آپ کا نام محمد، کنیت ابو بکر اور والد کا نام سیرین تھا۔ابن سیرین کے نام سے معروف ہیں۔

محمد بن سیرین
(عربی میں: مُحمَّد بن سيرين البصري ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 653ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بصرہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 14 جنوری 729ء (75–76 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بصرہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ
سلطنت امویہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عارضہ بہرا پن  ویکی ڈیٹا پر (P1050) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
استاذ انس بن مالک،  زید بن ثابت،  ابو ہریرہ،  عبد اللہ بن عباس،  عبد اللہ بن عمر  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص قتادہ بن دعامہ،  ایوب سختیانی  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف،  محدث،  فقیہ،  مفسر قرآن  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی[1]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فقہ،  علم حدیث،  تفسیر قرآن،  خواب کی تعبیر  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب ترمیم

محمد نام، ابوبکر کنیت والد کا نام سیرین تھا، سیرین جرجرایا(عراق) کے باشندے تھے اور ٹھٹھیرے کا کام کرتے تھے، عین التمر میں ان کی دکان تھی، حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں عین التمر کے معرکہ میں اورعجمیوں کے ساتھ سیرین بھی گرفتار ہوئے اور کسی مجاہد کے حصہ میں پڑے، بعد میں وہ انس بن مالکؓ کی غلامی میں تھے، اس سے قیاس ہوتا ہے کہ شاید وہ ان ہی کے حصہ میں پڑے ہوں گے یا انھوں نے کسی مجاہد سے خریدا ہوگا، بہرحال وہ انسؓ بن مالک کی غلامی میں تھے، سیرین بڑے صناع تھے، کافی کماتے تھے، اس لیے انسؓ نے بیس یا چالیس ہزار لے کر انھیں کچھ عرصہ کے بعد آزاد کر دیا۔ [2]

ان کی بیوی صفیہ حضرت ابوبکر صدیق کی لونڈی تھیں اورایسی لونڈی تھیں جن کی ذات آزاد عورتوں کے لیے قابل رشک ہے، ان کے نکاح میں تین امہات المومنین نے ان کو سنوارا تھا اور اٹھارہ بدری صحابہ شریکِ نکاح تھے، اوران کے لیے دعائے خیر کی تھی۔ [3]

پیدائش ترمیم

ان دونوں کی شخصیت سے مل کر محمد بن سیرین کی ذات وجود میں آئی وہ 33 میں تولد ہوئے۔[4]

فضل وکمال ترمیم

حضرت انس بن مالکؓ کی ذات وہ تھی جن کے معمولی تربیت یافتہ علم و عمل کے وارث ہوئے، ابن سیرین نے انہی کے دامنِ علم میں تربیت پائی تھی اورمدتوں ان کے ساتھ رہے تھے (تہذیب وتذکرہ الحفاظ وابن سعد وغیرہ)انس بن مالکؓ کے علاوہ اکابر صحابہ میں انھوں نے ابوہریرہؓ کی زیادہ صحبت اٹھائی تھی اور ان کے اصحاب میں ان کا شمار تھا، تابعین میں وہ مدتوں سرتاجِ تابعین حضرت حسن بصری کی صحبت میں رہے۔ [5] ان بزرگوں کے فیض صحبت نے ابن سیرین کو پیکر علم وعمل بنادیا، علامہ ابن سعد لکھتے ہیں : کان ثقۃ مامونا عالیار فیعا اماما کثیر العلم ورعا حافظ ذہبی لکھتے ہیں، کان فقیھا اماما عزیز العلم ثقۃ ثبتا علامۃ التفسیر راسانی الورع

تفسیر ترمیم

انھیں جملہ علوم میں یکساں کمال حاصل تھا، امام نووی لکھتے ہیں کہ وہ تفسیر، حدیث فقہ اور تعبیر رویا وغیرہ فنون میں امام تھے۔ [6]

