بستی ضلع و گونڈہ کے لیے اور خصوصاَ اہل حدیث کے یہاں مولانا فرید احمد بن برکت اللہ رحمانی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ،آپ 1922ء یا 1923ء میں ضلع بستی کے ایک مشہور گاؤں پیکولیا سلم میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی۔ 1933ءمیں اردو سے اور 1934ءمیں ہند ی سے مڈل پاس کیا۔ پھر آپ کا رجحان دینی تعلیم کی طرف ہوا لہذا آپ 1934ءمیں شکراوہ کے ایک مدرسہ دار العلوم میں داخل ہوئے۔ مدرسہ ابھی نیا نیا قائم ہوا تھا بڑی مشکل سے آپ وہاں ایک سال رہ سکے پہلی جماعت کی تعلیم کے بعد1938ءمیں فیض عام مئو میں داخلہ لیا اور دوسال تک یہاں رہے۔ 1939ءمیں جامعہ رحمانیہ کا ارادہ کیا اور وہاں پر جماعت ثانیہ میں داخلہ ہوا ،1943ءمیں جامعہ رحمانیہ چھوڑ کر غزنویہ امر تسر چلے گئے وہاں کے جن علماءسے استفادہ کیا ان میں ایک خاص نام محمد حسین صاحب کاہے۔ اس کے بعد آپ مزید تعلیم کے لیے مولانا محمد اسماعیل سلفی کے قائم کردہ مدرسہ میں داخل ہوئے یہاں آپ نے ترمذی ابوداو د اور مسلم محمد گونڈوی سے پڑهی سند فراغت سے ایک سال پہلے گھر آ گئے اس وجہ سے سند نہ حاصل کرسکے۔[1]

حالاتِ زندگی

ترمیم

آپ بچپن ہی سے ذہین تھے ،شکراوہ میں آپ کو پہلی پوزیشن لانے پر بلوغ المرام انعام میں دیا گیا۔ فیض عام میں آپ صرف دوسال رہے ،پہلے سال قافیہ میں پورے نمبر لانے پر تحفة الاحوذی اور دوسرے سال بلوغ المرام مکمل حفظ کرنے پر صحیح بخاری انعام میں ملا۔

گھر آکر آپ نے ضلع بستی کو اپنی توجہات کا مرکز بنایا۔ گاو ں پر ایک مدرسہ کھولا جس میں آپ منتظم بھی تھے مدرس بھی بعد میں آپ نے تدریس چھوڑدی اور تجارت میں لگ گئے مگرعمر کے آخری ایام سے کچھ پہلے تک مدرسہ کی نظامت کرتے رہے۔ مدرسہ سے آپ کو کتنی محبت تھی اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتاہے کہ آپ کا اکثر وقت مدرسہ میں ہی گزرتا تھا۔ شروع میں مدرسہ گاو ں میں مسجد سے ملحق تھا مگر آپ نے کوشش کرکے اس کے لیے گاو ں سے باہر 22 بیگھ زمین خرید کر اسے وہاں منتقل کر دیا۔ آپ اسے ایک بڑا اقامتی ادارہ بنانا چاہتے تھے اس کے لیے آپ نے ماہر اساتذہ کی ایک تیم اکٹھا کرلی تھی۔ طلبہ کی بھلائی کی خاطر آپ نے مدرسہ کا الحاق جامعہ اسلامیہ سنابل سے کرانا چاہا اس پر گاو ں کے کچھ لوگوں سے اختلاف ہوا آپ اس وقت تک کمزور بھی ہو چکے تھے روزانہ مدرسہ پر جانے میں پریشانی بھی ہوتی تھی اس لیے آپ نے نظامت سے استعفا دے دیا۔

