فخر الدین قباوہ
فخر الدین قباوہ (پیدائش: 1933ء) شامی ماہرِ لسانیات، مصنف اور محقق، جنہوں نے اپنی وقیع علمی خدمات سے شہرت پائی۔ وہ زبانِ عامیہ اور زبان کی عولمہ کے شدید مخالف تھے اور نحو و لغت میں حدیثِ نبوی کے استشہاد کو احیاء دینے کے لیے کوشاں رہے۔
فخر الدین قباوہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1933ء (عمر 90–91 سال)[1] حلب |
شہریت | سوریہ |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ دمشق (–1958) جامعہ قاہرہ (–1966) |
تخصص تعلیم | عربی ادب |
تعلیمی اسناد | بیچلر ،ڈاکٹریٹ |
استاذ | Sa'id al-Afghani ، شوقی ضیف |
پیشہ | مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمفخرالدین بن نجیب بن عمر قباوہ 1933ء میں شام کے شہر حلب میں ایک عام خاندان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں مکمل کی اور اپنے والد کے کیفے میں کام کیا۔ والد کی وفات کے بعد انھوں نے کپڑے اور جوتے بنانے کے پیشے میں کام کیا۔ ساتھ ہی شام کے نظامِ لیلی میں متوسط اور ثانوی تعلیم جاری رکھی۔ انہوں نے دارالمعلمین سے ابتدائی تدریسی اہلیت حاصل کی اور 1954ء میں ابتدائی اسکولوں میں تدریس کا آغاز کیا۔ بعدازاں جامعہ دمشق کے کلیۃ الآداب میں داخلہ لیا اور 1959ء میں فارغ التحصیل ہوکر ثانوی تدریس کے اہل ہوگئے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے قاہرہ گئے اور ادبِ قدیم میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ بعدازاں، انھوں نے مختلف جامعات میں تدریس کی، جن میں جامعہ حلب، جامعہ تشریں، مراکش کی جامعہ محمد بن عبداللہ (فاس)، اور سعودی عرب میں جامعہ الامام محمد بن سعود (قصیم) شامل ہیں۔ انہوں نے کئی ایم فل اور پی ایچ ڈی مقالوں کی نگرانی کی اور ان کا جائزہ لیا۔ 2005ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے اپنی توجہ تصنیف و تحقیق پر مرکوز کر دی۔[2][3]
تعلیمی اسناد
ترمیم1954ء: دارالمعلمین، حلب۔
1958ء: عربی زبان و ادب میں بی اے، جامعہ دمشق۔
1960ء: تعلیمی انتظام و انسپکشن میں ڈپلومہ، جامعہ دمشق۔
1964ء: ادبِ قدیم میں ماسٹرز، جامعہ قاہرہ۔
1966ء: ادبِ قدیم میں ڈاکٹریٹ، جامعہ قاہرہ۔
[2][3]
شیوخ
ترمیمفخرالدین قباوہ نے درج ذیل علمی شخصیات سے استفادہ کیا:
عبد الوہاب التونجی
سعید افغانی
عبد الرحمن رأفت الباشا
عبد الرحمن عطبہ
شکری فیصل
محمد المبارک
صبحی الصالح
عمر فروخ
شوقی ضیف
یوسف عبد القادر خلیف
حسین نصار
[3]
وقوله: «تعلم اللغة العربية سنة مؤكدة وعلى العرب والمسلمين أن يتقنوها ويستخدموها في حياتهم العامة دون غيرها»[4]
کارنامے
ترمیم- اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد صرف دو سالوں میں بیس کتابیں شائع کیں۔
- عرب دنیا کے متعدد علمی اداروں اور اکادمیوں کے رکن منتخب ہوئے۔
مؤلفات
ترمیم- ابن عصفور والتصريف، ط 2 دار الفكر بدمشق 2000م.[3]
- أبواب ومسائل من الخصائص والإنصاف، ط 2 دار الفكر بدمشق 2001م.[2]
- إحياء البحث العلمي الإسلامي ونشوء اللغات وتطورها نموذجاً، دار هارون الرشيد بدمشق 1428هـ.[2]
- إشكاليات في البحث والنقد النحويين، دار الملتقى بحلب 1424هـ.[2]
- إعراب الجمل وأشباه الجمل، ط 12 حلب 2007م.[2][3]
- إعراب القرآن الكريم (أقراص مضغوطة للكبار) دار الملتقى بحلب 1424هـ.[2]