حدیث ترمیم

ابن سیرین حضرت انسؓ کے تربیت یافتہ، ابوہریرہؓ کے شاگرد اورحسن بصری کے ہم جلیس تھے، جن میں سے ہر ایک حدیث کا رکن اعظم تھا، ان تینوں بزرگوں کے علاوہ انھوں نے اس فن شریف میں صحابہ میں زید بن ثابتؓ، حذیفہ بن یمانؓ، ابن عمرؓ، ابن عباسؓ، حسنؓ بن علیؓ، جندب بن عبد اللہ بجلیؓ، رافع بن خدیجؓ، سلیمان بن عامرؓ، سمرہ بن جندبؓ، عثمان بن ابی العاصؓ، عمران بن حصینؓ، کعب بن عجرہؓ، معاویہؓ، ابودرداءؓ، ابو سعید خدریؓ، ابوقتادہ انصاریؓ ابوبکر ثقفیؓ، ام المومنین عائشہ صدیقہؓ اور غیر صحابہ علما میں عکرمہ، شریح، حمید بن عبد الرحمن حمیری عبد اللہ ابن شفیق، عبد الرحمن بن ابی بکرہ، قیس بن عباد، مسلم بن یسار، یونس بن جبیر، عمروبن وہب یحیی بن ابی اسحٰق حضرمی، خالد الخدا وغیرہ ایک بڑی جماعت سے روایتیں کی ہیں۔ [7] ان بزرگوں کے فیض نے ان کو علم حدیث کا دریا بنادیا تھا، ابن سعد، حافظ ذہبی، امام نووی ابن حجرا نہیں امام الحدیث لکھتے ہیں:

احتیاط ترمیم

اس وسعتِ علم کے باوجود وہ بڑے محتاط تھے اورسماع اورروایت دونوں میں انتہائی احتیاط برتتے تھے، معمولی درجہ کے اشخاص سے تحصیل علم اور اخذحدیث خلافِ احتیاط سمجھتے تھے؛چنانچہ فرماتے تھے کہ یہ علم دین ہے، اس لیے اس کو حاصل کرنے سے پہلے اس شخص کو خوب اچھی طرح سے پرکھ لو جس سے اس کو حاصل کرنا ہے۔ [8]

روایت میں اتنے محتاط تھے کہ احادیث کو بالفاظہا روایت کرتے تھے، تنہا معنی بیان کرنا کافی نہ سمجھتے تھے[9]حدیث اس احتیاط سے بیان کرتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی چیز صاف کر رہے ہیں یا کسی چیز کا خوف ہے، انتہائی احتیاط کی بنا پر حدیثوں کا قلم بندکرنا پسند نہ تھا، فرماتے تھے کہ کتاب سے بچو، تمھارے اگلے لوگ کتابوں ہی سے سر گردان اورگمراہ ہوئے، اگر میں کسی چیز کو کتاب بناتا تو رسول اللہ ﷺ کے خطوط کو بتاتا لیکن حدیثوں کو حفظ کرنے کے لیے اس شرط پر ان کا قلمبند کرنا جائز سمجھتے تھے کہ حفظ کرنے کے بعد وہ مٹادی جائیں[10]روایت اورکتابتِ حدیث کے سلسلہ میں ایک باریک نکتہ ارشاد فرماتے تھے کہ اگر کسی بات کرنے والے کو یہ معلوم ہوجائے کہ اس کی باتیں مواخذہ کے لیے قلم بند کی جاتی ہیں تو وہ گفتگو کم کر دے [11]اس کا مقصد یہ ہے کہ جب معمولی باتوں میں باتیں کرنے والے مواخذہ کے خوف سے احتیاط کرنے لگتے ہیں تو حدیثوں کی کتابت میں تو بدرجہ اولی احتیاط کرنی چاہیے کہ اس کی بھول چوک میں زیادہ مواخذہ ہے اور کتابت کی بھول چوک کو دوام حاصل ہوجاتا ہے۔