مولانا کی زندگی ایک فعال زندگی تھی ،مدرسہ کی نظامت کی ذمہ داری سے استعفی دینے کے بعد گھر میں بیٹھنا آپ کو قطعی گوارا تھا ،گوربازار میں مسجد سے ملحق ایک زمین تھی جو نانی جان کی ملکیت تھی ،آپ نے اس زمین پر صدر مرکز سے مشوری کرکے ابوالکلام آزاد محمدیہ بوائز پبلک اسکول کی بنیاد رکھ دی۔ آج کل یہ مرکز کے اداروں میں ایک ممتاز حیثیت کا ادارہ مانا جاتا ہے۔ بغیر کسی تاخیر کے آپ نے اسی سال تعلیم کا سلسلہ شروع کرادیا اس سے پہلے اس مسجد میں مرکز کی ایک شاخ مدرسہ محمدیہ قائم تھی ،آپ نے اس مدرسہ کے نام ”محمدیہ “کو پبلک اسکول کا ایک جزءبنادیا ،اسکول قائم ہونے کے بعد یہ اسکول آپ کی توجہات کا مرکز بن گیا ،صبح کو بچوں کے ساتھ اسکول بس میں بیٹھ کر آنا اور شام کو انہی بچوں کے ساتھ گھر واپس جانا آپ کا معمول بن گیا۔ اسکول میں کاموں کی نگرانی جس محنت ولگن سے کرتے تھے وہ آپ کا ہی حصہ تھا۔ آپ کی محنتوں کا ثمرہ ہی تھا کہ ایک معمولی سی مدت میں گور علاقہ کا سب سے بڑا اور معتبر ادارہ بن گیا ،آپ کے زمانہ میں حالت یہ ہو گئی تھی کہ غیر مسلم بھی اپنے بچوں کو ابوالکالام آزاد محدیہ پبلک اسکول میں پڑھانا باعث فخر سمجھتے تھے۔ اسی وقت آپ نے پرنسپل کو تاکید کردی تھی کہ 40 فیصد زیادہ ہندو بچوں کو نہ داخل کیا جائے تاکہ ادارے کا اقلیتی کردار متاثر نہ ہو ۔

عادات و اطوار

ترمیم

اللہ نے آپ کو حق گوئی، امانت و دیانت، خلوص، توکل اور استغناءجیسی صفات سے نوازا تھا۔ ہمیشہ حق بات کہتے تھے خواہ کوئی ناراض کیوں نہ ہو جائے۔ مجھے یاد نہیں کہ آپ نے کبھی مصلحتا ََ بھی جھوٹ بولا ہو۔ زندگی بھر تجارت کرتے رہے لاکھوں روپیہ لوگوں نے آپ کا ہڑپ کر لیا مگر صبر کا دامن آپ نے نہیں چھوڑا۔ کوئی محتاج آپ کے دروازے پر آجائے اور اپنی پریشانی بیان کر دے تو چاہے ادھار لے کر اس کی ضرورت پوری کرتے مگر اس کو خالی ہاتھ نہ جانے دیتے، کتنے لوگوں کو میں نے خود دیکھا کہ اپنی ضرورت بتاکر ادھار رقم لی کر گئے اور پھر منہ نہ دکھایا۔ مہمان نوازی آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ہمیشہ ایک دو مہمان آپ کے یہاں رہا کرتے تھے۔ مولانا فرید صاحب کی شخصیت دوسروں کے لیے جو بھی ہو وہ ہمارے نانا ہی نہیں بلکہ والد محترم جناب مولانا اسرائیل صاحب کی موت کے بعد استاد ،مربی اور والد سب کچھ تھے ،اس وقت ہم سبھی بھائی چھوٹے چھوٹے تھے ،میں مدرسہ جانا ابھی شروع ہی کیا تھا یہ حادثہ پیش آیا، نانا کو اس سے کافی صدمہ ہوا،مجھے اور میرے بڑے بھائی قاری زبیر صاحب کو اپنے ساتھ لے گئے اور درج پنجم تک کی تعلیم اپنی نگرانی میں رکھ کر دلوائی ،اس موقع پر اللہ تعالٰی نے اگر نانا کے دل میں یہ بات نہ ڈالی ہوتی تو شاید ہم بھائی بھی ان بچوں کی طرح گلیوں میں گھومتے پھرتے نظر آتے۔ نانی جان سے آپ کی لڑائی صرف دوباتوں کی وجہ سے ہوتی تھی پہلی شکایت نانی کو یہ تھی کہ آپ پورادن مدرسہ میں لگاتے ہیں اور گھر پر بھی ہمیشہ مدرسہ کا کام کرتے ہیں دوسرا یہ کہ ہمیشہ مہمانوں کی وجہ سے ہماری نجی زندگی متاثر ہوتی ہے ،نانا جان ان کو بہت سمجھاتے مگر بعض دفعہ نانی پھٹ پڑتی تھیں اور کھری کھوٹی سنا دیا کرتی تھیں۔

