قادر بخش بیدل
فقیر قادر بخش عرف بیدل فقیر برصغیر کے عظیم المرتبت صوفی شاعر، سرتاج الشعرا، شہنشاہ عشق، صاحبِ علم وعرفان، شاعر ہفت زباں ہیں۔[1][2]
قادر بخش بیدل | |
---|---|
فقير بيدل، سرتاج الشعرا، شہنشاہ عشق، صاحبِ علم وعرفان، شاعر ہفت زباں | |
پیدائش | 1815ء (1231ھ) روہڑی، سندھ، پاکستان |
وفات | 15 جنوری 1873ء (16 ذو القعدہ 1289ھ) روہڑی، پاکستان |
مؤثر شخصیات | لعل شہباز قلندر، شاہ عبد اللطیف بھٹائی، سچل سرمست |
متاثر شخصیات | محمد محسن بیکس |
اصناف | شاعری، نثر |
پیدائش
ترمیمعبد القادر بخش بیدل کی ولادت 1230ھ میں ہوئی آپ صوفی شاعر اور عالم تھے۔ آپ کا قیام روہڑی میں رہا۔ اپنے وقت کے ولی اور کامل بزرگ تھے۔
روحانی وابستگی
ترمیمآپ جب بڑے ہوئے تو پیرانِ پیر دستگیر غوث الاعظم شیخ محی الدین عبد القادرجیلانی کے ساتھ روحانی وابستگی کے سبب اپنے آپ کو قادر بخش بیدل کہلوانے لگے۔ مولاناعبدالقادر بخش بیدل کے والد بزرگوار کا اسم گرامی محمدمحسن تھا۔ وہ ریشم کی تجارت کرتے تھے۔ آپ کے والد محمدمحسن بلوچستان کے مشہور بزرگ سیدمولاناعبدالوہابؒ ساکن بھاگ ناڑی کے مرید تھے۔ میرجان اﷲ شاہ جھولک والے مشہور صوفی شاہ عنایت اﷲ شاہ شہید کے خلفا میں سے ایک تھے۔ آپ کے والد نے میرجان اﷲشاہ ثانی سے بھی بیعت کی۔ بیدل اپنے والد بزرگوار کے مرشد کے پاس حاضر ہوئے، جنھوں نے آپ کے لیے خصوصی دعا فرمائی۔
ابتدائی تعلیم
ترمیمپانچ برس کی عمر میں بیدل کے والد نے آپ کو مکتب میں داخل کرادیا، مگر آپ کو علوم ظاہریہ کے مقابلے میں علومِ باطنیہ سے رغبت تھی، لیکن والد کے حکم کی تعمیل کے لیے بارہ برس تک تعلیم جاری رکھی۔ پھر سیدجان اﷲشاہ ثانیؒ سے بیعت ہوکر علوم باطنیہ کی تربیت حاصل کرتے رہے۔ بیدل ؒفرماتے ہیں کہ ایک دن مجھے خواب میں حضرت خواجہ عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندرؒ کی درگاہ پر حاضری کا اشارہ ملا۔ آپ اکیلے سیہون شریف کی طرف روانہ ہو گئے۔
شاعری کی ابتدا
ترمیمسخی لعل شہبار کی درگاہ سے واپسی پر آپ نے باقاعدہ غزل کہنا شروع کردی اور اصلاح کے لیے جب اشعار اپنے استاد کو دکھائے تو انھیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ اشعار بیدلؒ کہہ سکتے ہیں۔
صوفیانہ شاعری
ترمیمبیدل ؒکی طبیعت میں تصوف کا گہرا اثر تھا، آپ بلند پایہ مفکر، دانش ور اور قابل فخرشخصیت کے مالک تھے۔ آپ کا کلام آفاقی والہامی تھا، جو سات زبانوں، عربی، فارسی، اردو، سندھی، سرائیکی، پنجابی اور ہندی زبانوں میں موجود ہے۔
تصانیف
ترمیمآپ کی مشہور تصانیف میں
- ’ریاض الفقر‘‘
- ’’نہرالبحر‘‘ (مثنوی)
- ’’مصباح الطریقت‘‘
- ’’مصباح الحقیقت‘‘ (فارسی نظم)
- ’’نسخۂ دلکشا‘‘ (فارسی نظم)
- ’’سندالموحدین‘‘ (فارسی نظم)
- ’’کرسی نامہ‘‘ (فارسی نظم)
- ‘‘رموزِ العارفین‘‘ (فارسی اشعار)
