فلس
فَلَس یا فِلس (جمع: فلوس) (currency)، مبادلہ کی اکائی ہے، جو اجناس یا خدمات کی منتقلی کو سہل بناتی ہے۔ یہ پیسے کی ایک شکل ہے۔ پیسہ کوئی بھی ایسی چیز ہے جو تبادلہ کے وسیلے کے طور پر استعمال ہو۔ سکہ (coin) اور کاغذی پیسے (banknote) دونوں فلس کی اقسام ہیں۔
معاشیات میں فلس سے مراد ایک عام طور پر قبول شدہ وسیلۂ مبادلہ (medium of exchange) کے ہوتی ہے۔ یہ عموماً کسی حکومت کے سکّے اور نوٹ ہوتے ہیں، جن پر ملکی ذخیرۂ زر (money supply) کے طبیعی پہلو مشتمل ہوتے ہیں۔ ملکی ذخیرۂ زر کا دوسرا حصّہ بینکی ودیعات (bank deposits) (یا زرِ ودیعت (deposit money)) پر مشتمل ہوتا ہے، جن کی ملکیت کا انتقال چیکوں (cheques)، بدہی کارڈوں (debit cards) یا ترسیلِ زر (money transfer) کی دوسری اشکال کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
اسلامی فلوس
ترمیممعاملات میں فلوس چھوٹے ریزگاری (چھوٹے سکے) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دراصل سب سے چھوٹے سکے ایک درہم کے ایک چھوٹے حصے کی نمائندگی کرتی ہے۔ (حالانکہ نصف درہم کے سکے بھی استعمال ہوئے ہیں)۔
فلوس کو ’’زر‘‘ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس کی قدر کا انحصار درہم پر ہوتا ہے۔ یہ اسی لیے کاغذی نوٹوں (Fiat Money) کی طرح ہے۔ اور اس کی یہ دوسری تعریف، کاغذی نوٹوں کو سمجھنے کے لحاظ سے خاص تعلق رکھتی ہے کیونکہ ابتدائی کاغذی نوٹوں کو فلوس تصور کیا جا چکا تھا۔ حالانکہ تاریخ نے یہ بات ثابت کر دی کہ اس کو کبھی چھوٹے ریزگاری (Small Change) کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا گیا بلکہ اس کو حقیقی ’’زر‘‘ کے مکمل خاتمے کے لیے استعمال کیا گیا۔
زکوٰۃ اور فلوس
ترمیمعمومی قانون یہ ہے کہ زکوٰۃ کو فلوس میں ادا نہیں کیا جا سکتا اور نہ فلوس رکھنے پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ زکوٰۃ کو فلوس میں نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس کی بطور جنس کوئی قدر نہیں بلکہ اس کی صرف ظاہری قدر ہوتی ہے۔ اسی لیے اس کو ’’زر‘‘(Money) تصور نہیں کیا جا سکتا۔ زکوٰۃ کو فلوس میں دینے کی کچھ استثنائی صورتیں ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
# جب فلوس کی قدر و قیمت نصاب سے تجاوز کر جائے۔ کچھ علما کا کہنا ہے کہ اگر فلوس کی مقدار نصاب سے تجاوز کر جائے جو دو سو دراہم یا بیس (20) دینار ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے۔
# جب فلوس بطورِ فروختنی جنس استعمال کی جائے۔ دوسری استثنائی صورت یہ ہے کہ جب فلوس کو بطورِ مال تجارت استعمال کیا جائے، تب اس کی قدر اس کی دھاتی جنس کی وجہ سے ہو(جو تانبے سے یا تانبے کے ساتھ دوسری دھاتوں کی ملاوٹ سے بنی ہوتی ہیں)۔ کچھ لوگ اس کی تجارت مثلِ دھات کے کرتے تھے تو دوسری صورت کے بارے میں کچھ علما کا کہنا ہے کہ ان (فلوس) پر زکوٰۃ، اجناس پر زکوٰۃ واجب ہو نے کی طرح ہوگی جس پر ایک سال گذر جائے۔[1]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ کتاب: طلائی دینار کی دوبارہ آمد، مصنّف: عمر واڈیلو، صفحہ : 123