وقت کے بڑے پابندتھے، جس کام کے لیے جو وقت ہوتا وہ اس سے آگے پیچھے نہیں ہوتا۔ روز صبح اٹھتے صلاة فجرکے بعد تلاوت اور پھر ناشتا کرتے اور مدرسہ کے ضروری کاموں میں لگ جاتے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا انھیں گھر کے گراو نڈ فلور پر بر آمدہ سے متصل کمرے میں رہتے ہوئے پایا۔ آخری عمر میں جب کمزوری بڑھ گئی تو آپ دوسری منزل پر جہاں گھر کے دوسرے افراد رہتے تھے وہاں منتقل ہو گئے تھے۔ تھے تو پتلے دبلے مگر رعب ایسا تھا کہ گاو ں میں کسی اور شخص کو میں نے ایسا نہیں بارعب نہیں پایا۔ بوڑھے جوان بچے سبھی آپ کااحترام کرتے تھے۔ اگر کبھی کسی ضرورت سے چائے خانے کے سامنے سے آپ کا گذر ہوتا تو لوگ چھپ جاتے یاشرم سے چہر ہ دوسری طرف کر لیتے۔ کیا مجال تھی کہ صلاة کے وقت گاؤں کا کوئی شخص مسجد کے علاوہ دوسری سمت ان کے سامنے سے گذر جائے، صلاة کے معاملہ میں وہ کسی کو نہیں بخشتے تھے ایک مرتبہ تو انھوں نے فجر کی صلاة کے لیے اپنی کسی قریبی مہمان کی پٹائی بھی کردی۔ صلاة کے معاملہ میں گھر کا ماحول بالکل کسی مدرسہ کی طرح تھا ،اذان ہوتے ہی گھر سے نکلنا ضروری ہوجاتا تھا۔ سنت کے بڑے پابند تھے سادہ کھاتے سادہ پہنتے ،تہجد کی صلاة کبھی نہیں چھوڑتے تھے ،آخری عمر میں جب کے اعضاءکمزور ہو گئے اور دہلی میں ایک حادثہ میں ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور مصنوعی ہڈی لگانی پڑی تب بھی آپ مسجد جایا کرتے تھے اور باجماعت صلاة پڑھتے تھے۔

مطالعہ کا شوق آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا جو کتاب بھی آپ کو پسند آتی خرید لیا کرتے تھے اس طرح آپ کے پاس کتابوں کاایک ذخیرہ تیار ہو گیا تھا آپ نے اپنی لائبریری 7891ءمیں جامعہ اصلاح المسلمین کے نام وقف کر دیا تھا۔ جامعہ اصلاح المسلمین کے ایک جلسہ میں صدر مرکز حفظہ اللہ نے اس لائبریری کا معائنہ کیا تھا اور مزید کتابوں کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا ،بعد میں نانا محترم کی علیحدگی کے بعد یہ لائبریری بڑھنے کی بجائے سمٹتی گئی اور اب یہ حالت ہے کہ لائبریری میں کتابوں کے نام پر چند پھٹی پرانی کتابیں بچی ہیں۔ آپ نے جامعہ اصلاح المسلمین میں شعبہ نشر و اشاعت بھی قائم کیا تھا۔ جس کے تحت مولانا ثناء اللہ امرتسری کی کتاب” اہل حدیث اور مسلمان “اور مولانا عبد الرحمان دیوبندی کی کتاب ”میں اہل حدیث کیوں ہوا؟ “چھپوا کر پورے ہندستان میں مفت تقسیم کرایا۔

