قمر راجوروی
مولانامہر الدین قمر راجوروی (19 جولائی 1901ء - 7 اگست 1972ء)، راجوری ریاست جموں وکشمیر کے ایک درد مند مصلح، ایک عظیم شاعر و حریت پسند تھے۔ ڈوگرہ عہدکے راجوری کی تاریخ ادھوری رہے گی اگر اس میں راجوری کے اس عظیم حریت پسند، شعلہ بیاں مقرر، آتش نوا شاعر اور عالم دین کا تذکرہ نہ آئے جسے خطۂ پیرپنچال اور کنٹرول لائن کے آر پار لوگ مولانا مہر الدین قمر راجوروی کے نام سے جانتے پہچانتے ہیں، جس کی انقلابی شاعری، آتش بیانی، جرأت و بیباکی اور راہِ حق میں صبر و استقامت نے 1930ء اور 1940ء کے دورانیہ میں خطۂ پیرپنچال میں ڈوگرہ اقتدار کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔[1]
قمر راجوروی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | 19 جولائی 1901ء |
تاریخ وفات | 17 اگست 1972ء (71 سال) |
شہریت | پاکستان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ پنجاب |
پیشہ | عالم |
درستی - ترمیم |
مولانا مہر الدین قمر راجوروی
ترمیمراجوری کا ایک درد مند مصلح، ایک عظیم شاعر و حریت پسند مرحوم شاد عظیم آبادی نے کہا تھا کہ ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسووہ خواب ہیں ہم مولانا مرحوم مہرالدین قمر راجوروی پر یہ شعر پوری طرح صادق آتا ہے چونکہ اِس عظیم مردِ حُر کا جنم جس قوم اور خطہ میں ہوا افسوس کہ وہاں کسی نے اُس کے قدر و قیمت اور شخصیت کو نہیں پہچانا، اس پورے خطۂ پیر پنچال کے لوگوں کی یہ بڑی بد قسمتی ہے کہ انھوں نے کبھی بھی اپنے اِس خطہ کی تاریخ، یہاں کی اہم شخصیات اور اُن کے سنہرے کارناموں کو محفوظ کرنے کی کوشش نہیں کی، کسی قوم اور خطہ کی پہچان اس کی اہم شخصیات، اُن کی ملی خدمات اور تاریخی کارناموں سے ہوتی ہے جو اس قوم کا ورثہ ہوتا ہے، جس کے ذریعہ آنے والی نسلوں کو کار زارِ حیات میں رہنما خطوط فراہم ہوتے ہیں، جو قوم اپنے بزرگوں کی خدمات، عملی و تحریکی ورثے کا تحفظ نہ کر سکے وہ کچھ وقفے کے بعد کار زارِ حیات کے منظر نامے سے حرف غلط کی طرح ہمیشہ کے لیے مٹ جاتی ہے۔
خاندانی پس منظر و پیدائش
ترمیممولانا مہرالدین قمر راجوروی کی ایک خود نوشت تحریر کے مطابق جو انھوں نے 31؍ مئی 1952 کو نواں شہر ایبٹ آباد سے ہفت روزہ پرواز گوجرانوالا کے ایڈیٹر جناب عارف صاحب کی فرمائش پر خصوصی کشمیر نمبر کے لیے تحریر کی تھی کے مطابق اُن کی پیدائش 19؍ جولائی 1901 کو راجوری اوجھان کے موہڑہ مرگاں میں ہوئی تھی جو راجوری شہر سے شمال مشرق کی جانب پانچ میل کے فاصلے پر ایک بلند و خوبصورت گرجن نامی سر سبز و شاداب پہاڑی کے دامن میں واقع ہے جو اُس زمانے میں شاہ بلوط کے گھنے جنگلات اور انواع و اقسام کے قدرتی مناظر سے مالا مال تھی، گرجن پہاڑی کے اِرد گرد کا یہ سارا ڈھلوان خوبصورت پہاڑی علاقہ مولانا مہرالدین قمر کے خاندان کی ملکیت تھا جو صدیوں سے اس پہاڑی پر آباد چلا آ رہا تھا،ا س کی بلندی سے خطۂ پیرپنچال کے راجوری کا یہ سارا خطہ حدودِ ریاسی و پونچھ تک پیر پنچال کی برفانی دروں کے دامن میں ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے ماں کی گود میں سویا ہوا خوبصورت بچہ۔ مرگ یا مرگاں مقامی بولیوں میں چرا گاہ یا بلند خوبصورت قدرتی مناظر سے مالا مال سرسبز و شاداب جگہ کے لیے بولا جاتا ہے۔ چنانچہ قدیم الایام سے یہ سارا ڈھلوان علاقہ مولانا مہرالدین قمر راجوروی کے خاندان کی چرا گاہ کے طور پر استعمال ہوتا آیا ہے اور ان کی رہائش اس کے دامن اوجھان کے میدانی علاقے میں رہتی تھی۔ مرگاں کا یہ علاقہ گوجروں کی روایت کے مطابق بلند خوبصورت اور پر فضا و گھاس چارے کی وافر مقدار کے باعث مولانا مہرالدین قمر راجوروی کی اوانہ برادری کی مستقل رہائش گاہ بن گیا اور یہیں انھوں نے نسلاً بعد نسل بسیرا کرنا شروع کر دیا، مولانا مہرالدین قمر کے والد کا نام چودھری جعفر علی اوانہ تھا جو اپنی برادری میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے،
تعلیم
ترمیممولانا مہرالدین نے اپنے والد کی ہدایت پر اس خطے کے عظیم داعیٔ دین اورر مصلح مولانا محمد عثمان ترالوی کی درسگاہ واقع سانو کوٹ میں داخلہ لے کر مدارس عربیہ کے رائج نصاب کے مطابق قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم جلالین شریف تک حاصل کی، اس کے بعد اپنے استاذ مولانا عثمان مرحوم کی ہدایت پر لاہور چلے گئے جہاں انھوں نے مدرسہ جامعہ اشرفیہ میں داخلہ لے کر اپنی بقیہ تعلیم مکمل کی اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے منشی فاضل کی ڈگری بھی حاصل کی۔
تحریکی کردار
ترمیممولانا مہرالدین قمر راجوروی ایک نہایت ذہین سریع الحس اور حساس و متحرک قسم کے آدمی تھے اور شہر لاہور اُن دنوں متحدہ ہندوستان میں علم و ادب اور سیاست و صحافت کا گہوارہ تھا اس لیے مولانا مہرالدین قمر راجوروی کو یہاں علم و ادب کی عظیم ہستیوں سے ملنے اور استفادے کا موقع دستیاب ہوا جن میں علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان، آغا شورش کاشمیری، منشی محمد الدین فوق، مفسر قرآن مولانا احمد علی لاہوری اور علامہ تاجور نجیب آبادی جیسی آفتاب علم و ادب کی شخصیات شامل تھیں۔ بیسویں صدی کے اوائل کا یہ وہ دور تھا جس میں ایک طرف بر صغیر میں انگریزی سامراج کے خلاف تحریک آزادی منظم ہو چکی تھی تو دوسری طرف شمالی ہندوستان میں انگریزوں کی خفیہ تحریک پر آریہ سماجی تحریک بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہی تھی جس کا مقصد مسلمانوں کو شُد (مرتد) کرنا تھا۔ چنانچہ راجوری کے اس ہونہار اور ذہین نوجوان و شعلہ بیان مقرر نے پہلے انجمن خدام الصوفیہ اور بعد میں جمیعت علما ہند کے ساتھ منسلک ہو کر بحیثیت مبلغ اسلام سارے شمالی ہندوستان میں گھوم پھر کر اسلام کی تبلیغ اور آریہ سماجی گمراہ کن پروپگنڈے کی تردید اور اپنی حاضر جوابی اور علمی قابلیت کی بنا پر ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ارتداد کی اس بڑھتی ہوئی تحریک کو روکنے میں دیگر علما کے ساتھ اہم رول ادا کیا، چنانچہ 1940کے عشرے میں جموں کی ایک نوجوان خاتون شانتا بھارتی کے ذریعے سرکاری سرپرستی میں جب یہ تحریک راجوری وارد ہوئی اور بڑے بڑے جلسے کر کے اس نے اسلام کے خلاف زبردست زہرافشانی شروع کر دی تو اس وقت اس کا توڑ کرنے کے لیے چودھری دیوان علی اور مرزا احمد حسین ذیلدار اور حاجی نوران شاہ کی تحریک پر پنجاب سے مولانا لال حسین چترویدی کو منگوایا گیا تو مولانا مہرالدین قمر راجوروی نے ان کے ہمراہ اس خطے میں فتنہ ارتداد کی اس تحریک کا بڑھ چڑھ کر مقابلہ کیا جس کی وجہ سے یہ اسلام دشمن تحریک اس علاقے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
خدمات
ترمیممولانا مہرالدین قمر راجوروی حضرت میاں عبید اللہ لاروی کے مرید خاص اور حضرت میاں نظام الدین لاروی کے معتمد و سیاسی مشیر اوراس خاندان کے سخت معتقد اور ایک راسخ العقیدہ عالم دین ہونے کے علاوہ انتہائی ذہین حاضر جواب، شعلہ بیان مقرر، پنجابی و گوجری کے آتش نوا شاعر، پختہ کار سیاسی لیڈر، حریت پسند، غیور قومی خدمت گار دانشور کے علاوہ راجوری خطہ میں دوگرہ سامراج مقامی ظالم ذیلداروں، جاگیرداروں اور سود خور بنیوں اور مہاجنوں کے زبردست نقاد و غریب پرور تھے، جملہ بازی، حاضر جوابی، لطیفہ گوئی، مباحثے، شعلہ بیانی اور جرأت و بیباکی و حق گوئی میں اس عہدے میں اس سارے خطۂ پیر پنچال میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اپنی مسلم قوم کی جہالت و زبوں حالی اور اس خطہ کے سود خور مہاجنوں اور جاگیرداروں کے ہاتھوں ان کے استحصال کے خلاف وہ ایک ننگی تلوار تھے، انھوں نے اس خطہ کے مظلوم مسلمانوں کو ظلم و جبر اور استحصال و بیگار کے خلاف منظم کرنے، انھیں سہارا دینے اور بیدار کرنے میں اہم رول ادا کیا، انھوں نے ڈوگرہ سامراج اور مقامی استحصالی عناصر سمیت تمام غاصب قوتوں کو بیک وقت للکارا، جلسے جلوس اور قراردادیں پاس کر کے پنجاب کے اخبارات کو بھیجیں، کتابچے اور نظمیں لکھ کر بڑے پیمانے پر ان کی تشہیر کی اور راجوری سے باہر پنجاب کے مسلمانوں و مسلم زعماء کو اس خطے کے حالات و واقعات سے باخبر کیا۔ راجوری کے زمیندار اور سود خور مہاجن ان کی اس دور کی ایک اہم تاریخی و دستاویزی کتاب ہے جس میں انھوں نے اس زمانے میں راجوری خطہ میں رائج سودی نظام کے متعلق چونکا دینے والے حقائق و واقعات کو منظر عام پر لایا ہے۔ اس کتاب کے ذریعے اس زمانے کی اس علاقے میں رائج سودی نظام، جبر و بیگار اور عوامی زندگی کے حالات و واقعات او رخد و خال کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے، اس سودی نظام کے باعث یہاں کا غیر زراعت پیشہ مہاجن، بنیا ایک لاکھ اسی ہزار کنال بہترین زرعی آراضیوں کا مالک اور اوّل درجہ زراعت پیشہ مسلمان اقوام ان کے غلام و کاشتکار بن گئے تھے جن کی حالت اس زمانے میں جانوروں سے بھی بدتر تھی۔
