فرزندعلی درانی
فرزند علی درانی (1 جنوری 1933ء - 10 دسمبر 2003ء) ایک پاکستانی ماہر آثار قدیمہ تھے جنھوں نے پاکستان میں آثار قدیمہ کے شعبے میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ وہ وادی سندھ کی تہذیب پر اپنے کام کے لیے جانا جاتا ہے، جو دنیا کی قدیم ترین شہری تہذیبوں میں سے ایک ہے جو 2600 ق م سے 1900 ق م کے درمیان جدید دور کے پاکستان اور ہندوستان کے خطے میں پروان چڑھی۔
فرزندعلی درانی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 جنوری 1933ء ڈیرہ اسماعیل خان |
تاریخ وفات | 10 دسمبر 2003ء (70 سال) |
شہریت | پاکستان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعۂ پشاور جامعہ پنجاب جامعہ لندن |
تعلیمی اسناد | پی ایچ ڈی |
پیشہ | ماہر آثاریات |
اعزازات | |
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی اور تعلیم
ترمیمدرانی یکم جنوری 1933 ءکو ڈیرہ اسماعیل خان ، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1961ء میں پشاور یونیورسٹی سے بیچلر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی اور 1965ء میں پنجاب یونیورسٹی سے آثار قدیمہ میں ماسٹر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی۔ انھوں نے 1971 ءمیں لندن یونیورسٹی سے آثار قدیمہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی [1]
کیریئر
ترمیمفرزند علی درانی کے کام نے وادی سندھ کی تہذیب کے آثار قدیمہ اور تاریخ پر توجہ مرکوز کی ہے۔ اس نے پاکستان میں کئی مقامات پر کھدائی کی ہے جن میں ہڑپہ ، موہنجو داڑو اور کوٹ ڈیجی شامل ہیں۔ ان کی تحقیق نے وادی سندھ کی تہذیب کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے میں مدد کی ہے، بشمول اس کی سماجی تنظیم، تجارت، ٹیکنالوجی اور مذہبی رسومات۔ [2]
فرزند علی درانی نے وادی سندھ کی تہذیب اور پاکستانی آثار قدیمہ کے دیگر پہلوؤں پر بھی وسیع پیمانے پر لکھا ہے۔ ان کی چند قابل ذکر اشاعتوں میں "ہڑپہ میں کھدائی"، "سندھ تہذیب: قدیم پاکستان کی عوامی تاریخ،" اور "بلوچستان آثار قدیمہ کا منصوبہ: ایک جائزہ" شامل ہیں۔ وہ پاکستان میں محکمہ آثار قدیمہ اور میوزیم کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔۔ [3] [4]
آثار قدیمہ کے شعبے میں ان کی خدمات کے اعتراف میں، درانی کو کئی ایوارڈز اور اعزازات ملے ہیں، جن میں 1991ء میں صدر کا پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ، 2002ء میں ستارہ امتیاز ایوارڈ اور 2011ء میں آرڈر آف دی برٹش ایمپائر شامل ہیں ۔
میراث
ترمیمدرانی کے کام نے وادی سندھ کی تہذیب اور پاکستانی آثار قدیمہ کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی تحقیق نے وادی سندھ کی تہذیب کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے میں مدد کی ہے اور ان کی اشاعتوں نے پاکستانی آثار قدیمہ کے بارے میں علم کو وسیع تر سامعین تک پہنچانے میں مدد کی ہے۔ ان کی میراث آثار قدیمہ کے ماہرین اور مورخین کی آئندہ نسلوں کو متاثر کرتی رہے گی۔