مسلک اہل حدیث سے آپ کو جو لگاو تھا اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ ہم لوگوں کو جمعہ کے دن گور کی مسجد میں صلاة ادا کرنے لیے بھیجتے تھے اور ساتھ میں یہ تاکید ضرورکرتے تھے کہ آمین زور سے کہنا۔ دراصل گورمیں نانا محترم نے مسجد بنوائی تھی پہلی بات تو یہ کہ گور میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے دوسرے جو لوگ ہیں ان میں بھی اپنے خاندان کے علاوہ کوئی اہل حدیث نہیں۔ مولانا اس کے باوجود احسن طریقے پر مسلک اہل حدیث کی تبلیغ کرتے رہے اس کا نتیجہ یہ ہو اکہ جولوگ لفظ اہل حدیث کو گالی سمجھتے تھے وہ اب اہل حدیث امام کے پیچھے صلاة ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتے ،پیکولیا کو مسلم پیکولیا بنانے کا سہرا آپ ہی کے سر جاتا ہے۔ آپ کی کوششوں سے پیکولیا مسلم کے اطراف میں املیا اور مجھوا کے لوگ بھی اہل حدیث ہو گئے، ایک مرتبہ میں نے نانا محترم کو بتایا کہ گورکے تھوڑے سے فاصلہ پر ”حلوا“ نامی گاو ں ہے جس کو بستی کے راجا نے اپنے باغ کی حفاظت کے لیے بسایا تھا اس میں چند گھر مسلمان بھی تھے وہ مسلک اہل حدیث کی طرف راغب تو ہوئے مگر گاو ں میں کوئی مدرسہ نہیں تھا اور نہ ہی مسجد قاعدے کی تھی، ایک چھپر ڈال کر مسجد بنائی گئی تھی۔ عالم ہونے کا جھوٹا رعب جماکر ایک بریلوی ان کو گمراہ کر رہا تھا۔ میں نے یہ سب باتیں بتائیں تو مولانا اپنے خرچ پر ہم لوگوں کوہر جمعہ کو وہاں بھیجنا شروع کر دیا اس کا نتیجہ یہ ہو اکہ وہ بریلوی شخص وہاں سے بھاگ گیا۔ مولانا نے وہاں کی مسجد بنوانے اور وہاں ایک مستقل عالم دین رکھنے کی کوشش بھی کی مگر کامیاب نہ ہو سکے اس وجہ سے کہ گاو ں والے خود وہاں ایک عالم اور مدرسہ کے حق میں نہیں تھے۔

