حاجی بابا سید نوران شاہ

حضرت حاجی بابا سید نوران شاہ نقشبندی مجددیؒ (1286ھ؍1869ء۔۔۔27 جمادی الثانی 1386ھ؍13 اکتوبر 1966ء) سلسلہ نقشبندیہ کی مجددیہ شاخ سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ خواجہ نظام الدین کیانوی کے خلیفہ حضرت عبید اللہ لارویؒ (1863ء۔۔۔1926ء) کے خلیفۂ اعظم ہیں۔ حاجی بابا نوران شاہؒ نے اپنے مشائخ طریقت کی پیروی میں تبلیغ دین اور اصلاح معاشرہ میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ جس طرح تحریک پاکستان میں کئی صوفیا نے اپنی تمام تر خدمات پیش کیں اسی طرح حاجی باباؒ نے تحریک آزادئ کشمیر میں ایسا ہی کردار ادا کیا۔ اس باب میں آپ کا کردار تاریخ کا زریں باب ہے۔ اس مضمون میں آپ کی حیات و خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ تمام معلومات باحوالہ ہیں۔ مزید اس فیس بک پیج پر بھی آپ سے متعلق کئی کتب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے: www.facebook.com/HajiBabaNooranShah

فائل:3.1سید نوران شاہ.jpg
حضرت حاجی بابا سید نوران شاہ کاظمی نقشبندی مجددی راجوروی
فائل:Haji Baba and Larvi sb.png
دائیں سے بائیں: 1۔ حضرت میاں نظام الدین لاروی (سجادہ نشین بابانگری لار شریف وانگت، کشمیر، 2۔ حضرت حاجی بابا سید نوران شاہ کاظمی نقشبندی مجددی، 3۔ حضرت میاں محمد حسین نقشبندی (گول گلاب گڑھ، ریاسی، جموں و کشمیر، خلیفہ حضرت حاجی بابا)
فائل:Haji baba and Fida Rajourvi.jpg
حضرت حاجی بابا سید نوران شاہؒ اپنے مریدین و برادری کے افراد کے ساتھ، سید فدا حسین راجوروی اور مسلم شاہ مدنی بھی موجود ہیں۔
فائل:4دربار نورپورسیدا.jpg
مزار پر انوار حضرت حاجی بابا سید نوران شاہ
فائل:عرس مبارک.jpg
حاجی بابا کے عرس مبارک 2016ء کے موقع پر لی گئی تصویر

