں لڑنے کی سکت نہیں ہے لہذا دو بارہ ان پر حملہ کر دینا چاہیے اس قسم کے بیہودہ خیالات نے انھیں دوبارہ حملہ کرنے پر آمادہ کیا لہذا دوسرے روز وہ مکہ کی جانب جانے کی بجائے مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ حضور نبی کریم ﷺ کو اطلاع ملی تو آپ نے مسلمانوں کو فوری تیاری کا حکم دیا اور اعلان فرمایا کہ اس لشکرمیں صرف وہی مجاہدین شامل ہوں گے جو کل غزوہ احد میں شریک ہوئے تهے جنگ احد کے اگلے دن مجاہدین نے دوبارہ اسلحہ اٹهایا اور جنگ کے لیے تیار ہو گئے ان میں اکثر مجایدین زخمی تهے کسی کے جسم پر ستر زخم تهے تو کسی کے جسم پر اسی زخم تهے لیکن حضور اکرم ﷺ کے اشارے پرزخموں سے چور یہ لشکر دوبارہ جنگ کے لیے تیار ہو گیا۔

جابر بن عبد اللہ ہتهیار لگائے بارگاہ رسالت میں پیش ہوئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ! میں جنگ احد میں اس لیے شریک نہ ہو سکا کہ میرے والد صاحب نے مجهے کہا تها کہ تم ابهی کم عمر ہو اور گهر میں تیری سات بہنیں ہیں تم ان کے پاس گهر میں رہو جہاد کے لیے میں جاتا ہوں چنانچہ میرے والد جنگ احد میں شہید ہو گئے اور اب آپ ﷺ مجهے اس غزوہ میں شرکت کی اجازت عنایت فرمائیں نبی کریم رؤف رحیمؐ نے جابر بن عبد اللہ کو اجازت دے دی۔ جابر کے سوا اس لشکر میں شریک تمام مجاہدین وہی تھے جو جنگ احد میں شریک ہوئے تھے۔ حمراءالاسد مدینہ منورہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر ایک بستی ہے جب لشکر اسلام یہاں پہنچا تو حضور نبی کریمؐ نے یہاں خیمہ زن ہو نے کا حکم صادر فرمایا۔ اسی مقام پر قبیلہ بنو خزاعہ کا ایک رئیس شخص معبد نامی بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوا۔ معبد مسلمان ہونے کے بعد مکہ کی طرف جاتے ہوئے الروحاءکے مقام پر ابو سفیان سے ملا۔ ابوسفیان کو بتایا کہ مسلمان ایک لشکر جرار لے کر نہایت جوش و جذبہ اور غصہ کی حالت میں تمھارے پیچھے دوڑے آ رہے ہیں۔ جو مسلمان غزوہ احد میں شریک نہ ہو سکے تھے وہ سب اس لشکر میں شامل تھے۔ اس لیے تمھارے لیے بہتر یہی ہے کہ تم واپس مکہ چلے جاؤ ورنہ سخت نقصان اٹھاؤ گے۔ ابوسفیان نے اپنے لشکر کو حالات سے باخبر کیا اور وہ سب مکہ کی طرف روانہ ہو گئے آپؐ کئی روز حمراءالاسد میں ٹھہرے رہے اور کفار کے لشکر کا انتظار کرتے رہے۔ چند روز وہاں قیام کرنے کے بعد آپؐ اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے اور فتح وکامرانی کا پرچم لہراتے ہوئے واپس مدینہ طیبہ تشریف لے آئے۔