فرخ سہیل گوئندی
فرخ سہیل گوئندی پاکستان کے نامور ادیب، دانش و ر اور تجزیہ کار اور ایک پولٹیکل اور سوشل ایکٹویسٹ کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔
فرخ سہیل گوئندی | |
---|---|
پیدائش | سرگودھا، پاکستان | اگست 23, 1960 ء
قلمی نام | فرخ سہیل گوئندی |
پیشہ | ادب، صحافت |
زبان | اردو |
شہریت | پاکستانی |
تعلیم | ایم اے (پولیٹکل سائنس ) |
مادر علمی | پنجاب یونیورسٹی |
اصناف | صحافت، تنقید، تحقیق، مضامین نگاری، نثر، سفر نامہ نگاری |
نمایاں کام | میرا لہو، ذو الفقار علی بھٹو، سیاست و شہادت، 1986،
ترکی ہی ترکی، 2014 لوگ در لوگ، 2019 میں ہوں جہاں گرد، 2021 [1] |
ابتدائی زندگی
ترمیمفرخ سہیل گوئندی 23اگست 1960ء کو سرگودھا میں پیدا ہوئے۔وہ تجزیہ نگار، مصنف اور ایکٹوسٹ ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے پولیٹکل سائنس کیا اور پھر 2002ءمیں امریکا سے پیس بلڈنگ پروگرام کے تحت Conflict Resolution میں ڈگری حاصل کی۔
فرخ گوئندی بحیثیت سیاسی کارکن
ترمیمفرخ سہیل گوئندی کے تعارف کے کئی پہلو ہیں، چڑھتی جوانی سے سیاسی جدوجہد، پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور سیاست کے عروج پر پہنچنے کے بعد اپنی سیاسی جماعت سے باقاعدہ علیحدگی تک ان کی شناخت کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ وہ پاکستان کے ان دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے تحریر و تقریر سے اپنے منطقی دلائل کی بنیاد پر مختلف نکتہ نظر رکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
فرخ گوئندی بحیثیت صحافی و قلم کار
ترمیمفرخ سہیل گوئندی نہایت کم عمری میں لکھنے لکھانے کی جانب راغب ہوئے اور پاکستان کے قومی اخبارات میں خصوصاً روزنامہ جنگ اور روزنامہ نئی بات میں ان کے مضامین شائع ہوئے۔ ساتھ ہی تحقیقی کتب بھی ان کے کریڈٹ میں ہیں۔ فرخ سہیل گوئندی مختلف موضوعات پر اب تک دس سے زائد کتابیں بھی تحریر کرچکے ہیں، جن میں سے چند کا شمار پاکستان کی مقبول ترین کتابوں میں ہوتا ہے۔ [2]
تصنیفات
ترمیم- میرا لہو، ذو الفقار علی بھٹو، سیاست و شہادت، 1986،
- پنجاب کا مسئلہ، 1988
- چوتھا مارشل لا 1989
- "Garrison Democracy (English)، 1990
- "Dynamics of Democracy in Developing countries (English)، 1998
- وارث میر، حریتِ فکر کا مجاہد
- بھٹو کا قتل کیسے ہوا، 2011
- سرمائے کے آقا، عالمی بینکاروں کی دہشت گردی، 2011
- ترکی ہی ترکی، 2014
- بکھرتا سماج، 2016
- لوگ در لوگ، 2019
- میں ہوں جہاں گرد، 2021
- The Thirty Two, 2024 [3]
اُن کی آئندہ شائع ہونے والی دیگر کتابوں میں سے تین ترکی کے موضوع پر ہیں، جن میں ترکی کے دو سفر نامے اور 1923ء سے تاحال جدید ترکی کی تاریخ پر ایک کتاب شامل ہے۔
تراجم
ترمیمتراجم کے میدان میں فرخ سہیل گوئندی نے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ وہ اپنے ادارے جمہوری پبلیکیشنز [4] کے تحت اب تک دنیا بھر سے تین سو سے زائد کتابوں کے اردو تراجم شائع کر چکے ہیں۔ ان میں نائوم چومسکی، ہاورڈ زن، مہاتیر محمد، اورحان کمال، اورحان پاموک [5]، احمت حمدی طانپنار، ایلف شفق[6] سمیت لاتعداد مصنفین اور ادیبوں کی تصنیفات کے اردو تراجم شامل ہیں۔
فرخ گوئندی بحیثیت نظریاتی لکھاری