- ’’پنج گنج‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔
آخری آرام گاہ
ترمیمسکھر سے روہڑی شہر میں داخل ہوتے ہوئے ایک گیٹ ہے، جس پر بیدل بیکس لکھا ہوا ہے اور ساتھ ہی چند اشعار درج ہیں۔ اس سے متصل تھوڑے فاصلے پر آپ کا مزار موجود ہے۔ مزار میں داخل ہوں تو تین قبور ساتھ ساتھ نظر آتی ہیں۔ دائیں ہاتھ کی پہلی قبر پر ’’حضرت فقیر محمدمحسن قدس سرۂ العزیز عرف ’بیکس‘‘ کندہ ہے۔ درمیان میں والی قبر پر ’’حضرت فقیر قادر بخش قدس سرۂ العزیز عرف ’بیدل‘‘ درج ہے، جب کہ بائیں طرف ’’حضرت فقیرعبد اللہ‘‘ جو محمدمحسن بیکس کے کزن ہیں، اُن کی قبر ہے۔
تاریخ وصال
ترمیمآپ نے 1289ھ (1873ء) میں وفات پائی۔ مزار مبارک میں موجود ایک الماری، جس میں قرآنِ کریم کے نسخے رکھے ہیں، پر دو بورڈ لگ ہوئے ہیں جن پر بیدل سائیں اور محسن بیکس کی تاریخِ وصال شعر کی صورت میں درج ہیں:
’’تاريخ وصال بيدل ‘‘
سال ٻارنهن سؤا ٺانوي ۾ سوزِ گداز ہو
سورهينَٔ ذُوالقعد جي هادئَ سندو پرواز ہو (بيکس)
مزار کے سامنے جنگلے پر درج ہے:
مرد نة مرن ڪڏهن ڪو پاهن قائم (بيدل)
هم مر ي تہ گرو مر ي دولهة مارن دم (بيدل)
ديهي ري ئَ دائم حاضرين هرجائِ تي (بيدل)
مزار کے دوسری طرف جنگلے پر درج ہے:
ہوو پچارن وا هرو يتيهن يارو (بيدل)
ترت رسن تڪ تار۾دانا دلاور (بيدل)
اهڙا اڪابر ماندن لائِ مولا مُڪا (بيدل)
سرائیکی نمونہ کلام
ترمیمبیدل آکھے تیݙے باجوں
ساݙا روح نماݨا
––––
مذہب دا سٹ کُوڑا جھگڑا
وحدت دا گِن راہ
––––
عشق ہے پیر پیغمبر میݙا
عشق ہے ہادی رہبر میݙا
عشق ہے حیدر صفدر میݙا
عشق ہے میݙی پشت پناہ[3]
اُردو نمونہ کلام
ترمیمحضرت قادر بخش بیدل کی غزل ملاحظہ ہو:
آئینہ وہ بنائیں پانی مٹی رَلاکر
جلوہ دیا اسی نوں صیقل عجب لگا کر
دیدار اپنے کی تھی خواہش اُسی کے تائیں
اپنا جمال دیکھیں صورتِ بشر میں آکر
وحدت کے پردے اندر حُسن ازل چُھپا تھا
کِیتا ظہور شہہ نے کثرت کے تائیں بناکر
آدم نہیں یہ اﷲ صُورت کاویس پہنے
آیا اسی جگت میں اپنے تائیں چُھپا کر
ہوشیار رہ تُوں بیدلؔ ہمہ اوست کا ہو قائل
نظارا نُورِ حق کا مظہر میں جا بجاکر
٭٭٭٭٭
بہرصورت کہ بن آوے وہی ساجن صحیح کرنا
صدق سپتی آگے اُسدے ادب کے حال میں رہنا
وہی سالکِ طریقت ہے وہی ماہرِ حقیقت ہے
وہی صاحبِ شریعت ہے پچھوں تے پیر مَت دھرنا
وہی مارے اَناالحق دم کرے اظہار سر مبہم
وہی باندھے کمرِ محکم جو آپی آپ سُوں لڑنا
وہی رومی و زنگی ہے، وہی ترسا فرنگی ہے
وہی مردانہ جنگی ہے، لباساں دیکھ مت ڈرنا
سمجھ سِرّ عشق کا بیدلؔ نہ رہ اس بات سے غافل
سدا باہمتِ کامل حرف ہمہ اُوست کا پڑھنا
حوالہ جات
ترمیم- ↑ سندھی کتاب: سندھ جا صوفی
- ↑ صابر عدنانی، "سنہرے لوگ ؛ بیدل اور بیکس"۔ ایکسپریس اردو، 1 نومبر 2015
- ↑ محمد اسلم رسولپوری (اگست 1978ء)۔ منتخب سرائیکی کلام بیدل سندھی۔ بزم ثقافت 4 مائی مہربان محلہ چوک فوارہ، ملتان۔ صفحہ: 1،21،26