نِراج ایک سیاسی نظریہ ہے جس کا منشا معاشرہ میں ریاست کے وجود سے انکار ہے۔ بسا اوقات (صحافتی اور لغوی معنوں میں) انارکزم سے افراتفری یا شورش زدگی مراد لی جاتی ہے، جو درست نہیں۔ اس کی رو سے ریاست بذات خود ایک حقیقی آزاد اور فلاحی معاشرے کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ اور اس کے ادارے، مثلاً فوج، منتخب حکومتیں، پارلیمنٹ وغیرہ استبدادی سامراج کا کردار ادا کرتی ہے۔

فلسفیانہ بحثوں میں یہ تصور نیا نہیں، مگر اسے صنعتی انقلاب کے بعد ہاجکنس، پروداں، تھور، ٹالسٹائی، کرپوٹکن، جون ایلیا اور باکونن نے نئی جہت دی۔ فی زمانہ امریکی مفکر نوم چومسکی اور لاطینی امریکہ کی کئی تحریکیں نراج پسند یا انارکسٹ ہیں۔

انارکزم کے بنیادی تصورات: ترمیم

انارکسٹ تحریک سرمایہ دارانہ عدل کے حصول کی جدوجہد کرنے والی تحریک ہے۔ سرمایہ دارانہ عدل یہ ہے کہ ہر شخص اس بات کا مکلف ہو کہ وہ خیر و شر کی جو تعریف کرنا چاہے وہ کرنے میں اس معنی میں آزاد ہو کہ کوئی دوسرا شخص یا گروہ اس کو خیر اور شر کی کسی اور تعبیر کو قبول کرنے پر مجبور نہ کرسکے۔ اس کو خود تخلیقیت (Autonomy) کہتے ہیں۔ انارکسٹ سمجھتے ہیں کہ ریاست خود تخلیقیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور ریاست کو ختم کیے بغیر خود تخلیقیت اور مساویانہ آزادی (Equal freedom) کو فروغ دینا ناممکن ہے سرمایہ دارانہ انفرادیت اور سرمایہ دارانہ معیشت کو فروغ دینے کے لیے کسی نظام اقتدار (یعنی ریاست) کی کوئی ضرورت نہیں۔ انارکسٹ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خودتخلیقیت کو بروئے کار لانے کے لیے خود حاکمیت (Self Government) لازماً ناگزیر ہے۔ انسان کو صرف اپنے نفس کا بندہ ہونا چاہیے اور کسی بیرونی قوت کے اقتدار کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ انارکزم جمہوریت کا خالص ترین ڈھانچہ (Purest Form ہے کیوں کہ جمہوریت نفس پرستی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

انارکسٹ ان تمام معاشرتی اداروں کے بھی مخالف ہیں جو نفس پرستی کی تحدید کرتے ہیں۔ بیشتر انارکسٹ ملحد کافر ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کی رائے میں خدا اور مذہب نفس پرستی کو رد کرتے ہیں کچھ انارکسٹوں مثلاً Tolstoy اور کسی حد تک Kierkegaard نے عیسائیت کی نفس پرستانہ تعبیر بھی پیش کی ہے اور بیسیویں صدی کے ایرانی مفکر علی شریعتی نے ان مفکرین کی پیروی کرتے ہوئے الوہیت الناس کا تصور پیش کیا ہے (لیکن شریعتی انارکسٹ نہ تھے ان کی فکر اشتراکی اور اسلامی تصورات کا ایک ملغوبہ تھی) علامہ اقبال کے تصور خودی میں بھی الوہیت الناس کی جھلکیاں ملتی ہیں۔

انارکسٹ خاندان کے بھی شدید مخالف ہیں ۔ انارکسٹ عوامی تحریکیں گھنائونی ترین جنسی بے راہ روی کی تبلیغ کرتی ہیں۔ سب سے مشہور انارکسٹ جس نے جنسی بے راہ روی کے فروغ کے لیے اپنی زندگی وقف کی امریکی Emma Goldman تھی۔انارکسٹ اسکول کے ادارہ کی بھی مخالفت کرتے ہیں کیوں کہ اسکول اقتدار کی اطاعت کی عادت ڈالتے ہیں۔