تمہید

ترمیم

وادئ کشمیر اپنے بے مثال حسن اور دلکشا مناظر کی وجہ سے ہمیشہ فطرت سے محبت کرنے والوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ شاداب چوٹیوں اور بہتے جھرنوں کی اس حسین وادی کو کئی علما و صوفیا نے صدیوں پہلے تبلیغ دین کا مرکز بنایا۔ نگارستانِ کشمیر کے مصنف، قاضی ظہور الحسن کے مطابق کشمیر میں اسلام کے اولین قدم لگ بھگ نویں صدی عیسوی بمطابق تیسری، چوتھی صدی ہجری میں براستہ چین و تبت پڑ چکے تھے(1)،[1]قرائن کے مطابق ایسا ہونا نا ممکن نہیں(2)[2] لیکن کشمیر میں مسلمان خاندانوں کی موجودگی کی پہلی نقلی شہادت گیارہویں صدی عیسوی بمطابق پانچویں،چھٹی صدی ہجری کی ملتی ہے جس کا ذکر بارہویں صدی عیسوی کے ہندو مورخ کلہانہ کی تاریخ راج ترنگنی میں کئی مقامات پر ملتا ہے۔(3)[3] البتہ کشمیر کے پہلے صوفی بزرگ جن کی تبلیغ سے لوگوں کی کثیر تعداد اسلام کی طرف راغب ہوئی اور کشمیر یوں میں ذوقِ اسلام پروان چڑھا صاحبِ تاریخِ اعظمی کے مطابق، حضرت شرف الدین بلبل شاہ کشمیری(م727ھ) ہیں جو ترکستان سے مع ایک ہزار عقیدتمندوں کے کشمیر میں وارد ہوئے۔ ان کے ہاتھ پر اس وقت کے ہندو راجا رنچن دیو ہی نے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ ایک کثیر تعداد حلقہ اسلام میں شامل ہوئی۔(4)[4] دوسرے بڑے صوفی بزرگ جن کی تبلیغی و تعلیمی مساعی کا، اس خطے کے اسلامی تشخص کی تشکیل میں گرانقدر حصہ رہا ہے، حضرت شاہِ ہمدان سید امیر کبیر علی ہمدانی (714ھ۔۔۔786ھ) کی شخصیت ہے۔ جو کئی بار صرف اسی مقصد کے لیے کشمیر تشریف لائے اور سینکڑوں علما کو یہاں بسانے کے ساتھ ساتھ سرینگر میں اپنی خانقاہ بھی قائم کی۔(5) [5] خانقاہ معلی کے نام سے قائم کردہ علم و عرفان کا یہ ادارہ سرینگر کشمیر میں آج بھی مخلوق خدا کے لیے مشعلِ ہدایت ہے۔ آپ کے ورود کے بعد اس خطے میں اسلام نہ صرف بہت تیزی سے پھیلنا شروع ہوا بلکہ یہاں اولیاء و علما کی آمد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ بعد ازاں کشمیر میں متعدد صوفی سلاسل بشمول سلسلہ نقشبندیہ کی خانقاہیں بھی معرضِ وجود میں آئیں جنھوں نے فیضِ مجدد کو اس جنت نظیر وادی میں عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی سلسلۂ مشائخ میں ایک نام خواجہ نظام الدین کیانویؒ (م1896ء) کا بھی ہے جودو واسطوں سے نقشبندیہ مجددیہ کے نامور بزرگ خواجہ نور محمد چوراہیؒ (1783ء۔1869ء) سے متصل ہیں۔ خواجہ نظام الدین کی قائم کردہ خانقاہ کیاں شریف کہلاتی ہے یہ وادئ نیلم آزاد کشمیر کی معروف خانقاہ ہے جس کا فیض موہڑہ شریف، گھمکول شریف، نیریاں شریف، لار شریف، پناگ شریف، باؤلی شریف کے علاوہ برصغیر کے کئی علاقوں میں آج بھی جاری ہے۔ حضرت حاجی بابا سید نوران شاہ نقشبندی مجددیؒ (1286ھ؍1869ء۔۔۔27 جمادی الثانی 1386ھ؍13 اکتوبر 1966ء) سلسلہ نقشبندیہ کی اسی شاخ سے تعلق رکھتے ہیں۔(6)[6] آپ خواجہ نظام الدین کیانویؒ کے خلیفہ حضرت عبید اللہ لارویؒ (1863ء۔۔۔1926ء) کے خلیفۂ اعظم ہیں۔(7)[7] حاجی بابا نوران شاہؒ نے اپنے مشائخ طریقت کی پیروی میں تبلیغ دین اور اصلاح معاشرہ میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ جس طرح تحریک پاکستان میں کئی صوفیا نے اپنی تمام تر خدمات پیش کیں اسی طرح حاجی باباؒ نے تحریک آزادئ کشمیر میں ایسا ہی کردار ادا کیا۔ اس باب میں آپ کا کردار تاریخ کا زریں باب ہے۔ اس مضمون میں آپ کی حیات و خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

خاندانی پس منظر

ترمیم
فائل:Shajra e nasab.jpg
حاجی بابا کے شجرہ نسب اور آپ کے خاندان کاظمیہ پر لکھی گئی ایک غیر مطبوعہ کتاب