مولانا کے گھریلو حالات

ترمیم

مولانا کے چار لڑکے تھے جن میں سے ایک کی وفات تقریباً 51 سال کی عمر میں ہو گیا تھا جب ہوایک دوسرے لڑکے عزیز الرحمن کا انتقال جوانی میں ہوا،انتقال سے کچھ پہلے ہی ان کی شادی ہوئی تھی۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں مقصد حیات ہیں۔ بڑے صاحب زادے کا نام مسعود احمد اور چھوٹے کانام عبید الرحمن ہے۔ لڑکیوں کے نام جو یرہ اور ام حبیبہ ہیں۔ ثانی الذکر ہماری والدہ ہیں۔ جب سے ناناجان نے ڈومریا گنج اور گور میں دکان کھول کر دونوں لڑکوں کو الگ الگ دکان سونپی تھی اس وقت سے مسعود ماموں ڈومریا گنج چلے گئے اور عبید الرحمن ماموں گھر پر رہتے اور دکان پر وہیں سے آتے جاتے تھے۔ بعد میں انھوں نے بھی اپنی فیملی کو گھر سے گور بلا لیا۔ نانا اور نانی کو گاو ں سے محبت تھی اس وجہ سے وہ گاو ں چھوڑنے پر راضی نہ ہوئے ہماری والدہ نے ہماری چھوٹی بہن کو ان کی خدمت کے لیے رکھ دیا آپ اپنے انتقال سے کچھ دنوں پہلے گورمنتقل ہو گئے تھے۔ آپ کے بڑے صاحب زادے کو یہ شکایت تھی کہ والد محترم (مولانافرید صاحب) عبید الرحمن پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ آپ نے پوری کوشش کی کہ اپنی زندگی ان دونوں بھائیوں میں بٹوارہ کر دیں مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ مسعود ماموں کبھی راضی نہ ہوئے کہ ڈومریا گنج کی جائداد میں سے کوئی حصہ عبید الرحمن ماموں کو دیں۔ نانا محترم کو لڑکیوں کے حق وراثت کی اہمیت کا علم تھا مگر وہ مجبور تھے ان کا کہنا تھا کہ جب ایک بھائی دوسرے بھائی کو حق دینے پر راضی نہیں ہے تو بہن کو کیسے حصہ دیگا، بالآخر آپ نے اپنے انتقال سے کچھ پہلے جو وصیت لکھی تھی اس میں اس بات کی تاکید کردی کہ لڑکیوں کو بھی جائداد میں سے حق دیا جائے۔ اب موجودہ حالت یہ ہے کہ پیکولیا مسلم کا گھر اور کھیت اور گور کی دکان عبید الرحمن ماموں کے قبضے میں ہے اس کے علاوہ نانی جان کو اپنے میکہ سے وراثت میں ممبئی میں دو کانوں کی شکل میں جو حصہ ملا تھا وہ بھی انھیں کے قبضے میں ہے۔ اور ڈومریا گنج کی زمین مسعود ماموں کے قبضے میں ہے۔ اس طرح کل ملا کر بغیر بٹوارہ کے دونوں بھائی اپنی اپنی جگہ پر رہ رہے ہیں۔ جب تک تجارت کرتے رہے اس وقت تک آپ کے پاس پیسوں کی کمی نہ تھی مگر جب آپ نے تجارت چھوڑ دی تو آپ نے اپنے دونوں لڑکوں سے ہر مہینہ ایک معمولی رقم طے کردی کہ وہ ہر ماہ باقاعدگی سے دے دیا کریں گے۔ مگر سچ یہ ہے کہ رقم بھی کبھی ملتی کبھی نہیں ملتی تھی آپ نے ایک مرتبہ دل برداشتہ ہو کر ایک چھوٹی سی جائداد بیچ دی۔ ایک مرتبہ آ پ نے اپنے قرضوں کی ادائیگی کے ایک پرانا گھر جو کبھی بھینسوں کے باندھنے کے لیے استعمال ہونا تھا وہ بھی بیچ دیا۔ دونوں دفعہ کافی لے دے ہوئی۔ نانا نے اس موقع پر کہا کہ اگر آپ لوگ خرچ نہیں دیں گے تو اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔ اس میں سے ایک زمین تو ان لوگوں نے روئیے دے کر واپس اپنے قبضے میں لے لیا مگر گھر ابھی تک نہ لے سکے اور نہ یہ اب ممکن ہے۔ مدرسہ سے ایک پیسہ نہ لیتے تھے مگر جب لڑکوں کی طرف سے خرچ ملنا بند ہو گیا اور آمدنی کا کوئی ذریعہ بھی نہ رہ گیا تو آپ نے منتظمین کے کہنے پر ایک معمولی رقم اپنے گزارہ کے لیے لینے لگے۔ نانا اور نانی اپنے بچوں سے الگ پیکولیا مسلم ہی میں رہا کرتے تھے ،ضروری سی بات ہے کہ آپ کو اپنی ضرورت کے لیے کچھ پیسوں کی ضرورت پڑتی رہی ہوگی ۔

