قطب مشتری (مثنوی)
قطب مشتری اردو زبان کی مشہور مثنوی ہے جو ملا وجہی نے 1609ء میں تحریر کی۔ مثنوی میں محمد قلی قطب شاہ کی مدح اور اس کے عشق کی داستان بیان کی گئی ہے۔ شاعری کے میدان میں اس مثنوی نے بہت شہرت پائی۔ اس کا شمار اردو کے کلاسیکی ادب میں ہوتا ہے۔ قطب مشتری اس خاتون کا لقب ہے۔ جس سے محمد قلی قطب کو عشق تھا۔ اسی کے نام پر مثنوی کا نام ہے۔
کردار
ترمیم- سلطان ابراہیم قطب شاہ، بادشاہ
- محمد قلی قطب شاہ، شہزادہ
- مشتری، خاتون جس سے شہزادے کو عشق ہوا۔
- زہرہ ،مشتری کی بہن
- عطارد ،مصور اور ہیرو کا رازداں
- مہتاب پری ،شہزادہ پر عاشق ہوئی تھی
- سلکھن پری ، مہتاب پری کی کنیز
- شاہ سرطان ، حلب کا بادشاہ
- اسد خان ،مریخ کا باپ اور شاہ سرطان کا وزیر اعظم
- میروان (مشتری کی دائی)
محمد قلی قطب شاہ
ترمیممحمد قلی قطب شاہ : (1580ء - 1611ء) سلطنت قطب شاہی کے پانچویں سلطان تھے۔ ان کا دار السلطنت گولکنڈہ تھا۔ انھوں نے حیدرآباد شہر کی تعمیر کرکے اسے اپنا دار السلطنت بنایا۔ شہر حیدرآباد کو ایرانی شہر اصفہان سے متاثر ہوکر بنوایا گیا۔
قطب مشتری
ترمیماردو ادب کے مورخوں کی رائے میں یہ وہی حسینہ ہے جو بھاگ متی کے نام سے مشہور ہے۔ یہ رقص و موسیقی میں بھی کمال رکھتی تھی۔ اس کے نام پر بھاگ نگر شہر بسایا گیا، بعد میں شہر کا نام حیدرآباد اور بھاگ متی کا خطاب حیدرمحل ہو گیا۔
خلاصہ
ترمیممحمد قلی قطب شاہ، زمانہ شہزادگی ہی میں قطب مشتری پر فریفتہ ہو گیا اور چھپ چھپ کر اس سے ملاقاتیں کیا کرتا تھا۔ بادشاہ (عبد اللہ قطب شاہ) نے پہلے تو اسے باز رکھنے کی کوشش کی مگر ایک بار محبوبہ سے ملاقات کے لیے شہزادے نے طوفانی دریا میں گھوڑا ڈال دیا تو باپ کی محبت جوش میں آئی اس نے دریائے موسیٰ پر پل بنوا دیا، تاکہ شہزادہ بھاگ متی سے ملاقات کر سکے۔ تخت شاہی پر بیٹھنے کے بعد محمد قلی قطب شاہ نے بھاگ متی کو حرم میں داخل کر لیا۔ اور قطب مشتری کا خطاب دیا۔
حوالہ جات
ترمیم- تاریخ زبان و ادب اردو، پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی، مکتبہ دانیال، لاہور، صفحہ 84-85