فرانسیسی فن تعمیر
فرانسیسی فن تعمیر فرانس کے کئی کارہائے نمایاں میں سر فہرست ہے۔ فرانس میں قدیم مسیحی گرجاگھروں کی عمارتیں پانچویں صدی عیسوی سے ملتی ہیں۔ مارسائی کا گرجاگھر اور میلا وغیرہ کے بپتسمہ گھر اسی دور کے ہیں۔ ان کا طرز تعمیر اٹلی اور بحیرہ روم کے علاقہ کے دوسرے گرجاگھروں سے کچھ مختلف نہیں ہے۔
فن تعمیر کا رومی دور دسویں صدی عیسوی سے شروع ہوتا ہے۔ گیارہویں اور بارہویں صدی میں جو گرجاگھر بنے ان میں صلیب نما گرجے کا عرضی حصہ، بغلی راستوں کے ساتھ اور وہ مقابلتاً اونچائی پر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں گیلریاں، تہ خانے اور سرنگیں بنی ہوتی تھیں۔ تہ خانے اور سرنگیں پتھر کی بنائی جاتی تھیں اور چھتیں لکڑی کی ہوتی تھیں۔ اس دور کے مشہور گرجاگھر سان آنتیان اوسان ترینتے ہیں۔ فرانس میں گوتھک فن تعمیر کی ابتدا تقریباً 1140ء سے ہوتی ہے۔ سب سے پہلے یہ فن تعمیر سینٹ ڈینس اور سینس کے گرجاگھروں میں استعمال ہوا۔ اس میں نوکدار کمانیں استعمال کی گئی ہیں۔ ان دونوں میں دو دو مینارے ہیں۔ سینٹ ڈینس میں گوتھک طرز کے مینار نما مجسمے بھی ہیں۔
ابتدائی گوتھک دور کے گرجاگھر سینس، لائون اور پیرس وغیرہ میں ہیں۔ یہ سب بارہویں صدی عیسوی کے ہیں۔ بارہویں اور تیرہویں صدی میں فرانس میں بے شمار گرجاگھر تعمیر ہوئے۔ چودہویں صدی عیسوی کے بڑے حصے میں تعمیری سرگرمیاں بہت کم رہیں۔
1200ء تک قلعوں کی تعمیر میں کافی ترقی ہو چکی تھی۔ قلعوں کے اندر کی عمارتوں کی حفاظت کے لیے اکثر دوہری فصیلیں بنائی جاتیں جن پر جگہ جگہ برج بنے ہوتے۔ پندرہویں صدی عیسوی تک قلعوں کی تعمیر کم ہونے لگی اور جاگیردار وسیع علاقوں میں کوٹھیاں تعمیر کرنے لگے۔ شہروں میں عوامی اور نجی عمارتیں بننے لگیں۔ عوامی عمارتوں میں روئن کی عدالتوں کی عمارت مشہور ہے۔
نشاۃ ثانیہ کا دور فرانس میں دوسرے ملکوں سے پہلے آیا لیکن اس کی رفتار سست رہی۔ عمارتوں کی سجاوٹ کے لیے پلاسٹر کا استعمال سولہویں صدی سے شروع ہوا۔ فرانسوا اول کا سب سے بڑا اور مشہور قصر فان تین بلو 1528 میں تعمیر ہوا تھا۔ اس کی اندرونی سجاوٹ میں تکیہ فن (Mannerism) کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے۔ یہ اٹلی سے داخل ہوا تھا۔ سولہویں صدی کے وسط تک فرانس کے آرٹ اور فن تعمیر میں خود اس کا اپنا نشاۃ ثانیہ کا اسٹائل ترقی پا چکا تھا۔ جس کی کچھ اپنی خصوصیات تھیں۔ اس عہد کے تعمیر کاروں میں سب سے مشہور لسکوٹ تھا جس نے 1546 میں لو (Louvre) کی تعمیر شروع کردی تھی۔ دلورم دوسرا بڑا ماہر تھا۔ اس نے گنبد کو رواج دیا وہ بھی بڑا ذہین معمار تھا۔ اسی کا ہم پلہ بلان تھا جس نے عمارتوں میں بڑے بڑے ستون استعمال کیے اور اس نے فرانس کے فن تعمیر کو کافی متاثر کیا۔ سولہویں صدی عیسوی میں مذہبی جنگوں کا سلسلہ چل پڑا۔ اس لیے تعمیری کام کم ہوا۔ ہنری چہارم کے دور میں حالات کچھ بہتر ہوئے تو اس نے محلوں کی تعمیر سے ہٹ کر شہروں کی تعمیر اور منصوبہ بندی کی طرف توجہ کی اور چوک تعمیر کروائے۔ پلاس ددوساج آج بھی اسی طرح باقی ہے۔
لوئی چہاردہم کے زمانے میں فرانسوا منسار نے کلاسیکی اسٹائل کو مقبول بنایا جو اٹھارویں صدی عیسوی کے بعد تک مقبول رہا۔ لوئی چہار دہم نے 1665ء میں اٹلی کے مشہور مجسمے ساز و ماہر فن تعمیر برنینی کو روم سے پیرس بلوایا تکہ لو کا محل مکمل کیا جاسکے لیکن برنینی کے بنائے ہوئے بروک طرز کے منصوبے کو لوئی نے پسند نہیں کیا۔ اس کی جگہ اس نے فرانسیسی فنکار پیرول کے منصوبے کو پسند کیا جس میں زیادہ نزاکت تھی۔ ستون پتلے، نازک اور خوبصورت تھے اور وہ بالکل فرانسیسی طرز میں تھا۔
لوئی کے آخری دور کا شاہی ماہر تعمیر ہاردوئن منسار تھا وہ اتنا قابل اور ذہین تو نہیں تھا لیکن اس میں تنظیم کی بڑی صلاحیت تھی۔ چنانچہ ورسائی کے محل کی توسیع و تکمیل کا کام اسی نے کروایا۔ محل کے اندر کی سجاوٹ اسی کی کی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے کئی اور مشہور عمارتوں کی تعمیر میں حصہ لیا۔ منسار کے دفتر ہی میں ایک اور ماہر تعمیر پیرلے پوتر نے روکوکو طرز کو جنم دیا۔ یہ ایک طرح سے اندرونی سجاوٹ کا اسٹائل ہے۔ اس میں عمارت کے اندر کھڑکیوں، کیبنیٹ، چھوٹے کمروں کی بناوٹ اور ان کی خوبصورتی پر زور دیا جاتا ہے۔ سترہویں اور اٹھارویں صدی کے فرانسیسی فن تعمیر کی یہی بڑی خصوصیت ہے۔
وسط اٹھارویں صدی عیسوی سے فرانس نے کلاسیکیت کو پوری طرح اختیار کر لیا اور اس زمانے میں بے شمار عمارتیں خاص طور پر ہوٹل، اس طرز میں بنائے گئے۔ انیسویں صدی عیسوی میں کلاسیکی اور گوتھک طرز میں سخت مقابلہ چلتا رہا۔ لوئی ہشتم کا گرجاگھر 1816ء–22ء کلاسیکی اسٹائل میں بنا تھا لیکن 1839ء میں جب اس میں وسعت دی گئی تو یہ گوتھک اسٹائل میں تھی۔
لوہے اور فولاد کے استعمال میں فرانس اول رہا ہے جس کی مدد سے اس نے ایفل ٹاور تعمیر کیا لیکن اس میدان میں برطانیہ اور امریکا سبقت لے گئے۔ فرانس نے کوئی دوسرا قابل قدر کارنامہ انجام نہیں دیا۔ البتہ 1900ء سے جدید آرٹ کا دور شروع ہوا۔ گیمار، پیرے اور گارنئے نے اور پھر کاربوزیئے، ملاے، ژاں پروئے (Jean Prouve) نے فن تعمیر میں نئے نئے تجربوں کا سلسلہ شروع کیا اور بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔[1]