مسلم کانفرنس اور گجر جاٹ کانفرنس
ترمیممولانا مہرالدین قمر راجوروی، راجوری میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے اساسی ممبر و اہم لیڈر تھے اگر چہ وہ کچھ عرصہ کے لیے گوجر جاٹ کانفرنس کے ساتھ بھی وابستہ رہے اور راجوری خطہ میں اس کے بڑے بڑے اجلاس کرانے میں انکا اہم رول رہا لیکن وہ بنیادی اور نظریاتی طور پر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے ساتھ وابستہ اور دو قومی نظریہ کے زبردست پیروکار تھے، راجوری میں بھی اور راجوری سے مہاجرت کے بعد کنٹرول لائن کے اُس پار جا کر بھی اپنے دیگر ہم عصروں مولانا محمد اسمٰعیل ذبیح اور مولانا عبد العزیز راجوروی کے ساتھ اسی تنظیم کے ساتھ وابستہ رہ کر کشمیر کاز کے لیے سرگرم عمل رہے، سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ انھوں نے اپنی شاعری اور نثری صلاحیتوں کو بھی کشمیر کاز کی خاطر زندگی کی آخری سانسوں تک وقف کیے رکھا، 1933کے بعد ریاست میں تنظیم سازی اور تحریر و تقریر کی پابندی اٹھنے اور سیاسی سرگرمیوں کے احیاء کے بعد مولانا مہرالدین قمر راجوروی نے اس خطہ کی سیاست اور ڈوگرہ شاہی کے خلاف اٹھنے والی تحریک میں چودھری دیوان علی، مرزا محمد حسین، حکیم منصو علی، چودھری محمدسلطان فتحپوری، چودھری سخی محمد اوانہ، چودھری نعمت اللہ ملک د رہالوی اور اپنے دیگر ہم عصر رفقا کے ساتھ اہم رول ادا کیا، وہ ایک فصیح و بلیغ شعلہ بیان مقرر تھے، مرحوم چودھری غلام عباس اور شیخ عبد العزیز علائی کہا کرتے تھے کہ ڈوگرہ سامراج کے خلاف اور آزادی کی تحریک کو راجوری خطہ میں عوامی مقبولیت عطا کرنے میں مولانا مہر الدین قمر راجوروی کی شاعری اور شعلہ بیانی نے اہم اور انقلابی رُخ عطا کر دیا تھا، مظلوموں، دبے پسے طبقوں کی ہمدردی اور حریت پسندی ان کے رگ و ریشے میں خون کی طرح دوڑتی تھی،
راجوری کے منظر میں قمر راجوری کا کردار
ترمیماکتوبر اور نومبر 1947میں راجوری کے محاذِ جنگ پر تحریک آزادی کو منظم کرنے او راجوری خطہ کو ڈوگرہ سامراج کے تسلط سے آزاد کرانے میں ان کا کلیدی رول تھا، اُس دور کی تاریخ میں ان کا شمار راجوری کے اہم زعماء میں ہوتا ہے۔ وہ 14؍ نومبر 1947سے 12؍ اپریل 1948تک مرزا محمد حسین ذیلدار کی قیادت میں قائم ہونے والی راجوری کی انقلابی وار کائونسل میں سپلائی آفیسر بھی رہے، اس دوران انھوں نے مرزا فقیر محمد راجوروی ایڈووکیٹ نرسنگھداس اور کرشن کمار گپتا اور دیگر زعماء کے ساتھ اس منصب پر اہم خدمات انجام دیں اور گردھن پناہ گزیں کیمپ میں راجوری کی ہندو برادری کو ضروریات زندگی فراہم کرنے کے علاوہ مجاہد قافلوں کو بدھل اور مہور وغیرہ کے علاقوں کو فتح کرنے میں بھی پورا تعاون اور سامانِ حرب و ضرب فراہم کرتے رہے،