ترمیمبحیثیت لکھاری وہ ترقی پسند نظریات کے مبلغ ہیں اور مختلف رسائل و جرائد میں ان کے سینکڑوں کی تعداد میں مضامین، مقالے اور کالم تواتر سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ وہ پاکستان کے ایک قومی اخباروزنامہ نئی بات میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے ہیں۔ ان کے موضوعات، عالمی سیاست، مشرقِ وسطیٰ، قومی سیاست اور ترکی ہیں۔ وہ پاکستان میں ترکی و ترک شناسی کے حوالے سے سرفہرست ہیں۔ پاکستان میں اور پاکستان کے باہر علمی، صحافتی اور سیاسی حلقوں میں ان کی ترکی کے بارے میں رائے کو بڑا معتبر سمجھا جاتا ہے، حتیٰ کہ پاکستان کے پالیسی ساز ادارے بھی ان کی ترکی کے مختلف موضوعات پر رائے کو مستند مانتے ہیں۔ جیسا کہ ترقی کے شاعر، دانشور اور سابق وزیر اعظم جناب بلندایجوت کا کہنا ہے کہ ’’فرخ سہیل گوئندی، ترکی کی تاریخ، تہذیب، سیاست اور سماج پر کسی ترک دانشور سے کم گرفت نہیں رکھتے۔‘‘
فرخ گوئندی بحیثیت ایک متحرک دانشور
ترمیمپاکستان میں ایک متحرک دانشور کے طور پر وہ پاکستان-ترکی تعلقات کی شناخت رکھتے ہیں اور اس کے فروغ کے لیے پچھلی چار دہائیوں سے قلم اور عمل سے کوشاں ہیں۔ وہ ترک تاریخ، تہذیب، سماج اور نظام کو جاننے اور تحقیق کی خاطر پچاس سے زائد مرتبہ ترکی کا سفر کرچکے ہیں۔
پاک ترک تعلقات میں فرخ سہیل گوئندی کی قلمی خدمات
ترمیمپاکستان ترکی تعلقات میں اُن کی علمی و تحقیقی نظر کو پاکستان کے سفارتی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انھوں نے دونوں ممالک کے مابین موجود گہرے تاریخی رشتوں کو مزید گہرا کرنے کی خاطر کئی عملی اقدامات اٹھائے ہیں، جن میں سرفہرست ترک ادب کا پاکستان کی قومی زبان اردو میں ترجمہ ہے۔ ترکی پر اُن کی رائے کو پاکستان کے عوامی، علمی، تحقیقی، سفارتی، سیاسی حلقوں اور پالیسی ساز اداروں میں حتمی رائے کے طور پر مانا جاتا ہے۔ وہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بھی اپنی اسی شناخت سے جانے جاتے ہیں اور وہاں بھی ان کے نقطہ نظر کو سند مانا جاتا ہے۔ پاکستان ترکی کے روزِاوّل سے جو گہرے تعلقات ہیں، ان میں جناب فرخ سہیل گوئندی نے اپنے عمل وقلم سے چار دہائیوں میں جو بے لوث کردار ادا کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان دونوں ریاستوں اور ان میں بسنے والے عوام کو ایک دوسرے سے علم اور دانش کے رشتوں میں جوڑ دیا جائے۔ وہ پاکستان اور عالمی سیاست کے مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں لیکن ترکی کے حوالے سے وہ صرف پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی اُن کی تحریریں تسلسل سے پاکستان کے مختلف اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ترکی کے موضوع پر اُن کی متعدد کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں اور پاکستان کے سیاسی، صحافتی، حکومتی اور پالیسی ساز حلقوں میں انھوں نے بے پناہ مقبولیت پائی۔ ترکی کے حوالے سے اُن کی رائے کو پاکستان کے عوامی حلقوں، مختلف سیاسی نظریاتی حلقوں سے لے کر حکومتی اور پالیسی ساز اداروں تک سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ تحقیق کے حوالے سے ترکی اور ترکوں کی ایک ہزار سالہ تاریخ کا گہرا اور وسیع مطالعہ رکھتے ہیں، اس حوالے سے اُن کے تحقیقی مضامین تواتر سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی ترک دوستی ان کی اشاعت کاری میں بھی جھلکتی ہے کہ انھوں نے اپنے ادارے سے ترکی کے متعدد مصنفوں کی تییس سے زیادہ کتب شائع کرکے پاکستان میں ترک ادب کو متعارف کروانے میں ایک شاندار Contribution کی ہے۔