ان کی مرویات کا پایہ ترمیم

اس احتیاط کی بنا پر ارباب فن کے نزدیک وہ بڑے صادق القول اور ان کی روایات نہایت معتبر مانی جاتی تھیں، ہشام بن حسان کہتے تھے کہ میں نے انسانوں میں سب سے زیادہ سچا ابن سیرین کو پایا، بڑے بڑے ائمہ حدیث شائقین علم کو ان کا دامن پکڑنے کی ہدایت کرتے تھے، شعیب بن حجاب کا بیان ہے کہ شعبی ہم لوگوں سے کہتے تھے کہ تم لوگ ابن سیرین کا دامن پکڑو [12]

تلامذہ ترمیم

حدیث میں ان کے تلامذہ کا دائرہ نہایت وسیع تھا، بعضوں کے نام یہ ہیں، امام شعبی، ثابت، خالد الخداد، داؤد بن ابی ہند، ابن عون، جریر بن حازم، ایوب، عاصم الاحول قتادہ، سلیمان التیمی، مالک بن دینار، امام اوزاعی، قرہ بن خالد، ہشام بن حسان اور ابو ہلال رابسی وغیرہ۔ [13]

فقہ ترمیم

فقہ میں بھی ان کا پایہ نہایت بلند تھا، وہ بالاتفاق اپنے عہد کے اکابر فقہا میں تھے، ابن سعد، حافظ ذہبی، امام نووی اورابن حجر وغیرہ تمام ائمہ فقہ میں ان کی امامت کے معترف ہیں (دیکھو کتب مذکور حالات ابن سیرین) ابن حبان کہتے ہیں کہ ابن سیرین فقیہ، فاضل، حافظ اورمقنن تھے۔ [14]

مہارت قضاء اوراس سے گریز ترمیم

فقہی کمال کی بنا پر انھیں قضا میں بڑی مہارت تھی، عثمانؓ البتی کا بیان ہے کہ اس علاقہ میں ابن سیرین سے زیادہ قضاء کا عالم نہ تھا [15] ان کی مہارت قضا کی وجہ سے ان کے سامنے عہدہ قضا پیش کیا گیا، یہ اس کے خوف سے شام بھاگ گئے پھر عرصہ کے بعد وہاں سے مدینہ واپس آئے۔ [16]

فتاوی میں احتیاط ترمیم

مسائل اورفتاویٰ کے جواب میں اتنے محتاط تھے کہ جواب دیتے وقت شدتِ احتیاط یا خوف سے گھبرا جاتے اوران کی حالت بدل جاتی، اشعث کا بیان ہے کہ ہم لوگ جب ابن سیرین کے پاس بیٹھتے تھے، تو وہ باتیں بھی کرتے تھے، ہنستے بھی تھے، حالات بھی پوچھتے تھے، لیکن جہاں ان سے فقہ کا کوئی مسئلہ یا حرام وحلال کے متعلق کچھ پوچھا جاتا تو اُن کا رنگ متغیر ہوجاتا اور یہ معلوم ہی نہ ہوتا کہ تھوڑی دیر پہلے وہ ہنس بول رہے تھے [17]ابن عون کا بیان ہے کہ میں نے ایک مسئلہ میں ابن سیرین کی طرف رجوع کیا، انھوں نے جواب میں کہا میں یہ نہیں کہتا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛بلکہ میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔ [18]

معاصر علماءکا اعتراف ترمیم

اس عہد کے بڑے بڑے علما اوراربابِ کمال انھیں ان کے زمانہ کا ممتاز فاضل سمجھتے تھے، ابن عون کہتے تھے کہ ساری دنیا میں تین آدمیوں کا مثل نہیں مل سکتا، عراق میں ابن سیرین کا حجاز میں قاسم بن محمد کا اورشام میں رجاء بن حیوۃ کا، اورپھر ابن سیرین ان تینوں میں فایق تھے [19] ابن حبان لکھتے ہیں کہ محمد بن سیرین بصرہ کے سب سے بڑے متورع فقیہ، فاضل، حافظ، متفنن اورمعبر خواب تھے۔ [20]