حاجی بابا سید نوران شاہ مجددیؒ کا شجرہ نسب 30 واسطوں سے حضرت امام موسیٰ کاظم سے جا ملتا ہے۔(8)[8] ساداتِ کاظمیہ میں سے حضرت ابو القاسم حسین المشہدی پہلے شخص تھے جو ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں مشہد مقدس سے واردِ سندھ ہوئے۔(9) [9] سید ابو القاسم حسین المشہدی کی اولاد میں سے سید شاہ عبد الکریم (م924) تبلیغ اسلام کی غرض سے 900ہجری میں سید کسراں تحصیل گوجرخان میں تشریف لے آئے۔(10) [10] سید کسراں کا گاؤں پاکستان کے ساداتِ کاظمیہ کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ ہند و پاک کے اکثر مشہدی سادات کے آبا و اجداد اسی گاؤں سے ہجرت کر کے ہندوستان کے مختلف حصوں میں سکونت گزیں ہوئے۔ حضرت شاہ عبد الطیف المعروف بری امامؒ (1026ھ؍1617ء۔۔۔1117ھ؍1706ء) اور حضرت شاہ چن چراغ ؒ (راولپنڈی، م1115ھ؍1703ء) ساداتِ کاظمیہ کی اسی شاخ کے چشم و چراغ ہیں۔ حاجی بابا کا شجرہ نسب گیارہویں پشت میں حضرت بری امام کے شجرۂ نسب سے جا ملتا ہے آپ حسینیال مشھدی ہیں اس خاندان کا تفصیلی ذکر سید قمر عباس ہمدانی اعرجی نے کتاب مدرک الطالب فی نسب آل ابی طالب میں کیا۔(11)[11] آپ کے ساداتِ کاظمیہ کی اس شاخ میں سے ہونے کی تحقیق تاریخِ اقوامِ پونچھ مؤلفہ محمد الدین فوق میں بھی موجود ہے۔ (12)[12] ساداتِ کاظمیہ کی اس لڑی کے چند بزرگ واردِ کشمیر ہوئے۔ ان میں سید شاہ جنید کاظمی بھی تھے جو سترہویں صدی عیسوی کے وسط میں مظفر آباد جا بسے۔ وہاں اس وقت بمبہ خاندان کی خود مختار حکومت تھی۔ سلطان محمد مظفر خان اول (بانئ مظفرآباد) نے آپ کے زہد و تقویٰ سے متاثر ہو کر شاہی خاندان کی ایک خاتون آپ کے عقدِ زوجیت میں دے دی اور مظفرآباد کے تین گاؤں جاگیر کے طور پر بھی دیے۔(13)[13] سید شاہ جنید کے پڑپوتے اور حاجی بابا سید نوران شاہؒ کے پردادا سید حبیب شاہ کاظمی مظفرآباد سے ترکِ سکونت کر کے وادئ کاغان اور گلگت کے سرحدی مقام کوہستان میں مقیم ہو گئے۔ کچھ عرصے بعد مظفر آباد واپسی کا قصد کیا اور بالاکوٹ کے مقام پر پہنچے تو اس علاقے کے خود مختار حکمران مقدم کالو سے ملاقات ہوئی۔ اس نے آپ سے درخواست کی آپ بالاکوٹ میں ہی مستقل قیام فرمائیں اور ہماری مذہبی رہنمائی قبول کریں۔(14) [14] سید حبیب شاہ کاظمی نے اس کی درخواست قبول کرتے ہوئے بالاکوٹ میں ہی مستقل قیام اختیار کیا۔ مقدم کالو نے بھی آپ کو ہدیے کے طور پر بالاکوٹ کے مضافات کے تین گاؤں عطا کیے اور آپ کے خواہش پر تبلیغ اسلام کے لیے ایک مسجد تعمیر کروائی۔ اسی مسجدکے قریب اب آپ کا مزار ہے۔ سید حبیب شاہ کاظمی کے فرزند سید محمد شاہ نہایت بہادر و قوی واقع ہوئے تھے۔ جہاد کی غرض سے سید احمد بریلوی شہید (6 صفر 1201ھ؍29 نومبر 1786ء۔۔۔24ذیقعدہ 1246ھ؍6 مئی 1831ء) کی بیعت کی اور تحریکِ مجاہدین میں شمولیت اختیار کی۔ بالاکوٹ میں جب سکھوں نے سید احمد شہید کے قافلے پر حملہ کیا تو آپ نے مضبوط دفاع کا فریضہ سر انجام دیا۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے اس معرکے میں 70 سکھوں کو واصل جہنم کیا۔(15)[15]

