قاسم نام اور ابو مغیرۃ کنیت تھی[1] پورا نسب نامہ یہ ہے، قاسم بن فضل بن معدان بن قریط [2]قبیلہ ازد کی ایک شاخ بنو لحیی سے خاندانی تعلق رکھتے تھے، یہ خاندان بصرہ کے حدان نامی محلہ میں آباد ہو گیا تھا، اسی بنا پر قاسم بن الفضل ازدی، حدانی اور بصری تینوں نسبتوں سے مشہور ہیں۔ [3]

حضرت قاسم بن الفضلؒ
معلومات شخصیت

نام ونسب

ترمیم

علم و فضل

ترمیم

علمی اعتبار سے وہ اپنے عہد کے ممتاز امام شمار ہوتے تھے ،محمد بن سیرین اور قتادہ جیسے اکابر تابعین کے فیض صحبت و تربیت نے انھیں حدیث کا امام بنادیا تھا۔حتی کہ عبدالرحمن بن مہدی بھی جو فنِ جرح و تعدیل میں نہایت جلیل المرتبت تھے بصد فخر و ابتہاج ان سے اپنے تلمذ کا ذکر کرتے ہیں۔

حدیث

ترمیم

حدیث کی تحصیل انھوں نے بکثرت شیوخ سے کی تھی جن میں کبار تابعین اور ممتاز اتباعِ تابعین دونوں طبقے شامل ہیں، چند مشہور اسمائے گرامی یہ ہیں، محمد بن سیرین ،قتادہ بن دعامہ ، ابی بصرہ، محمد بن زیاد الجعفی ،ثمامہ بن حزن القشیر ی، سعد بن المسلب ، نضر بن شیبان، محمد بن علی بن الحسین ،یوسف بن سعد، لبطہ بن الفرزوق۔ [4]

تلامذہ

ترمیم

ان کے ابرِ فیض سے بہرہ یاب ہونے والوں میں امام وکیع ، امام عبدالرحمن بن مہدی، یونس بن محمد، ابوداؤد الطیالسی، عبد اللہ بن معاویہ الحمحی، شیبان بن فروخ، ابن ہشام المحرومی، نضربن شمیل، بہز بن اسد، عبداللہ بن المبارک، قبیصہ، موسیٰ بن اسمعیل ، مسلم بن ابراہیم ، ابو الولید الطیالسی کے نام خصوصیت سے لائق ذکر ہیں۔ [5]

ثقاہت

ترمیم

ان کی عدالت ثقاہت اور تبت فی الحدیث پر اکثر علما کا اتفاق ہے امامِ الجرح والتعدیل عبدالرحمن بن مہدی اپنے مائہ فخر استاذ کے متعلق شہادت دیتے ہیں کہ :ھو من مشائخنا الثقات [6]انہی کا دوسرا قول ہے: کان من قدماء اشیا خنا ومع ذلک من ثبتھم وہ ہمارے متقدم شیوخ میں تھے اس کے ساتھ ہی ان میں سب سے زیادہ تثبت رکھتے تھے۔ ابن شاہین نے کتاب الثقات میں لکھا ہے: قاسم بن الفضل من ثقات الناس: قاسم بن الفضل ثقہ لوگوں میں ہیں۔ علاوہ ازیں یحییٰ بن سعید القطان ،امام احمد،ابن معین ، نسائی، ترمذی اور ابن سعد سب نے بصراحت ان کی توثیق کی ہے۔ [7] صرف عقیلی اور ابن عمر نے ان کا ذکر ضعفاء کی فہرست میں کیا ہے لیکن علامہ ذہبی نے ان کی سخت تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان لوگوں نے کوئی ایسی دلیل اپنے دعویٰ پر پیش نہیں کی جس سے فی الواقع قاسم کا ضعف ثابت ہو سکے۔ [8]

وفات

ترمیم

167ھ میں بمقام بصرہ داعی اجل کو لبیک کہا۔ [9]

حوالہ جات

ترمیم
  1. (طبقات ابن سعد:7/40)
  2. (تہذیب التہذیب:8/329)
  3. (اللباب فی الانساب:1/284)
  4. (العبر فی خیر عن غیر :1/251)
  5. (تہذیب التہذیب:8/329)
  6. (العبر:1/251)
  7. (خلاصۃ تذہیب تہذیب الکمال:213،وطبقات ابن سعد :6/40)
  8. (میزان الاعتدال:2/242)
  9. (العبر فی خبر من :1/251،تہذیب التہذیب:8/230)