زہد وورع ترمیم

ان کی ذات جامع العلم والعمل تھی، ان میں جس درجہ کا علم تھا، اسی درجہ کا عمل بھی تھا، وہ اپنے عہد کے بڑے عابد ومتورع بزرگ تھے، ابن سعد لکھتے ہیں کہ وہ کثیر العلم اورمتورع تھے [21]حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ راس المتورعین تھے [22]خطیب کا بیان ہے کہ وہ متورع فقہا میں تھے، عجلی کا بیاں ہے کہ میں نے کسی کو ورع میں ان سے بڑا فقیہ اور فقہ میں ان سے زیادہ متورع نہیں دیکھا [23] فرماتے تھے کہ ورع نہایت آسان شے ہے کسی نے پوچھا وہ کیسے فرمایا جس چیز میں شک معلوم ہواس کو چھوڑدو۔ [24]

خشیت الہی اور رقتِ قلب ترمیم

طبعاً نہایت خندہ جبین اورخوش مزاج تھے، لیکن ان کا دل خشیت الہی سے لبریز تھا، یونس کا بیان ہے کہ ابن سیرین ہنس مکھ اور پر مذاق آدمی تھے لیکن گداز قلب اور خشیت الہی کا یہ حال تھا کہ جلوت میں ان کے لب ہنستے تھے، لیکن خلوت میں ان کی آنکھیں اشکبار رہتی تھیں، ہشام بن حسان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ ابن سیرین کے ساتھ مقیم تھے، دن میں انھیں ہنستا دیکھتے تھے اور رات کی تاریکی میں ان کے گریہ کی آواز سنتے تھے اور موت کے ذکر سے ان پر موت کی سی کیفیت طاری ہوجاتی تھی، زہیر الاقطع کا بیان ہے کہ ابن سیرین جب موت کا ذکر کرتے تھے، تو ان کا ہر عضو بدن جیسے مرجاتا تھا۔

صحت عقیدہ ترمیم

عقائد میں وہ سلف صالحین کے سادہ اور بے آمیز عقیدہ کے پابند تھے اس میں عقلی موشگافیوں اورجدتوں کو سخت ناپسند کرتے تھے، قدر کا مسئلہ ان کے زمانہ میں چھڑ چکا تھا، ابن سیرین کو اس سے سخت نفرت تھی، اس کو وہ سننا بھی گوارانہ کرتے تھے۔ ابن عون کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص ابن سیرین کے پاس آیا اوران سے قدر کے متعلق کچھ باتیں کیں، انھوں نے اس کے جواب میں یہ آیت تلاوت کی۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [25] اللہ تعالی عدل، احسان اور قرابت مندوں کو دینے کا حکم دیتا ہے اوربے حیائی اورناشائستہ باتوں اورزیادتی کرنے سے منع کرتا ہے تم لوگوں کو نصیحت کرتا ہے کہ اس کو یادرکھو۔

یہ آیت سنا کر انھوں نے کانوں میں انگلیاں دے لیں اور باتیں کرنے والے شخص سے کہا تم میرے پاس سے چلے جاؤ، یامیں خود اٹھ جاتا ہوں، یہ نفرت دیکھ کر وہ شخص چلا گیا اس کے جانے کے بعد ابن سیرین نے کہا کہ میرا دل میرے اختیار میں نہیں ہے، مجھے ڈر تھا کہ وہ میرے دل میں ایسا خیال نہ پھونک دے جس کے دور کرنے پر مجھے کو قدرت نہ ہو، اس لیے میرے لیے یہی مناسب تھا کہ میں اس کی باتیں ہی نہ سنوں۔ [26]

اسی طریقہ سے ایک مرتبہ آپ کے پاس ایک اعرابی آیا اورمذہب کے متعلق کچھ باتیں پوچھنے لگا، آپ اس کے جوابات دیتے رہے، کسی نے اس شخص سے کہا کہ ذرا قدر کے متعلق دریافت کرو، دیکھو کیا کہتے ہیں، اس نے پوچھا ابوبکر قدر کے بارہ میں آپ کی کیا رائے ہے انھوں نے کہا تم سے یہ کن لوگوں نے کہا ہے، پھر چند ساعت خاموش رہ کر فرمایا کسی کے اوپر شیطان کا بس نہیں ہے، جو شخص خود اس کی اطاعت کرلیتا ہے، اس کو وہ ہلاک کردیتا ہے۔ [27]

شدت احتیاط میں مالی نقصان ترمیم

تجارت ایک ایسا شغل ہے جس میں زیادہ احتیاط برتنا خسارہ میں پڑنا ہے، ابن سیرین کا شغل تجارت تھا، وہ احتیاط کے سلسلہ میں خندہ پیشانی کے ساتھ نقصان اٹھاتے تھے، لیکن مشتبہ اشیاء کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے، ایک مرتبہ انہو ں نے بیع کے طور پر غلہ خریدا، اس میں انھیں اسی ہزار کا فائدہ ہوا، لیکن ان کے دل میں شک پیدا ہو گیا کہ اس منافع میں سود کا شائبہ ہے، اس لیے پوری رقم چھوڑدی حالانکہ اس میں مطلق ربوانہ تھا۔ [28]

بعض مرتبہ اس احتیاط کی وجہ سے انھیں قید تک کی سزا اٹھانی پڑی، اس کا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ انھوں نے چالیس ہزار کا غلہ خریدا، بعد میں انھیں اس کے متعلق کچھ ایسی باتیں معلوم ہوئیں، جنہیں وہ مکروہ سمجھتے تھے، اس لیے غلہ چھوڑ دیا یا خیرات کر دیا اوراس کی قیمت باقی رہ گئی، جس کے بدلہ میں انھیں قید ہونا پڑا۔ [29] اس واقعہ کے سلسلہ میں ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ چالیس ہزار کا روغن زیتون خریدا تھا، اس کے پیسوں میں چوہا نکلا، معلوم ہوا کہ یہ چوہا کولھو میں پڑ گیا تھا یہ معلوم کرکے انھوں نے کل تیل پھینکو ادیا، لیکن اتنی بڑی رقم نہ ادا کرسکے اور اس کی سزا میں قید کی مشقت اٹھانی پڑی۔ [30]

ایک روایت یہ ہے کہ عبد اللہ بن عثمان بن ابی العاص ثقفی کی لڑکی نے ام محمد کے ہاتھ ایک لونڈی بیچی تھی، اس نے شکایت کی کہ ام محمد اس کو تکلیف پہنچاتی ہے، اس لیے لونڈی کو واپس کرو لیکن قیمت خرچ ہو چکی تھی، اس لیے سزا کاٹنی پڑی۔ [31]

جو سودا بیچتے تھے اسے گاہک کو اچھی طرح دکھا کر، خریداری پر لوگوں کو گواہ بناتے تھے، میمون بن مہران کا بیان ہے کہ میں کچھ کپڑے خریدنے کے لیے کوفہ گیا اور محمد بن سیرین کی دکان پر پہنچا جب میں بھاؤ کرکے کوئی کپڑا خریدتا تھا تو وہ مجھ سے تین مرتبہ پوچھتے تھے کہ تم اس کی خریداری پر راضی ہو، اس کے بعد بھی تشفی نہ ہوتی تھی اور وہ آدمیوں کو بُلا کر گواہ بناتے تھے، ان مراحل کے بعد کہتے اب سامان لے جاؤ، حجاجی درہم سے سودا نہیں بیچتے تھے یہ احتیاط دیکھ کر میں اپنی ضرورت کا کل سامان انہی کے یہاں سے خریدتا تھایہاں تک کہ کپڑا لپٹنے کا سامان بھی انہی کے یہاں سے لیتا تھا۔ [32] اس زمانہ میں چونکہ وزن کرنے کے پیمانوں کی مقدار گھٹتی بڑھتی رہتی تھی، اس لیے جب کسی سے مال قرض لیتے تھے تو رائج پیمانوں اوزان کے علاوہ کسی اورچیز سے تول کر مال لیتے تھے اور جس چیز سے تولتے اس کو مہر کرکے محفوظ کردیتے تھے پھر جب مال واپس کرنے لگتے تو اسی مہر کردہ شے سے تول کر واپس کرتے اور فرماتے کہ وزن گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ [33]