ولادت

ترمیم

سید محمد شاہ کاظمی کے فرزند اور حاجی بابا سید نوران شاہ کے والدِ ماجد سید مرید علی شاہ سلسلہ قادریہ سے منسوب، صاحبِ طریقت بزرگ تھے اور ذکرِ الٰہی میں درجۂ کمال کے حامل تھے۔(16)[16] آپ کی شادی سیدہ بالا بی بنت سید مقبول شاہ کاظمی سے ہوئی۔ جو آپ ہی کی طرح عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں اور یادِخدا میں ہمہ دم مشغول رہتی تھیں۔(17)[17] ان پاکباز اور پرہیزگار والدین کے آنگن میں جوسچ سیداں بالاکوٹ کے مقام پر حضرت سید نوران شاہؒ نے آنکھ کھولی۔ بالاکوٹ کے حکمران مقدم کالو نے سید حبیب شاہ کاظمی کو جو تین گاؤں تحفے کے طور پر دیے تھے ان میں سے ایک جوسچ بھی تھا جو بعد ازاں جوسچ سیداں کہلایا۔ کا رہائے نمایاں انجام دینے والی شخصیات میں سے اکثر کی تاریخ پیدائش سے متعلق اختلاف ملتا ہے۔ حاجی بابا سید نوران شاہؒ کے سوانح نگار بھی کسی ایک رائے پر متفق نظر نہیں آتے۔ کسی نے 1855ء کو آپ کی تاریخ پیدائش قرار دیا ہے(18)۔[18] اور کسی نے 1860ء تک کے درمیانی عرصے کو(19)[19] لیکن اس سلسلے میں مولانا سید قاسم راجوروی کا بیان زیادہ وقیع ہے جو انھوں نے حاجی بابا سے ایک انٹرویو کے دوران میں خود سنا۔ اس کے مطابق حاجی بابا کے ورود مسعود کا سنہ 1869ء بمطابق 1286ھ بنتا ہے۔(20)[20] آپ کے سوانحی ادب کے دیگر قرائن و شواہد بھی اس قول کی تائید کرتے ہیں۔(21)[21]

بچپن اور تعلیم

ترمیم

آپ کا گھرانہ اسلامی تہذیب و تمدن کا مرکز تھا۔ ماں اور باپ دونوں راہِ سلوک کے مسافر ہوں تو بچوں کی تربیت بھی یقیناًذکرِ الٰہی کے سایہ ہی میں ہوتی ہے۔ لھٰذا بچپن ہی سے ذکرِ الہیٰ اور درود شریف کی کثرت آپ کے معمولات میں شامل تھی۔(22)[22] شرافت و نجابت کے آثار بچپن سے ہی آپ کی ذات سے نمایاں ہونے لگے۔(23)[23] آپ کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز خاندان کی ایک پاکباز اور عالم خاتون کی زیرِ نگرانی قرآن پاک کے درس سے ہوا جنہیں سینکڑوں احادیثِ رسول ﷺ بھی زبانی یاد تھیں۔ چنانچہ قال اللہ و قال رسول کی صدائیں ابتدا ہی سے آپ کے کانوں میں رس گھولنے لگیں۔ روحانیت اور سلوک کی ابتدائی تربیت اپنے والدِ ماجدہ اور والدہ ماجدہ سے حاصل کی۔(24)[24] ان کے علاوہ آپ کی روحانی و علمی تربیت میں آپ کے ماموں سید رسول شاہ کاظمی مجددیؒ کا حصہ بھی شامل رہا جو حضرت خواجہ نظام الدین کیانویؒ کے خلفاء میں سے تھے۔(25)[25] گھر کے اسلامی و روحانی ماحول کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کے برادرِ اکبر سید مخدوم شاہ نقشبندیؒ (م 12 اکتوبر1936ء) اور برادر اصغر سید سلیمان شاہ نقشبندیؒ (م16 جون1948ء) دونوں راہِ سلوک کے مسافر بنے اور سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کی خلافت سے نوازے گئے۔ آپ اپنے برادرِ اکبر سید مخدوم شاہ نقشبندیؒ کو بھی اپنا استاد اور مربی بتایا کرتے تھے۔(26)[26] ان شخصیات کے علاوہ آپ نے کشمیر کے ایک فارسی عالم سے فارسی ادبیات میں بھی دسترس حاصل کی۔(27)[27]

