فضہ
فضہ نوبیہ بادشاہ حبشہ کی بیٹی تھی۔ جلیل القدر صحابیہ تھیں اور جناب فضہ خاندان اہل بیت علیہ السلام کی گرانقدر کنیزوں میں سے تھیں۔ انتہائی نیک خاتون تھیں۔ جس نے پنجتن پاک کی خدمت گزاری سے کبھی کوتاہی نہیں کی۔ عبادت الہی کا پورا اہتمام تھا۔[1]
فضة النوبية | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
لقب | النوبية |
مذہب | مسلم |
عملی زندگی | |
پیشہ | خادمة فاطمہ زہراء |
وجۂ شہرت | خدمتها لفاطمہ زہراء |
درستی - ترمیم |
شرف و عظمت
ترمیمخاتون عصمت، بانوئے عفت، مخدومہ علم، فخر مریم، مریم کبری، سیدہ عالم، خاتون جنت، صدیقہ طاہرہ، عصمت کبری، فاضلہ الزکیہ، الراضیتہ المرضیہ، المحدث العلمیہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خدمت گزاری کے لیے کمر بستہ رہتی تھیں۔ آپ سیرت مطہرہ کی مالک تھیں اور نفسانی زمائم مکارم اخلاق میں بدل گئے تھے۔
صحابیت و کنیزی
ترمیمسرکار ختمی مرتبت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت گرامی میں کچھ قیدی آئے۔ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام نے التماس کی اور حضرت خاتون عصمت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے بھی عرض حال کیا تو حضور اقدس نے تسبیح فاطمہ تلقین فرمائی۔ غزوہ خندق کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک کنیز، فضہ نامی جناب فاطمہ زہرا علیہ السلام کو عطا فرمائی۔ سیدہ فاطمہ علیہ السلام فضہ کے ساتھ ایک کنیز کا سا نہیں بلکہ برابر سے ایک رفیق کا سا برتاؤ کرتی تھیں۔[2]
کچھ کتب تاریخی کے مطابق، وہ ہندوستان (یا سوڈان) کے بادشاہوں میں سے ایک کی بیٹی تھی اس شہزادی کو کسی جنگ میں قید کر لیا گیا تھا اور کنیز کے طور پر حبشہ بھیج دیا گیا تھا۔ نجاشی (بادشاہ حبشہ) نے جعفر طیار کی حبشہ کی ہجرت سے واپسی کے موقع پر ان کے ساتھ بی بی فضہ کو بہت سے تحائف کے ساتھ مدینہ بھیجا اور پیغمبر اسلام نے اسے اپنی بیٹی کے پاس بھیجا۔ کہا گیا ہے کہ وہ قرآن حفظ کرنے میں بہت جلد کامیاب ہوئیں اور فاطمہ کی شہادت کے برسوں بعد فضہ کی زبان سے قرآن کی آیات کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا تھا اور وہ قرآن کی آیات کے ذریعے لوگوں سے بات کرتی تھیں۔
لکھا گیا ہے کہ وہ واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور اپنی زندگی کے آخری سال دمشق میں گزارے۔ "شہرہ" ان کی ایک پوتی کا نام ہے جو ایک باوقار خاتون تھیں۔
آج باب الصغیر قبرستان میں ان سے منسوب مقبرہ زائرین کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