تجارت کے سلسلہ میں اکثر ان کے پاس کھوٹے سکے آجاتے، یہ احتیاط کی بناپر سب کو بے کار کردیتے، ابن عون کا بیان ہے کہ جب ابن سیرین کے پاس کو کھوٹا سکہ آجاتا تو وہ اس سے کوئی چیز نہ خریدتے؛چنانچہ ان کی وفات کے وقت اس قسم کے بیکار سکے پانسو کی تعداد میں جمع ہو گئے تھے۔ [34]

کسب حلال کی تلقین ترمیم

دوسروں کو بھی کسب حلال کی تلقین کرتے تھے، لوگوں سے فرمایا کرتے تھے کہ خدا کی جانب سے حلال روزی تمھارے لیے مقدر ہو چکی ہے، اسی کو تلاش کیا کرو، اگر تم حرام کے ذریعہ سے اس کو حاصل کروگے، تو بھی اس سے زیادہ نہ ملے گی جو تمھارے لیے مقدر ہو چکی ہے[35] دوسروں کو حرام مال سے بچانے کی کوشش یہاں تک کرتے کہ اگر آپ سے کوئی ناجائز مال حاصل کرنا چاہتا تو محض اس شخص کو مال حرام سے بچانے تک قسم کھالیتے۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ پر دودر ہم کا دعویٰ کیا، آپ نے انکار کیا، مدعی نے کہا قسم کھاؤ، ابن سیرین تیار ہو گئے، لوگوں نے کہا دودرہم کے لیے قسم کھاتے ہیں جواب دیا میں جان بوجھ کر اس شخص کو حرام نہیں کھلاسکتا۔ [36]

امرا سلاطین کے ہدایا سے احتراز ترمیم

غالباً اسی احتیاط کی بنا پر وہ امرا وسلاطین کے ہدایانہ قبول کرتے تھے، ایک مرتبہ عمر بن عبد العزیز جیسے بزرگ نے ان کے اورحسن بصری کے پاس کچھ بھیجا، حسن بصری نے قبول کر لیا، لیکن انھوں نے قبول نہ کیا۔ [37]

خیانت سے احتراز ترمیم

خیانت سے اس قدر بچتے تھے کہ ان جائز فوائد کو بھی جن میں خیانت کا کوئی خفیف پہلو بھی تصور کیا جا سکتا تھا، محض احتیاط کی وجہ سے چھوڑدیتے تھے، ان کے قید کے زمانہ میں اتفاق سے جیل کا محافظ ان کا مرتبہ شناس تھا، اس نے ان سے کہا کہ آپ رات کو گھر چلے جایا کیجئے اور صبح ہوتے ہوئے پھر چلے آیا کیجئے، فرمایا میں سلطانی خیانت میں تمھاری مدد نہیں کرسکتا۔ [38]

شہرت سے نفرت ترمیم

شہرت سے بہت گھبراتے تھے اوراس سے بچنے کے لیے وہ عام مجلسوں میں نہیں شریک ہوتے تھے، فرماتے کہ میں صرف شہرت کے خوف سے تمھاری مجلسوں میں نہیں آتا [39] وہ ہر ایسے امتیاز سے جس سے لوگوں کی توجہ ان کی طرف منعطف ہوتی بچتے تھے، اکثر نماز میں اپنے سے کم درجہ کے لوگوں کو امامت کے لیے بڑھادیتے، ابن عون کا بیان ہے کہ ابن ہبیرہ کے خروج کے زمانہ میں میں بھی ابن سیرین کے ساتھ نکلا، نماز کا وقت آیا تو انھوں نے مجھے نماز پڑھانے کا حکم دیا، میں نے اس کی تعمیل تو کی لیکن نماز پڑھانے کے بعد میں نے ان سے کہا کہ آپ تو فرمایا کرتے تھے کہ نماز اسی شخص کو پڑھانا چاہیے جس کو قرآن زیادہ یاد ہو، فرمایا مجھے یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ میں نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھو ں اورلوگ یہ کہیں کہ محمد لوگوں کی امامت کرتے ہیں۔ [40]