کشمیر کو ہجرت

ترمیم

ہجرت کو دینِ اسلام اور تصوف میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ اللہ کی رضا کے لیے گھر بار چھوڑ دینے سے تعلق باللہ کی مضبوطی اور قلب کی صفائی نصیب ہوتی ہے۔ حضرت سید نوران شاہؒ کی عمر نو سال کو پہنچی تو آپ کے والد ماجد بھی تبلیغ اسلام کی غرض سے 1877ء میں بالاکوٹ کی وادی کو چھوڑ کر کشمیر کی جنت نظیر وادی کو ہجرت کر گئے اور راجوری شہر کے مضافات میں لاہ نامی ایک گاؤں میں سکونت اختیار کی۔(28) [28] اس وقت ریاست جموں و کشمیر پر ڈوگرہ مہاراجا رنبیر سنگھ (اگست1830ء۔12 ستمبر 1885، دورِ حکومت: 1857ء۔1885ء) حکمران تھا۔ ہجرت کے کچھ ہی عرصہ بعدآپ کے والد سید مرید علی شاہ کا سانحہ ارتحال ہوا۔(29) [29] باپ کا سایہ سر سے اٹھنے نے آپ کو روحانی طور پراور مضبوط کیا اور آپ پہلے سے زیادہ یادِ الٰہی میں گم ہو گئے۔(30)[30]

حجِ بیت اللہ

ترمیم

حضرت حاجی بابا سید نوران شاہ مجددی کو بچپن ہی سے فریضۂ حج ادا کرنے کی جستجو تھی۔ اس زمانہ میں حج کرنا آسان نہ تھا، سمندر کے راستے جہاز کے سفر کے لیے بہت خرچ آتا تھاجس کے وہ متحمل نہ تھے۔ لیکن دل میں حج کی خواہش زندگی کے ساتھ ساتھ مزید توانا ہوتی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب نکاح کی سنت ادا کرنے کے بعد اللہ نے آپ کو فرزند سے نوازا جس کا نام سید حبیب اللہ شاہ رکھا گیا۔ لیکن وفورِ شوق کے باعث آپ نے سب کچھ چھوڑ کر پیدل ہی حج کرنے کا فیصلہ کیا۔(31)[31] 1902ء میں زادِ راہ سے تہی دست اور صرف عشقِ رسول ﷺ کا سودا سر میں لیے یہ عاشقِ صادق تن تنہا ہی حرمین شریفین کی حاضری کے لیے چل پڑا۔ آپ راجوری سے چل کر پہلے کراچی پہنچے اور وہاں سے پیدل ہی مکران کے راستے ایران میں جا داخل ہوئے۔ لاسہ بندر کے خشکی کے راستے جنگلوں، پہاڑوں اور بیابانوں سے گذرتے کئی مہینوں کے سفر کے بعد آپ حرم شریف پہنچے۔(32)[32] مدینہ منورہ میں حاضری کی پرسوز گھڑیاں کیسے بسر ہوئیں، آپ بیان فرماتے ہیں: جب مسجد نبویﷺ کے سبز گنبد پر نظر پڑی تو مجھے اپنی بھی خبر نہ رہی اور یہ حالت بڑی دیر تک مجھ پر طاری رہی۔ حضور سرکارِ دوعالمﷺ کے روضۂ انور کی حاضری میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی جو اللہ پاک نے پوری کر دی۔ میں سرکارِ دوعالمْﷺ کے پیارے شہر میں اپنے آپ کو موجود پا کر یہ سوچتا تھا کہ اس شہرِ عزیز کے ان پیارے گلی کوچوں سے جب سرکار دوعالمﷺ کا گذر ہوتا ہو گا تووہ کیا لمحات ہوں گے۔ یہ سوچ کر مجھے مدینہ منورہ کی گلیوں سے پیار ہو گیا اور میری جو کیفیت ہوئی وہ بیان نہیں ہو سکتی۔ عشق و مستی کی اس کیفیت میں میں بیمار ہو گیا۔ اکثر مجھے کچھ ہوش نہ رہتا اور یہ حالت ہوتی کہ مدینہ کے کتے بھی میرے اوپر سے گذر جاتے۔ عالم رؤیا میں حضور نبی اکرم ﷺ کی کرم فرمائی کے بعد بیماری کافور ہوئی۔(33)[33]