اس کے علاوہ ترکی سے متعلق گیارہ کتب شائع ہو چکی ہیں۔ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر اور امریکا سے Conflict Resolution (Peace Studies) میں تعلیم حاصل کی ہے۔ 1998ء میں اقوامِ متحدہ نے انھیں اقوامِ متحدہ کی پچاس سالہ تقریبات کے سلسلہ میں ’’لیڈر شپ ٹریننگ پروگرام‘‘ میں منتخب کیا گیا۔ دنیا کے معروف دانشوروں اور رہنماؤں سے ذاتی دوستی کو وہ اپنا سرمایہ سمجھتے ہیں جس میں ترکی کے شاعر، دانشور اور سابق وزیر اعظم بلندایجوت بھی شامل ہیں۔ وہ پاکستان اور بیرونی دنیا کی مختلف علمی، فکری اور امن کی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ پچھلی تین دہائیوں سے زیادہ عرصے میں انھوں نے پاکستان اور ترکی جیسے دوست ممالک کو قریب لانے میں بڑے خلوص سے اپنا حصہ ڈالا ہے اور وہ اس حوالے سے قائم پاک ترک دوستی فورم (Pak-Türk Dostluğu Forum)کے روحِ رواں بھی ہیں۔
فرخ سہیل گوئندی بحیثیت اشاعت کار
ترمیمتحریر و تحقیق کے علاوہ انھوں نے پاکستان کی اشاعت کاری کے حوالے سے پاکستان میں اپنا نمایاں ترین مقام حاصل کیا ہے اور اپنے پبلشنگ ادارے جمہوری پبلیکیشنز کے زیراہتمام پاکستان اور دنیا کے نامور ترین مصنفین، قائدین اور محققین کی کتب شائع کی ہیں۔ فرخ سہیل گوئندی نے جمہوری پبلیکیشنز کے مینجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے پچھلے دس برسوں میں ترکی ادب کی اسّی سے زائد کتابوں کا اردو ترجمہ شائع کرکے پاکستان ترکی تعلقات کو Intellectualسطح پر مضبوط کیا ہے۔ وہ ترکی ادب سے مصنفین اور کتابوں کا انتخاب اور بطور ایڈیٹر ان کی ادارت کرتے ہیں۔جن میں ان کے ذاتی تراجم کے علاوہ سلطنت عثمانیہ کی مکمل تاریخ پر مبنی ڈاکٹر محمد عزیر کی کتاب بھی شائع کرچکے ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا پر خدمات
ترمیمفرخ سہیل گوئندی 6 سال تک (2007ء-2013ء) پاکستان ٹیلی ویژن میں ’’تناظر‘‘ کے نام سے ایک پروگرام کے میزبان بھی رہے ہیں جس میں وہ پاکستان کے چوٹی کے رہنماؤں، دانشوروں اور محققین کا ون آن ون انٹرویو کرتے رہے۔ [7] وہ NeoTv سے ’’دستک‘‘ کے نام سے نشر ہونے والے کرنٹ افیئرز کے پروگرام کے میزبان بھی رہے ہیں۔
سفر و سیاحت برائے سیمینار و کانفرنسز
ترمیمفرخ سہیل گوئندی دنیا کے اڑتالیس سے زائد ممالک کا سفر کرچکے ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک میں منعقدہ مذاکروں میں شرکت کی ہے جن میں سٹیٹ آف دی ورلڈ فورم (امریکا) سے لے کر امریکی کانگریس میں منعقدہ سیمینارز میں ان کی بحیثیت مقرر شمولیت بھی شامل ہے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ https://jumhooripublications.com/mai-hon-jehan-gard
- ↑ http://jumhooripublications.com/farrukh-sohail-goindi/
- ↑ https://jumhooripublications.com/the-thirty-two
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 26 فروری 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2021
- ↑ https://jumhooripublications.com/orhan-pamuk
- ↑ https://jumhooripublications.com/elif-shafak
- ↑ https://www.youtube.com/watch?v=YE_SR7zIJDQ