ماں کی اطاعت ترمیم

ماں کے بڑے مطیع اورخدمت گزار تھے، ان کی بہن کا بیان ہے کہ ان کی ماں حجازی تھیں، اس لیے ان کو رنگین اورنفیس کپڑوں کا بڑا شوق تھا، ابن سیرین اس شوق کا اتنا لحاظ رکھتے تھے کہ جب ان کے لیے کپڑا خریدتے تھے تو محض کپڑے کی لطافت اورنرمی کو دیکھتے، اس کی مضبوطی کا مطلق خیال نہ کرتے تھے، عید کے لیے خود اپنے ہاتھوں سے ماں کے کپڑے رنگتے، میں نے کبھی ان کو ماں کے مقابلہ میں آواز بلند کرتے نہیں سُنا، جب ماں سے باتیں کرتے، تو اس آہستگی کے ساتھ جیسے کوئی راز کی بات کہہ رہے ہیں، ابن عون کا بیان ہے کہ ابن سیرین جس وقت اپنی ماں کے سامنے ہوتے تھے تو ان کی آواز اتنی پست ہوتی تھی کہ نا واقف آدمی انھیں بیمار سمجھتا تھا۔ [41]

عجز اورفروتنی ترمیم

اپنے کو نہایت حقیر سمجھتے تھے، اپنی ذات کے لیے کسی قسم کا امتیاز پسند نہ کرتے تھے، ؛چنانچہ کسی کو اپنے ساتھ چلنے نہ دیتے تھے، اگر کوئی شخص ساتھ چلنا چاہتا تو فرماتے اگر تم بلاضرورت چل رہے ہو تو لوٹ جاؤ، فرماتے تھے کہ اگر گناہوں میں بوُ ہوتی تو کوئی شخص بو کی شدت سے میرے قریب نہیں آسکتا تھا۔ [42]

بے باکی اوربے خوفی ترمیم

لیکن اس فروتنی اورتواضع کے ساتھ بڑے بے باک اوربے خوف تھے، بڑے سے بڑے خطرہ کو وہ دھیان میں نہ لاتے تھے، ابو قلابہ کہا کرتے تھے کہ محمد کی برابر کون طاقت رکھتا ہے، وہ نیز ے کی نوک پر چڑھ جاتے تھے۔ [43]

صاف دلی ترمیم

بڑے صاف دل تھے، کبھی کسی پر رشک وحسد نہ کرتے تھے، خود فرمایا کرتے تھے کہ میں نے بھلے برے کسی پر حسد نہیں کیا۔ [44]

اجمالی رائے ترمیم

غرض وہ اخلاقی اورمذہبی محاسن کا ایک مکمل ترین نمونہ تھے، ابو عوانہ کا بیان ہے کہ ابن سیرین کو دیکھ کر خدا یاد آتا تھا۔ [45]

صحابہ اورتابعین پر ابن سیرین کا اثر ترمیم

ان کے ان محاسن کا بڑے بڑے صحابہ اورتابعین پر اتنا اثر تھا کہ وہ ان سے جنازہ کی نماز پڑھانا باعث برکت سمجھتے تھے، انس بن مالکؓ نے مرض الموت میں وصیت کی تھی کہ ابن سیرین انھیں غسل میت دیں اوران کے جنازہ کی نماز پڑھائیں، اتفاق سے انس بن مالکؓ کی وفات کے زمانہ میں وہ قید تھے، اس لیے حاکم شہر سے حصولِ اجازت کے بعد وہ لائے گئے اور غسل، تجہیز وتکفین اورنماز جنازہ کے بعد پھر قید خانہ واپس کیے گئے [46] ابن عون کا بیان ہے کہ حسن بصری کی روپوشی کے زمانہ میں ان کی ایک لڑکی کا انتقال ہو گیا، میں نے جاکر ان کو اطلاع دی مجھے خیال تھا کہ وہ مجھ ہی کو نماز جنازہ پڑھانے کا حکم دیں گے، لیکن انھوں نے ضروری ہدایات دینے کے بعد ابن سیرین سے نماز جنازہ پڑھوانے کا حکم دیا۔ [47]

