فاطمہ لطیف کی خود کشی

فاطمہ لطیف کی خود کشی

فاطمہ لطیف آئی آئی ٹی، چینائی، بھارت میں پڑھنے والی ایک طالبہ تھی جس نے مبینہ طور پر اپنے تعلیمی ادارے کے ایک پروفیسر کے تعصب آمیز رویے کے خلاف 9 نومبر، 2019ء کو اپنے ہاسٹل کے پنکھے سے خود کو لٹکا کر خود کشی کی تھی۔ یہ اتفاق سے وہی تاریخ ہے جس دن سپریم کورٹ نے ایودھیا، اتر پردیش میں واقع بابری مسجد کی منہدمہ اراضی کے تنازع کا فیصلہ سنایا اور اس اراضی کی ملکیت اس مقدمے کے ایک ہندو فریق کے حوالے کی، جب کہ مسلمانوں کی راحت کے لیے الگ سے پانچ ایکڑ زمین حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان دو واقعات جن کا بظاہر کوئی تال میل نہیں ہے، یکساں پیش آنا بھارت کے مسلمانوں کے حلقے میں اضطرابی کیفیت برپا کرنے کا باعث بنا۔

فاطمہ لطیف کی تصویر۔ تصویر کے ایک جانب آئی آئی ٹی چینائی کے وہ طلبہ جو اس خود کشی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

واقعہ

ترمیم

فاطمہ لطیف کا تعلق کیرلا کے کولم علاقے سے تھا۔ وہ آئی آئی ٹی، چینائی میں ہیومینیٹیز اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کی طالبہ تھی۔ اطلاعات کے مطابق اس کا ایک پروفیسر سے تصادم چند نشانات کے نہ دیے جانے سے شروع ہوا۔ وہ پروفیسر کے رویے کے خلاف صدر شعبہ سے بھی رجوع ہوئی۔ مگر اس کوشش میں پروفیسر اس بات کو اپنی انا کا معاملہ سمجھ لیا اور ستانے لگا۔ ناچاقی صورت حال کی ایک وجہ بھی بتائی گئی کہ پروفیسر ملک کے اکثریتی فرقے سے تعلق رکھتا تھا اور یہ طالبہ ایک اقلیتی فرقے سے تعلق رکھتی تھی۔ مبینہ طور پر ہراسانی کی وجہ سے 9 نومبر 2019ء کو فاطمہ نے ہاسٹل کے پنکھے سے لٹک کر جان دیتی۔ اس کے ساتھ کوئی خود کشی کا نوٹ دست یاب نہیں ہوا۔ تاہم اس ہراسانی کا تذکرہ اس کے موبائل فون میں موجود تھا۔ اگر واقعہ پایۂ ثبوت کو پہنچ جائے تو یہ اپنے آپ میں ملک میں خراب نظیر بن کر ابھر سکتی ہے، کیوں کہ آئی آئی ٹی ملک بھر میں ٹیکنالوجی اور انجینئری کی تعلیم کے سب سے معیاری ادارے سمجھے جاتے ہیں اور اس واقعے تک ان پر کہیں کسی گوشے سے انگلی نہیں اٹھائی گئی تھی۔[1]

رد عمل

ترمیم

فاطمہ لطیف کی موت پر سماجی میڈیا پر کافی احتجاج کیا گیا۔ تمل ناڈو کے وزیر اعلٰی پلانی سوامی نے مکمل تحقیقات اور کار روائی کا وعدہ کیا۔[2] اس واقعے کے خلاف تمل ناڈو کی مسلمان تنظیموں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ نے شدید احتجاج کیا۔[3]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم