سچل سرمست
سچل سرمست (پیدائش:1739ء– وفات: 11 اپریل 1827ء) سندھ سے تعلق رکھنے والے مشہور صوفی بزرگ، شاعر، فلسفی اور مفکر تھے۔ آپ کی وجہ شہرت آپ کا سات زبانوں میں فکرِ سخن (کلام) ہے جس کے باعث آپ کو ’’شاعر ہفت زباں‘‘ کہا جاتا ہے۔ سندھ کے ادبی حلقوں میں آپ کی شہرت آج تک قائم ہے جبکہ سندھی معاشرے میں سچ کی پہچان کے لیے آپ کا نام ’’سچل‘‘ بطور استعارہ استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ کا کلام آج بھی سندھ کی اٹھارہویں اور اُنیسویں صدی کے متعلق وافر مقدار میں معاشرتی، سماجی اور فکری افکار سے آشکار کرتا ہے۔سچل سرمست اُردو اور فارسی کے نامور شعرا کے معاصر بھی تھے جن میں غالبؔ، راسخ عظیم آبادی، میرتقی میرؔ، میر دردؔ شامل ہیں۔
سچل سرمست | |
---|---|
(سندھی میں: سچل سرمست) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1739ء درازا |
وفات | 11 اپریل 1827ء (87–88 سال) درازا |
شہریت | مغلیہ سلطنت (1739–1748) درانی سلطنت (1748–1772) تالپور خاندان (1772–11 اپریل 1827) |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، مصنف ، عالم ، فلسفی |
پیشہ ورانہ زبان | پنجابی ، سرائیکی ، بلوچی ، سندھی ، فارسی ، عربی |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمپیدائش اور نام
ترمیم- مزید پڑھیں: قادر بخش بیدل، حسین بن منصور حلاج، فرید الدین عطارؔ نیشاپوری
سچل سرمست کا پیدائشی نام عبد الوہاب رکھا گیا تھا۔اکثر کتب میں آپ کو عبد الوہاب فاروقی بھی لکھا گیا ہے۔آپ کے والد کا نام صلاح الدین اور دادا کا نام میاں صاحب ڈنہ (صاحبڈنو) تھا۔سچل سرمست کی پیدائش 1152ھ مطابق 1739ء میں درازا میں ہوئی۔آپ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔آپ کا نام آپ کے پردادا کے نام کی مناسبت سے عبد الوہاب رکھا گیا تھا مگر اپنی سچائی کے سبب سے آپ سچل، سچے ڈنہ، سچیڈنو اور سچو کے ناموں سے مشہور ہوئے۔سچل نام میاں عبد الحق نے رکھا تھا جو رشتے میں آپ کے چچا اور سسر بھی تھے۔ یہی نام آگے چل کر آپ کی شہرت کا باعث بن گیا۔ البتہ فارسی شاعری میں دو تخلص خدائیؔ اور آشکارؔ بطور تخلص اِختیار کیے مگر آج دنیا عبد الوہاب خدائیؔ یا عبد الوہاب آشکارؔ سے واقف نہیں بلکہ سچل سرمست کو جانتی ہے۔سندھ میں ممتاز تعلیمی اور رفاہی اداروں کے نام سچل سرمست کے نام پر رکھے گئے ہیں[1]۔سچل نام آپ نے اپنی سندھی، سرائیکی اور اردو شاعری میں بطور تخلص کے استعمال کیا ہے جبکہ فارسی شاعری میں خدائیؔ اور آشکارؔ ، دو تخلص استعمال کیے ہیں[2]۔سندھی زبان کے ممتاز شاعر فقیر قادر بخش بیدلؔ نے سچل سرمست کی وفات پر جو غزل نما کافی سندھی زبان میں کہی ہے‘ اُس میں انھیں ’’مست، سالک، عارف، منصور حلَّاج اور فرید الدین عطارؔ نیشاپوری ثانی کہا ہے۔
سلسلۂ نسب
ترمیمسچل سرمست کا سلسلۂ نسب خلیفہ دؤم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ اِس لحاظ سے آپ فاروقی نسب سے تعلق رکھتے ہیں۔ سلسلۂ نسب یوں ہے: حافظ عبد الوہاب سچلؔ بن صلاح الدین بن محمد حافظ عرف صاحبڈنہ بن عبد الوہاب بن محمد حافظ بن عبد الوہاب بن شرف الدین بن موسیٰ ابن حافظ علم الدین بن شہاب الدین بن سلیمان بن ابوسعید بن نور الدین بن محمود بن ابوالفتح بن محمد اسماعیل بن محمد یوسف بن سلیمان بن محمد بن احمد بن برہان الدین بن عبد العزیز بن عبد الوہاب بن عبد المطلب بن برہان الدین بن احمد بن عبد اللہ بن یونس بن محمد اسحاق بن عبد اللطیف بن محمد باقر بن محمد بن شہاب الدین بن عبد العزیز بن عبد اللہ بن عمر الفاروق رضی اللہ عنہ۔[3]
خاندان
ترمیم- مزید پڑھیں: محمود غزنوی، بہاء الدین زکریا ملتانی، درازا شریف
سچل سرمست کے آبا و اجداد میں سے شہاب الدین بن عبد العزیز بن عبداللہ بن عمر ‘ محمد بن قاسم کے ساتھ سندھ آئے تھے۔ وہ نہ صرف محمد بن قاسم کے مشیر اعلیٰ تھے بلکہ محمد بن قاسم کے لشکر کے پیش امام بھی تھے۔ فتح سندھ کے بعد محمد بن قاسم نے انھیں سیہون کا حاکم مقرر کیا تھا۔ اِس لحاظ سے وہ سندھ کے پہلے مسلمان حاکم تھے۔ شہاب الدین بن عبد العزیز بن عبداللہ بن عمر کا اِنتقال 9 محرم الحرام 95ھ (4 اکتوبر 713ء) کو سیہون میں ہوا اور وہیں مدفون ہوئے۔ اِن کے بعد پوتا محمد باقر تخت نشیں ہوا جو 7 رجب 124ھ (17 مئی 742ء) کو سیہون میں فوت ہوا اور وہیں مدفون ہوا۔ محمد باقر کے بعد اُس کا فرزند عبد اللطیف جانشین ہوا جو 14ذیقعد164ھ (11 جولائی 781ء) کو فوت ہوا۔ عبد اللطیف کے بعد یہ حکمرانی خاندان میں پشت در پشت چلتی رہی۔ 392ھ مطابق 1002ء میں جب سلطان محمود غزنوی نے سندھ پر حملہ کیا تو انھوں نے محمد اسحاق کے فرزند یونس (متعدد ماخذوں میں محمد) کی سالانہ تنخواہ مقرر کردی اور اِن کی اولاد سے مخدوم نور الدین کے دو فرزندگان مخدوم ابوسعید اور مخدوم بصر الدین سیہون سے ہجرت کرکے پرگنہ گاگن (گاجن)، موجودہ تعلقہ گمبٹ ضلع خیرپور میں سکونت پزیر ہو گئے اور سنہ 665ھ مطابق 1267ء میں اُس وقت کے مشہور بزرگ شاہ جمار کے مرید ہوئے۔ شاہ جمار کا مقبرہ تعلقہ گمبٹ کے قصبہ گڈے جی میں ہے اور مخدوم ابوسعید کا مقبرہ موسے جی میں ہے۔ مخدوم ابوسعید اور مخدوم بصر الدین نے مرشد کے حکم پر ریاضتیں اور مجاہدے کیے۔ملتان کے مشہور سہروردی بزرگ شیخ الاسلام بہاء الدین زکریا ملتانی سیر و سفر کرتے ہوئے جب اِس علاقہ میں تشریف لائے تو اِن بزرگوں کی بڑی تعریف کی۔ میاں صاحبڈنہ (صاحبڈنو) مذکورہ بزرگ یعنی مخدوم ابوسعید کی نویں پشت میں سے پیدا ہوئے تھے اور میاں صاحبڈنو نے ہی خانقاہ درازا شریف کی بنیاد رکھی تھی[4]۔آپ کے دادا میاں صاحبڈنو کی وفات 1772ء میں اور چچا میاں عبد الحق کی وفات 1793ء میں ہوئی۔
ابتدائی حالات اور تحصیل علم
ترمیم1158ھ مطابق 1745ء میں جب سچل جب چھ برس کے ہوئے تو اُن کے والد میاں صلاح الدین کا اِنتقال ہو گیا۔والد کی وفات کے بعد آپ کی پرورش آپ کے دادا خواجہ محمد حافظ صاحبڈنو اور چچا خواجہ عبد الحق نے کی۔ نامور عالم دین حافظ عبد اللہ قریشی سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی اور قرآن حفظ کیا۔ بعد ازاں عربی و فارسی کی تعلیم انھوں نے اپنے چچا عبد الحق سے ہی حاصل کی۔ چچا عبد الحق سے آپ نے قرآن مجید کی تفسیر، علم حدیث، فقہ، منطق، فلسفہ ، تصوف و معرفت کی تعلیم حاصل کی۔ اپنے سندھی، سرائیکی اور فارسی کلام میں سچل نے اپنے چچا (جو درحقیقت استاد اور مرشد بھی تھے) سے عقیدت کا اِظہار کرتے ہوئے اُن کی بے حد تعریف و توصیف کی ہے[5]۔سچل نے شیخ الاکبر محی الدین ابن العربی، شیخ فرید الدین عطارؔ نیشاپوری اور شیخ احمد جامؔ کی تصنیفات کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ بالخصوص شیخ فرید الدین عطارؔ نیشاپوری سے بہت متاثر تھے۔[6]
ازدواج
ترمیمسچل سرمست کی شادی اُن کی چچازاد سے ہوئی جو میاں عبد الحق کی صاحبزادی تھیں۔ یہ شریک ِ حیات خاتون دو سال تک زندہ رہیں اور وفات پاگئیں۔ مگر اِن سے کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی۔ بعد ازاں سچل نے شادی نہیں کی۔ اِس لیے آج تک سچل سرمست کی کوئی صلبی اولاد موجود نہیں ہے[7]۔مختلف روایات کی بنا پر کہاجاتا ہے کہ اِن خاتون سے ایک بیٹا نیاز علی نام کا پیدا ہوا تھا ، کچھ ماخذوں میں اِس لڑکے کا نام موجود علی لکھا ہوا ہے۔ یہ بچہ چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو گیا تھا۔[8]
شعرگوئی کا آغاز
ترمیمسچل سرمست نے 15سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کیے اور تقریباً 75 سال کی عمر تک شعر کہتے رہے۔ درحقیقت سندھ کا کوئی شاعر ایسا نہیں جس نے مختلف زبانوں میں اِس کثرت سے شعر کہے ہوں۔ عام روایت یہ ہے کہ آخر عمر میں سچل سرمست نے اپنے کلام کا ایک بہت بڑا حصہ اِس خیال سے ضائع کر دیا تھا کہ لوگ اِسے سمجھ نہیں سکیں گے اور گمراہ ہوں گے۔ نامور محقق مرزا علی قلی بیگ کی تحقیق کے مطابق سچل سرمست نے رحلت کے وقت 9 لاکھ 36 ہزار 606 اشعار اشعار پر مشتمل ذخیرۂ کلام چھوڑا ۔ یہ ذخیرۂ کلام مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتب کی شکل میں موجود ہے۔[9]
اِس حادثہ (یعنی کلام کو دریا بُرد کردینے کے بعد)کے بعد اب جو اشعار ہم تک پہنچ سکے ہیں‘ وہ تمام تر سچل کے مریدین اور عقیدت مندوں کی وساطت سے ہی ملے ہیں۔ جس کی صورت یہ ہوئی ہے کہ سچل کی محفلِ سماع میں جب طبلے پر تھاپ پڑتی تھی اور یکتارا اپنا سُریلا راگ چھیڑتا تھا تو وہ بے خود ہوکر نثر کی بجائے نظم میں وحدت الوجود کے معانی و مطالب اور اَسرار و غوامض کی تفاسیر بیان کرتے تھے اور سامعین و حاضرین اِن اشعار کو تبرک سمجھ کر لکھ لیا کرتے تھے جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے اور ایک وسیع تر حلقے میں پھیل گئے۔ اِس خیال کی تائید اِس بات سے بھی ہوتی ہے کہ فارسی میں دیوان آشکار کے علاوہ سچل کی 7 مثنویاں دستیاب ہو چکی ہیں جن کی ایک نقل روہڑی میں ساداتِ موسوی کے پاس اور دوسری خیرپور میں پروفیسر عطاء محمد حامی کے پاس محفوظ تھی۔[10]
معاصر حکمرانوں سے تعلقات
ترمیم- مزید پڑھیں: سندھ کا تالپور حکمران خاندان
سچل سرمست اپنے عہد کے سندھ کے حکمرانوں کے ساتھ بہترین تعلقات میں بھی شہرت رکھتے تھے بالخصوص میر سہراب خان اور میر رستم خان سے اچھے مراسم تھے۔ امیرانِ تالپور آپ کی بہت عزت و تکریم کیا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں رانی پور، گمبٹ، کھہڑا، پیرجوگوٹھ اور اُس دور کی دوسری خانقاہوں کے سجادہ نشیوں کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات و مراسم قائم تھے[11]۔سندھ کے تالپور حکمران شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور سچل اہلسنت مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور اِس کے ساتھ ساتھ فاروقی النسل بھی، لیکن تالپور حکمران اِس خاندان کے بزرگوں کے بڑے معتقد تھے اور سچلؔ کی بہت قدر کیا کرتے تھے۔ خانقاہ درازا شریف پر پہلا مقبرہ میر سہراب خان‘ والیٔ ریاست خیرپور نے 1225ھ میں تعمیر کروایا تھا۔[12]
حلیہ
ترمیمسچل سرمست کا جسم سیدھا اور قد درمیانہ تھا۔ رنگت صاف بادامی تھی ۔ نقوش بڑے اور خوبصورت تھے۔ آنکھیں بڑی تھیں ۔ بال لمبے رکھتے تھے۔ لباس سفید پہنا کرتے تھے۔ کبھی کبھار ننگے پاؤں بھی پھرتے تھے۔ ہاتھ میں اکثر لکڑی اور تنبورا بھی ہوتا تھا۔[13]
خوراک و آرام
ترمیمتمام عمر سچل سرمست کی خوراک نہایت سادہ رہی۔ اکثر روزے سے رہتے تھے۔ جب روزہ نہ ہوتا تو چھاچھ (لسی) میں سرخ مرچیں اور روٹی ملا کر نوش فرماتے تھے۔ عموماً لکڑی کے بنے ہوئے ایک تخت پوش یا کبھی کبھار زمین پر دری بچھا کر سو جایا کرتے تھے۔ رات کا زیادہ تر وقت مراقبے اور ذِکر و فکر میں بسر ہوتا تھا۔[14]
موسیقی
ترمیمسچل سرمست علم موسیقی میں بھی ماہر تھے۔ آپ کو موسیقی سے بڑی دلچسپی تھی۔ بعض اوقات بیماری میں بھی راگ سن کر صحت مند ہوجاتے تھے۔ نہ صرف موسیقی سننے کے مشتاق تھے بلکہ اِس فن سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔ اکثر اوقات ہاتھ میں تنبورا رہتا تھا۔[15]
وفات
ترمیمآخری عمر میں بھی حضرت سچل کی صحت اچھی رہی ۔ مرض وفات کا آغاز خونی اسہال سے ہوا یہاں تک کہ 14 رمضان المبارک 1242ھ مطابق 11 اپریل 1827ء کو درازا میں تقریباً نوے سال (باعتبار ہجری) وفات پاگئے۔[16]
تصنیفات
ترمیمسچل سرمست اپنے عہد کے بڑے عالم اور بسیارگو شاعر تھے۔ اُن کا سندھی، سرائیکی، اُردو اور فارسی کلام کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔سچل سرمست کے پہلے شارح مرزا علی قلی بیگ کی روایت کے مطابق سچل کی وفات تک اُن کے کلام کی تعداد 9 لاکھ 36 ہزار 606 تھی۔یہ اشعار مختلف شعری اصناف میں موجود تھے جن میں آج بھی بیشتر شائع ہو چکی ہیں۔
شاعری
ترمیمسندھی شاعری میں مقام
ترمیمشاہ عبداللطیف بھٹائی کے بعد سچل سرمست کو سندھی زبان کا ممتاز ترین شاعر سمجھا جاتا ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری میں تو جمال ہے مگر سچل سرمست کی شاعری میں جلال پایا جاتا ہے اور یقیناً وہ اِسی جلالی کیفیت و رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔کائنات کی ظاہری کثرت میں بنیادی وحدت ہی کارفرما ہے‘ جیسے نظریات کی تلقین سچل سرمست کے کلام میں جابجاء دکھائی دیتی ہے۔ بنی نوعِ انسان کے رنگ اور روپ کی کثرت وحدت الوجود میں ہی پائی جاتی ہے اور اِس لحاظ سے لوگوں میں ذات پات‘ اُونچ نیچ‘ فرقہ ، طبقہ اور عقیدہ کی موجودگی کی کوئی وُقعت نہیں ہے یعنی سب انسان برابر ہیں کیونکہ لہر اور بحر کی اصلیت ایک ہی ہے۔سچل سرمست کا کلام زمان و مکان کی حدود کا پابند نہیں سمجھا جاتا بلکہ انھوں نے مذہب و ملت‘ ملک و وَطن اور زبان کی حدود کو حاصل کرکے ایک ایسی ہمہ گیر تعلیم کی تبلیغ کی ہے جس کی دنیا کے ہر ملک و قوم کی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ سچل سرمست کے نزدیک مسلم و غیر مسلم اور امیر و غریب یا بالفاظ دیگر بنی نوع انسان کے درمیان کسی قسم کی تفریق ایک ناپسندیدہ فعل ہے۔ اُن کا عقیدہ ہے کہ محبت کی بنیاد اِتحادِ روحانی پر منحصر ہے اور عاشق و محبوب کی ارواح دو مختلف چیزیں نہیں ہیں۔ لہٰذا سچل سرمست نے جو کچھ دیکھا یا محسوس کیا، اُسے شعر کا جامہ پہنایا اور اِس لحاظ سے اُن کے کلام کا ہر لفظ منزلِ مقصود حاصل کرنے کے لیے ایک درسِ عمل ہے۔پروفیسر عطاء محمد حامی نے اپنی تالیف ’’منصورِ ثانی: حضرت سچل سرمست‘‘ میں آپ کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’ حضرت سچل سرمست سے پہلے سندھی شاعری صرف قدیم دوہے اور وائی یا کافی پر مبنی تھی۔ سچل سرمست نے اِن دونوں اصنافِ سخن پر طبع آزمائی کی۔ سندھی دوہے کی زمین شاہ عبداللطیف بھٹائی نے پہلے ہی ہموار کر رکھی تھی لیکن اِس کی آبیاری اور گل افشانی کا کام سچل سرمست نے کیا۔ سچل سرمست پہلے شاعر ہیں جنھوں نے ہیر رانجھا کی داستان کو اپنی شاعری کا موضوع بنا کر سندھی ادب میں ایک گراں قدر اِضافہ کیا۔[17]
سچل سرمست کو سندھ کے نخلستان کا گلِ سرسبد ہونے کی بنا پر عموماً لوگ انھیں صرف سندھی زبان اور سرائیکی زبان کا شاعر خیال کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اِن دو زبانوں کے علاوہ اردو زبان اور فارسی زبان میں بھی کم و بیش دس ہزار اشعار کہے ہیں جن میں سے غزلیات کا ایک ضخیم مجموعہ ’’دیوان آشکار‘‘ کے عنوان سے تقسیم ہندوستان سے قبل سندھ کے ایک ادارے نے شائع کیا تھا۔ یہ مجموعہ فارسی کی کئی سو غزلیات اور اُردو کی 60،70 غزلیات پر مشتمل ہے۔ اِس کے علاوہ سندھی ادبی بورڈ(کراچی) نے سچل سرمست کا سرائیکی کلام کا ایک مجموعہ بھی شائع کیا ہے جس کے آخر میں اُردو کی پچاس غزلیں بھی شامل کی گئی ہیں، لیکن اُن میں اکثر وہی ہیں جو اِس سے پہلے دیوانِ آشکار میں شائع ہو چکی ہیں۔ غرض کہ اِس طرح سچل سرمست کی اُردو غزلیات کے تقریباً پانچ سو اشعار منظرِ عام پر آچکے ہیں۔[18]
اردو شاعری
ترمیم1739ء میں جب سچل سرمست کی پیدائش ہوئی تو اُس وقت اردو زبان اصلاح و تہذیب کی ابتدائی منزلیں طے کر رہی تھی۔ سچل نے 1754ء کے لگ بھگ شعر کہنا شروع کیے تھے۔ اُس وقت تک ولی دکنی فوت ہو چکے تھے، انعام اللہ خاں یقینؔ کا آخری دور تھا، قائم چاندپوری، خواجہ میر درد اور میر تقی میر کی شاعری کا چرچا شروع ہو چکا تھا۔ نظیر اکبر آبادی نے شعرگوئی شروع کردی تھی اور راسخ عظیم آبادی ابھی مکتب میں ابتدائی درسیات پڑھ رہے تھے۔ اِن تمام تاریخی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم سچل کی اُردو غزل کا جائزہ لیتے ہیں تو اُس میں ہمیں نفی و اَثبات، فناء و بقاء، حال و قال، انا الحق اور وحدت الوجود کے پردے چاک ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں، تو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ سچل اُن سابقین کی صف میں شامل کیے جانے کے مستحق ہیں جنھوں نے علم الہٰیات اور اخلاقیات کو ایک مستقل موضوع کی حیثیت سے اُردو غزل میں شامل کرکے اِس صنفِ سخن کا مرتبہ و مقام بلند کیا ہے۔ لیکن اِس کے ساتھ ہی سچل میں ایک امتیازی وصف بھی نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ انھوں نے اپنے عہد کی شاعری کے عام ماحول سے متاثر ہوکر اپنی غزل میں تَفَنُّن کے طور پر بھی بے مطلب و بے معانی اور سطحی باتوں کو کوئی جگہ نہیں دی ہے۔علاوہ ازیں غزل میں معاشرے کی اصلاحِ حال کے لیے وعظ و پند کا جو طریقہ جس نے مولانا حالیؔ کے دور میں خوب فروغ پایا، وہ مولانا حالیؔ سے بہت عرصہ قبل سچل کی شاعری میں نمایاں عنصر کی صورت میں موجود تھا۔[19]
فارسی شاعری
ترمیمفارسی میں سچل کے غیر مطبوعہ کلام کو چھوڑ کر اُن کی جس قدر غزلیات دیوانِ آشکار میں شائع ہو چکی ہیں، اگرچہ اِن میں مضامین‘ زبان اور اندازِ بیان کے اعتبار سے کوئی ایسا خاص اِمتیازی وصف نہیں ہے جو شعرائے عجم اور برصغیر کے فارسی گو شعرا کے یہاں موجود نہ ہو، تاہم یہی ایک بات بجائے خود بہت بڑا وصف ہے کہ ایک ایسا شاعر جو شب و روز سندھی اور سرائیکی میں گفتگو کرنے کا عادی ہو اور اِن دو زبانوں کا شاعر بھی ہو، جسے ابو الفضل علامیؔ اور ابو الفضل فیضی کی طرح کسی درباری ضرورت کے تحت بھی فارسی زبان سے سابقہ نہیں پڑتا تھا اور فارسی اُس کی یا اُس کے باپ دادا کی مادری زبان بھی نہ تھی، پھر بھی سچل نے زبانِ غیر میں محض اِس لیے کہ فارسی اُس وقت علمی زبان خیال کی جاتی تھی‘ ہزاروں اشعار کہہ ڈالے جبکہ اِتنے اشعار بعض عجمی شعرا کے دواوین میں بھی نہیں پائے جاتے[20]۔
سچل سرمست اور نظریہ وحدت الوجود
ترمیم- مزید پڑھیں: وحدت الوجود
سچل سرمست وحدت الوجود کے پیروکار تھے۔ انھوں نے اپنی سندھی، سرائیکی، اُردو اور فارسی شاعری میں اِس کی تشریح کی ہے۔ تصوف میں انھیں اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ سچل سرمست مذہب و عقائد کی قید و بند سے آزاد ہو کر سوچتے تھے۔ وہ اِنسان دوست صوفی بزرگ تھے۔ انھوں نے اپنی ہستی کو خود میں گُم کر دیا تھا اور وہ سندھ کے اُن صوفی شعرا میں سرِفہرست ہیں جنھوں نے وحدت اور اِنسانی عظمت کا درس دیا۔ انھوں نے انسان کو اپنی عظمت، اعلیٰ حیثیت اور حقیقت کی یاد دِلائی تاکہ وہ صحیح معنوں میں اپنے آپ کو خالقِ کائنات کا خلیفہ ہونے کا اہل ثابت کرسکے۔ سچل سرمست تصوف میں وحدت الوجود کے مسلک سے وابستہ تھے۔ اِس مسلک اور نظریے کے مطابق اللہ تعالیٰ کا قُرب اور روشنی ساری کائنات پر چھائی ہوئی ہے اور خدائی صفات کا مرکز صرف انسان ہے جو احسنِ تقویم کی تفسیر ہے اور مسجودِ ملائک ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی روح پھونکی۔ سچل سرمست مجسمہ عشق تھے اور عشق کو عطائے الہیٰ سمجھتے تھے۔سچل سرمست کے مطابق انسان اپنی نادانی، جہالت اور دوئی (کسی دوسرے کو شریک کرنا) کی وجہ سے وحدت کی حقیقت اور اپنی عظمت کو بھلا بیٹھا ہے جس کی وجہ سے وہ غلامی اور پستی کی زنجیروں میں پھنس کی ذِلت کی زندگی بسر کر رہا ہے حالانکہ اِس میں وہ اُلوہی اوصاف موجود ہیں جن کے باعث ملائکہ نے اِسے سجدہ کیا تھا[21]۔وحدت الوجود کے اِظہار میں بے باکی کے سبب سندھ کے نام نہاد علما نے آپ پر فتویٰ کفر عائد کر دیا۔ لیکن وہ تالپور حکمرانوں کی وجہ سے آپ کا کچھ بگاڑ نہ سکے۔ وحدت الوجودی نظریات کے سرگرم مبلغ ہونے کی وجہ سے آپ کو عام طور پر منصور حلَّاج کی نسبت سے ’’منصورِ ثانی‘‘ کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔[22]
کتابیات
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ سرائیکی دیوان سچل سرمست، صفحہ 9۔
- ↑ سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری: صفحہ12-13۔
- ↑ منتخب سرائیکی کلام سچل سرمست، صفحہ 8۔
- ↑ سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری: صفحہ11-12۔
- ↑ سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری: صفحہ14۔
- ↑ سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری: صفحہ15۔
- ↑ سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری: صفحہ15۔
- ↑ منتخب سرائیکی کلام سچل سرمست، صفحہ 10۔
- ↑ سرائیکی دیوان سچل سرمست، صفحہ 10۔
- ↑ سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری: صفحہ 75-76۔
- ↑ سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری: صفحہ15۔
- ↑ منتخب سرائیکی کلام سچل سرمست، صفحہ 10-11۔
- ↑ منتخب سرائیکی کلام سچل سرمست، صفحہ 11۔
- ↑ منتخب سرائیکی کلام سچل سرمست، صفحہ 11۔
- ↑ منتخب سرائیکی کلام سچل سرمست، صفحہ 12۔
- ↑ منتخب سرائیکی کلام سچل سرمست، صفحہ 11۔
- ↑ سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری: صفحہ 43-48۔
- ↑ سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری: صفحہ 65-66۔
- ↑ سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری: صفحہ 65-67۔
- ↑ سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری: صفحہ 76۔
- ↑ سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری: صفحہ 44-48۔
- ↑ منتخب سرائیکی کلام سچل سرمست، صفحہ 12۔