ہجرت اور اعزازات
ترمیمان کے اسی سرگرم رول کے باعث آزاد حکومت کی انتظامیہ اور اس کے عسکری آفیسروں نے انھیں توصیفی اسناد سے نوازا تھا جبکہ دوسری جانب انڈین آرمی نے ان کا مکان اور مکان میں موجود قیمتی کتب خانہ نذرِ آتش کر دیا، مولانا مہرالدین قمر اجوروی 13؍ نومبر 1948کو سقوط راجوری کے بعد بہ امر مجبوری کنٹرول لائن کے اُس پار ہجرت کرنے کے بعد نواں شہر ایبٹ آباد میں قیام پزیر ہو گئے تھے اور اسی سرزمین پر انھوں نے زندگی کی آخری سانس لی۔ البتہ ان کے خاندان کے کوئی پچاس کے قریب لوگوں کو انڈین آرمی اور راشٹریہ سیوک سنگ (RSS) کے آدمیوں نے نہایت بے دردی وسفاکیت کے ساتھ شہید کر دیا تھا جن میں ان کے حقیقی چاچے چودھری غلام محمد اوانہ، چودھری عطا محمد اوانہ، چودھری صلاح محمد اوانہ کو ریاسی کے نواح موضع بغلی میں شہید کر کے اُن کے دھڑ گردنوں سے جدا کر کے ان کی پیشانیوں پر لکھ دیا تھا کہ انھیں ہم نے پاکستان بھیج دیا ہے، جبکہ ان کے قریبی رشتہ داروں میں سخی محمد اوانہ، غلام دین اوانہ، محمد دین اوانہ، دین محمد اوانہ، چودھری لعل دین اور چودھری فتح محمد اوانہ وغیرہ راجوری کے مختلف محازوں پر اسلام اور آزادی کی خاطر لڑتے ہوئے شہید ہو گئے، ان کے بھتیجے چودھری میر حسین کو کیمری گلی نڈیاں اور برادرِ نسبتی چودھری فتح محمد گورسی کو تھنہ منڈی علاقے میں پیٹرول ڈال کر آگ لگا دی تھی، اس طرح اس خاندان نے اسلام اور آزادی کے نام پر قربانیوں کا قیمتی نذرانہ پیش کیا۔
وطن کی یاد
ترمیممولانا مہرالدین قمر راجوروی کو اپنے چھوٹے ہوئے وطن عزیز راجوری،اس کے باشندوں۔ گلی کوچوں، شہروں، دیہاتوں، پیرپنچال کے خوبصورت برفانی پہاڑوں، شنگروں و ڈھوکوں، و بہکوں اور ندی نالوں و سبزہ زاروں سے کتنی محبت تھی اس کا اندازہ ان کی گوجری و پنجابی کی ہجریہ و فراقیہ شاعری سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انھوں نے اپنے وطن کے قریہ قریہ اور چپہ چپہ کا تذکرہ خونی آنسوئوں کے ساتھ کیا ہے، انھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی کہ جب بھی ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا تصفیہ ہو اور خونی لکیر کنٹرول لائن کے آرپار آزادانہ نقل و حرکت بحال ہو تو میری بچی کھچی ہڈیوں کو میری قبر سے نکال کر میری جنم بھومی راجوری کی گرجن پہاڑی کے دامن میں لے جا کر دفن کرنا، تاکہ میری روح کو وطن کی مٹی کے لمس سے سکون دستیاب ہوتا رہے۔ جلدی لے چل وطناں اندر ہجراں جان ستائی مینوں یاد وطن دے باہجو گھڑی نہ گذرے کائی نال آزادی، نال خیریت وطنیں لے چل مینوں رحم کرم دے مالک مولیٰ سب توفیقاں تینوں راجوری سے مہاجرت کے بعد کنٹرول لائن کے اُس پار جا کر وہ ساری زندگی اپنے چھوٹے ہوئے وطن کے در و دیوار اور اہلِ وطن کے لیے ماہی بے آب کی طرح تڑپتے، بلکتے اور اپنی گوجری و پنجابی شاعری کے ذریعے خود بھی خونِ جگر کے آنسو روتے اور اہل وطن کو بھی رُلاتے رہے،