مولانا کی آخری آرزو

ترمیم

انتقال سے کچھ دن پہلے ابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سنٹر کی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں شریک ہونے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ آپ نے اس موقع پر مجھ سے کہا تھا کہ میری آخر خواہش ہے کہ گھر کی مسجد سے ملحق ایک حفظ کا مدرسہ قائم کردوں۔ اس کے لیے انھوں نے صدر مرکز کو خط بھی لکھا تھا۔ مگر آپ کی زندگی نے آپ کا ساتھ نہ دیا اور آپ کا انتقال ہو گیا۔

ابوالکلام آزاد اویکننگ سینٹر سے آپ کے تعلقات

ترمیم

آپ تاعمر مرکز کے مجسل عامہ کے ایک سرگرم رکن رہے۔ خواہ کتنے ہی بیمار کیوں نہ ہوں مرکز کی میٹنگوں میں شرکت کے لیے ضرور حاضر ہوا کرتے تھے۔ آخری دفعہ جب حاضر ہوتے تھے تو ان کی حالت یہ تھی کہ لاٹھی کے سہارے بمشکل قدم اٹھاپاتے تھے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ کندھے کے سہارے لے جانا پڑتا تھا، مگر آپ کا جذبہ تھا کہ آپ نہ صرف یہ کہ میٹنگ میں شریک ہوئے بلکہ اپنے بھانجے سے ملنے آگرہ بھی گئے اور ان کے حفظ کے مدرسہ کے لیے تعاون کی درخواست کی۔ آدھے جسم پر فالج کا حملہ ہو چکا تھا،جس کی وجہ سے زبان لڑکھڑا رہی تھی،قلم پکڑنے میں دشواری ہو رہی تھی،سکریٹری صاحب نے ایک کاغذ پر دستخط کرنے کے لیے آپ کو دیا تو اس موقع پرکسی نے کہا کہ اب آپ کمزور ہو گئے ہیں اس لیے ان ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوجائیں ،سکریٹری صاحب نے کہا کہ مولانا کا دل ابھی جوان ہے اس پر آپ صرف مسکراکر رہ گئے گویا کہ اب کتنے سال زندہ ہی رہنا ہے۔ آپ کا یہ دہلی کا یہ آخری سفر ثابت ہوا ۔

انتقال

ترمیم

آپ کے مزاج میں سختی تھی جس کی وجہ سے عام طور پر لوگ آپ کا سامنا کرنے سے ڈرتے تھے ،کئی دفعہ خیال ہوا کہ آپ سے زندگی کے بارے میں اہم معلومات پوچھ کر لکھ لوں مگر ہمت نہیں ہو سکی،اس کا نقصان یہ ہوا کہ آپ کی زندگی کے بہت سارے گوشوں کے بارے میں معلومات نہ مل سکیں۔ مزاج کی سختی کے باوجود عجیب بات میں نے یہ محسوس کی کہ آخری عمر بہت نرمی آگئی تھی۔ کوئی بات بھی کرتے تو ہنس کر مسکرا کر کیا کرتے تھے۔ انتقال سے پہلے والی رات آپ نے سینے میں معمولی سے درد کی شکایت کی۔ تیل سے مالش کردی گئی اورآپ سو گئے۔ کسے معلوم تھا کہ اس سونے کے بعد اب جاگنا نہیں ہوگا۔ صبح جب فجر کے وقت آپ بیدار نہیں ہوئے تو کمرے میں جاکر دیکھا گیا، معلوم ہو اکہ رات ہی میں کسی وقت آپ کا انتقال ہو گیا۔ تھوڑے ہی وقت میں آپ کے انتقال کی خبر اطراف و جوانب میں پھیل گئی۔ آپ کی لاش کو آبائی قبرستان میں دفن کر نے کے لیے پیکو لیا لے جایا گیا جہاں انھیں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں دفن کر دیا گیا۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. علمائے حدیث بستی وگونڈہ از مولانا بدالرزماں نیپالی ص 52
  2. کاروان سلف جلد دوم از مولانا عبد الرؤف ندوی، مطبوعہ مجمع التحقیق الاسلامی، تلشی پور ضلع بلرام پور، یوپی