نظام اقتدار کو تتر بتر کرنے کے لیے انارکسسٹوں کا ایک مکتب تشددکولازم تصور کرتا ہے۔ یہ متشدد انارکسٹ روس میں نمایاں ہوئے ان میں Bakunin, Kropotkin اور Sergy Nachyev شامل ہیں۔ یہ تینوں کٹر ملحد تھے اور پادریوں کے قتل عام پر خاص زور دیتے تھے۔ Nacheyev کی اسلام دشمنی بھی مشہور ہے۔ Bakunin کے خیال میں انقلاب برپا کرنے والی اصل قوت شہروں کی کچی آبادی کے مسلح افراد (Lumpen Proletariat) فراہم کرتے ہیں۔ Bakunin کسانوں کی عسکری اور معاشی صف بندی پر بھی زور دیتا تھا۔ Bakunin روس کی سب سے اہم انارکسٹ تحریک  Norodnik سے متاثر تھا۔ یہ تحریک Nihilism کا پرچار کرتی تھی۔Nihil ism کو خالص منفعیت کہتے ہیں۔ Nihilism تحریک کا پورا زور افراد اور اداروں کو برباد کرنے پر ہوتا ہے۔ ان کی رائے میں سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ ظلم کرنے والی ریاستی اور کاروباری قیادت کو قتل کر دیا جائے اور اس عمل کے نتیجہ میں سرمایہ دارانہ عادلانہ انقلاب برپا ہوگا۔ Norodnikتحریک کا سب سے مشہور راہنما Bakunin  کا شاگرد Nacheyev تھا۔ Nacheyev کے شاگردوں نے روس کی Social Revolutionary Party  پر قبضہ کرکے 1917ء میں زار کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور گو کہ Lenin نے Social Revolutionary party کی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کی لیکن Nacheyev  کی فکر سے شدید متاثر تھا۔ Nacheyev کو 1884ء میں پھانسی دے دی گئی تھی۔

انارکسٹوں کا دوسرا مکتب فکر تشدد کی تردید کرتا ہے۔ اس مکتب فکر کا اہم ترین مفکر Prodhounہے۔ وہ ذاتی ملکیت کو چوری (Property is Theft) کہتا تھا اورمارکس کیLabour Theory of valueکا قائل تھا۔ (اس نظریہ کے مطابق کسی شے کی قدر صرف اس سے متعین ہوتی ہے کہ اس شے کی پیدوار میں کتنی محنت صرف ہوئی ہے)وہ حکومت کے خاتمے اور مزدوروں کی رضا کارانہ معاشرتی تنظیموں کے قیام کو ضروری سمجھتا تھا۔ Prodhoun کی رائے میں یہ تنظیمیں(Syndicates) معاشرہ کی خود حکومتی (Self government) تنظیم ممکن بنائیں گی اور ان کی خود حاکمیت کے نتیجہ میںکسی سیاسی نظامِ اقتدار کو موجود رہنے کی ضرورت نہ رہے گی۔

Prodhoun سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کے لیے کسی پر تشدد انقلاب کا قائل نہ تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اگر مزدور Syndicates میں منظم ہو گئے تو سیاسی اقتدار خود بہ خود ان کے ہاتھوں میں آجائے گا اور سرمایہ دارانہ ریاستی نظام منتشرCollapse) (ہوجائے گا۔

Prodhoun کی فکر نے یورپی مزدوروں کی تحریک (trade union movement) کو بہت متاثر کیاہے اور سوشل ڈیموکریٹک جماعتیں (مثلا فر انس کی PSF برطانیہ کی Labour Party اور جرمنی کی SPD) مزدوروں کی پرامن جمہوری تنظیم کے ذریعہ ہی سرمایہ دارانہ نظام ریاستی میں اقتدار پر قبضہ کی کوشش کرتی ہیں۔ خود روس کی کیمونسٹ پارٹی کا ایک دھڑا (جس کو Memshevik کہتے ہیں) عدم تشدد اور مزدوروں کی جمہوری تنظیم کے ذریعہ انقلاب برپا کرنے کی حکمت عملی کا قائل تھا۔ گاندھی بھی عدم تشدد کے فلسفہ کا داعی تھا۔ وہ اپنے آپ کو Tolstoy کا شاگرد کہتا تھا اور گاندھی کے مجوزہ ”پنچائیتی نظام” میں Syndicalist فکر کی بہت سی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔

بیرونی روابط ترمیم


حوالہ جات ترمیم