وصیت ووفات ترمیم

110 میں مرض الموت میں مبتلا ہوئے، آخر عمر میں چالیس ہزار کے مقروض ہو گئے تھے، اس کی بڑی فکر تھی، آپ کے بیٹے عبد اللہ نے ادائیگی کی ذمہ داری اپنے اوپر لی، اس سعادت مندی پر ان کے لیے دعائے خیر کی، پھر وصیت فرمائی کہ تم لوگ خدا کا خوف کرتے رہنا، آپس میں صلح ومسالمت سے رہنا، اگرمومن ہونے کا دعویٰ ہے تو خدا اوررسول کی اطاعت کرنا، خدا نے تمھارے لیے ایک دین منتخب کیا ہے اسی پر مرنا، اس کا دعویٰ نہ کرنا کہ تم دین میں انصار کے بھائی اورموالی ہو، صدق اورعفاف زنا اورجھوٹ سے زیادہ بہتر اور پائدار ہیں، ان وصایا کے بعد جمعہ کے دن انتقال فرمایا اس وقت اسی سے اوپر عمر تھی۔ [48]

حلیہ اور لباس ترمیم

بالوں میں کتم اور حنا کا خضاب کرتے تھے مونچھیں بہت ہلکی کترواتے تھے، لباس اچھا پہنتے تھے۔

اولاد ترمیم

آپ کے تیس اولاد یں ہوئیں، لیکن عبد اللہ کے علاوہ کوئی زندہ نہ رہی۔

حوالہ جات ترمیم

  1. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12482780p — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. (ابن خلکان :4/453)
  3. (ابن سعد، 7، ق1 ص 140)
  4. (ابن سعد، 7، ق1 ص 140)
  5. (تہذیب التہذیب:9/215)
  6. (تہذیب الاسماء، ج اول، ق اول، ص82)
  7. (تہذیب التہذیب:9/214)
  8. (ابن سعد، ج7، ق1، ص141)
  9. (ایضاً)
  10. (ایضاً)
  11. (ایضاً:14)
  12. (تذکرۃ الحفاظ :1/68)
  13. (تہذیب التہذیب:9/414)
  14. (تہذیب التہذیب:9216)
  15. (ابن سعد، ج7، ق1، ص143)
  16. (شذرات الذہب:1/139)
  17. (ابن سعد، ج 7، ق اول، ص 142)
  18. (ابن سعد، ج7، ق اول، ص142)
  19. (تہذیب التہذیب:9/216)
  20. (ایضاً)
  21. (ابن سعد، ج7، ق 1، ص 140)
  22. (تذکرۃ الحفاظ:1/6)
  23. (تہذیب الاسماء:1/83)
  24. (ابن سعد، ج7، ق 1، ص142)
  25. (النحل:90)
  26. (ابن سعد، ج7، ق اول، ص143)
  27. (ابن سعد، ج 7، ق اول، ص 143)
  28. (ایضاً، ق اول، ص 144)
  29. (ابن سعد، ج، ق 1، ص 144)
  30. (تہذیب الاسماء، ج اول، ق 1، ص84)
  31. (ابن سعد، ج 7، ق 1، ص144)
  32. (ایضاً:146)
  33. (ایضاً)
  34. (ابن سعد، ج 7، ق اول، ص147)
  35. (ایضاً)
  36. (ابن سعد، ج 7، ق اول، ص 147)
  37. (ابن سعد، ج 7، ق اول، ص 147)
  38. (تہذیب الاسماء، ج1، ص:87)
  39. (تہذیب الاسماء، ج1، ص87)
  40. (ایضاً)
  41. (ایضاً:144)
  42. (مختصر صفوۃ :150)
  43. (ابن سعد، ج7، ق1، ص144)
  44. (ایضاً:143)
  45. (تذکرۃ الحفاظ، ج اول، ص68)
  46. (ابن خلکان :1/453)
  47. (ابن سعد، ج7ق اول، ص 148)
  48. (ابن سعد، جلد7، ق اول، ص149، 150)

حوالہ:  التقاء المسيحين   ، صفحہ 102 ،   شیخ احمد عبد ال التہاہوی