قلمی خدمات
ترمیموہ گوجری اور پہاڑی دونوں زبانوں کے قادرالکلام شاعر و نثر نگار تھے، اس کے علاوہ اُردو زبان و نثر پر بھی انھیں عبور حاصل تھا، اُردو زبان میں وہ چھوٹی بڑی کل 13؍ کتابوں کے مصنف ہیں، اپنی اردو نثر میں کمال مہارت کے ساتھ عربی و فارسی کے جملے و اشعار موزوں کرنے میں انھیں خصوصی ملکہ تھا، قدرت نے انھیں اپنی گوجری و پنجابی شاعری میں منظر کشی، تجزیہ نگاری اور ہجر و فراق کے درد کے اظہار کی بے پناہ صلاحیت و سلیقہ عطا فرمایا تھا جس میں حوادث و انقلاباتِ زمانہ، اپنے وطن و پیاروں کی جدائی و فراق کے تلخ تجربے نے ان کے شعری تخیل کو ایک نئی پرواز اور وسعت عطا کر دی تھی اور بقول مرحوم ماہرالقادری : جب غم کی لطافت بڑھتی ہے، جب درد گوارا ہوتا ہے اشکوں میں تبسم ڈھلتا ہے، فریاد میں نغمہ ہوتا ہے فرقت کی بھیانک راتوں میں کیا طرفۂ تماشا ہوتا ہے شمعیں بھی فروزاں رہتی ہیں اور گھر میں اندھیرا ہوتا ہے وہ اپنی ایک پہاڑی نظم میں وطن کی ہوا کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ تو میرے لیے کستوری سے بھی افضل ہے، تو میری قاصد بن کرجا اور وطن کے احوال آ کر مجھے بتا کہ میرے وطن کے لوگ کس حال میں رہتے ہیں، ان کی صبح و شام اور لیل و نہار کیسی گزرتی ہیں اور میرے وطن کے شہری و دیہاتی گرمی و سردی اورموسم خزاں میں کس طرح کی زندگی بسر کرتے ہیں؟ اے وطن دی واء پیاری تو واہنگوں کستوری جھلیں آن بدلیاں اندر بن کر جلوہ نوری وطناں دے احوال سنا کجھ بن کر قاصد میرا کس حالت وِچ وطن میرے دا آج کل شام سویرا جذبہ شوق محبت والا دِل وِچ لے کر جانویں خیر خریت وطناں والی مینوں آن سنانویں کس حالت وِچ وطناں والے سارے لوگ عوامی کس حالت وِچ مال منالوں کیسا دور غلامی کس حالت وِچ بھائی میرے دوست سنگی ساتھی شہراں والے کس حالت وِچ نالے لوگ دیہاتی سردی گرمی موسم کیسے روڑے تے برساتاں گلشن باغ بہار پھلاں دی اور فروٹ سوغاتاں ایبٹ آباد اندر خوش لوکی باغ لگاندے رہندے اسیں فراق تیرے وِچ بیٹھے کاگ اُڈاندے رہندے خوشیاں موجاں اندر لوکی عیش مناندے رہندے اسیں فراق تیرے وِچ بیٹھے خون سکاندے رہندے کنڈ کراں جے وطن تیرے وَل ہے بے ادبی بھاری کر کے منہ تیرے وطناں وَل ہتھ گھماندے رہندے یاد تیری بن پلک نہ گذرے کدے نہ دِلوں بھلانواں واہنگ وظیفے نام تیرے دا درد کماندے رہندے یاراں تے دِلداراں اگے نال محبت بھاری قصے محفل پاک تیری دے اسیں سناندے رہندے
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ شمسی، امیر محمد، ڈوگرہ عہد کا راجوری