- الأخطل الكبير، ط 3 دار لونجمان بالقاهرة 2007م .[2][3]
- الإعراب المنهجي للقرآن الكريم.[2]
- التحليل النحوي- أصوله وأدلته، دار لونجمان بالقاهرة 1422هـ.[2]
- التصريف المشترك، دار هارون الرشيد بدمشق 1428هـ.[2]
- التفسير الوافي للناشئة.[2]
- المفصل في تفسير القرآن الكريم.[2]
- المهارات اللغوية وعروبة اللسان، دار الفكر بدمشق 1999م.[2]
- المورد النحوي الكبير، ط 7 دار طلاس بدمشق 2005م.[2][3]
- المورد النحوي، ط 11، دار الملتقى بحلب 2006م.[2][3]
- النهج الإسلامي للتعليم العالي ونموذجان بالتبريزي والمهارات النحوية، دار القلم بحلب 1428هـ.[2]
- أين قدسية اللغة العربية؟.[2]
- بوادر شرح الشعر، مجمع اللغة بدمشق 1395.[2]
- تحليل النص النحوي : منهج ونموذج.[2][3]
- تطور مشكلة الفصاحة والتحليل البلاغي.[2]
- تكوين المهارات النحويـة، دار هارون الرشيد بدمشق 1428هـ.[2]
- سلامة بن جندل الشاعر الفارس، ط 2 دار الفكر بدمشق 1994م.[2][3]
- علامات الترقيم في اللغة العربية، دار الملتقى بحلب 1427هـ.[2]
- علم التحقيق للمخطوطات العربية دار الملتقى بحلب 1426هـ.[2]
- فتاوى في علوم العربية، دار الملتقى بحلب 1428هـ.[2]
- قراءة موجهة لنصوص التراث في رحاب المكتبة العربية ـ مناهج ونماذج، دار الملتقى بحلب 1424هـ.[2][3]
- مبرز القواعد الإعرابية، الرسموكي، ط 2 دار الملتقى 2007م.[2]
- مشكلة العامل النحوي ونظريةُ الاقتضاء، دار الفكر بدمشق 1423هـ.[2]
- مع الشعر والشعراء، دار هارون الرشيد بدمشق 1428هـ.[2]
- منهج التبريزي في شروحه والقيمة التاريخية للمفضليات، ط 2 دار الفكر بدمشق 1997م.[2][3]
- موسيقى الشعر.[2]
- نصوص نحوية فيها مختارات من الكتب التراثية، ط 2 دار الفكر بدمشق 1999م.[2]
- وظيفة المصدر في الاشتقاق والإعراب، دار القلم بحلب 1428هـ.[2]
- «ولا يزالون يقاتلونكم: في ميدان التعليم والبحث العلمي وعروبة اللسان»، دار الملتقى بحلب 1424هـ.[2]
- الاقتصاد اللغوي في صياغة المفرد، دار لونجمان بالقاهرة 2001م.[2]
- تاريخ الاحتجاج النحوي بالحديث الشريف دار الملتقى بحلب 1425هـ.[2]
- تحليل النص النحوي ـ منهج ونموذج، دار الفكر بدمشق 1997م.[2]
- تصريف الأسماء والأفعال، ط 3 مكتبة المعارف ببيروت 1998م.[2][3]
- تطور مشكلة الفصاحة والتحليل البلاغي وموسيقى الشعر، دار الفكر بدمشق 1999م.[2][3]
- النهج الإسلامي للتعليم العالي، دار السلام - القاهرة.[5]
- النظرية الإسلامية في نشوء اللغات وتطورها، دار السلام - القاهرة.[5]
- أبحاث عليا معاصرة في كتب التفاسير، دار السلام - القاهرة.[5]
- إعراب كتاب رياض الصالحين، مكتبة لبنان.
المراجع
ترمیم- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb145839233 — اخذ شدہ بتاریخ: 31 مئی 2024 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر ڑ ز ژ س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ی ے اا اب ات فخر الدين قباوة (2018-12-02)۔ "د. فخر الدين قباوة - عالم عصامي لغوي مفسر"۔ رابطة العلماء السوريين۔ 15 يناير 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر سانچہ:استشهاد بمجلة
- ↑ سانچہ:استشهاد بدورية محكمة
- ^ ا ب پ "كتب فخر الدين قباوة - عصير الكتب"۔ عصير الكتب۔ 2021-12-13۔ 13 نوفمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