تلاشِ مرشد و بیعت

ترمیم
فائل:Kayyan shareef.jpg
حاجی بابا کے مرشد حضرت بابا جی صاحب لاروی، لار شریف اور دادا مرشد حضرت میاں نظام الدین کیانوی کیاں شریف، وادی نیلم
 
حاجی بابا کا مرشد خانہ، بابا نگری لار شریف وانگت، تحصیل کنگن، ضلع گاندربل، جموں و کشمیر

آپ کا سفرِ حج 18 مہینوں پر محیط تھا، اس مبارک سفر سے واپسی کے بعد آپ کے دل میں تلاشِ مرشد کا داعیہ اور بھی مضبوط ہوتا گیا،کافی تحقیق و تلاش کے بعدآپ لار شریف سرینگر پہنچے(34)[34] جہاں خواجہ نظام الدین کیانویؒ کے خلیفہ خواجہ عبید اللہ لارویؒ مسند نشین تھے۔ حضرت لارویؒ سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کی ایک قابلِ فخر ہستی تھے۔ آپ کی تصانیف ملفوظات نظامیہ، اسرار کبیری اور مجموعہ سی حرفی علم تصوف میں بڑے پایہ کی کتابیں ہیں اور ہند و پاک سے ان کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔(35)[35] اپنی بیعت کا واقعہ حاجی بابا نے یوں بیان فرمایا: میں نے سنا تھا کہ یہاں کوئی فقیر ہے۔ خیال آیا کہ ملاقات کر لوں۔ حاضر ہوا تو ایک دن ملاقات نہ ہو سکی۔ دل میں خیال پیدا ہوا کہ میں سید ہوں، عالم بھی ہوں اور حاجی بھی۔ یہ کیسا فقیر ہے کہ اس کو پروا ہی نہیں۔ دوسرے دن وظائف اور معمولات کے بعد 9 بجے کے قریب جب ملاقات کے لیے باہر تشریف لائے تو میرے قلبی خطرہ سے مطلع ہو کر فرمانے لگے: آپ سید ہیں، عالم اور حاجی بھی ہیں۔ آپ کو تکلیف ہوئی ہو گی لیکن میں کیا کروں مجھے بہت کام ہوتا ہے اس لیے مجبور ہوں۔۔۔ پھر فرمایا تم سید ہو اور حاجی بھی، میرے پاس پلنگ پر بیٹھو۔ میں نے عرض کیا:آج سے نہ میں سید ہوں، نہ حاجی اور نہ ہی عالم، بلکہ ایک گجر ہوں اور خدا مجھے اس گوجر کے ساتھ ہی قیامت کے دن اٹھائے گا۔ (36)[36] تکمیلِ تربیت کے بعد آپ کے شیخ نے آپ کو اپنی مسند پر بٹھا کر اپنے شیخ کی عطا کردہ دستارِ خلافت عطا کی اور اجازت و خلافت سے نوازا اور تعلیم و تبلیغ کے لیے راجوری جانے کا حکم دیا۔ (37)[37]

مسندِ ارشاد

ترمیم

حسبِ حکم حاجی سید نوران شاہؒ اپنے علاقہ لاہ راجوری میں یادِ خدا اور تبلیغِ دین میں مصروف ہو گئے۔ آپ کی دنیا سے بے نیازی اور یادِ الٰہی میں ہمہ وقت مشغولیت کا اطراف و اکناف میں شہرہ ہوا تولوگ جوق در جوق آپ کے پاس آ کر داخلِ سلسلہ ہونے لگے۔(38) [38] حصولِ فیض و برکت کے لیے آنے والے ہر امیر و غریب کے لیے آپ کا آستانہ یکساں منبع فیض تھا۔ آپ تبلیغ کے لیے جہاں بھی تشریف لے جاتے آپ کے سینکڑوں عقیدت مند اور مریدین کے ذکر و اذکار سے کشمیر کی پہاڑیاں اور وادیاں گونج اٹھتیں۔ آپ کو ریاست جموں و کشمیر میں نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ ہزاروں طالبین آپ کے دامن سے وابستہ ہو گئے۔ (39)[39] آپ کی کوششوں سے کشمیر میں معرفت و طریقت کے درس ہوتے۔ آپ کی تعلیم و تبلیغ نے وسیع پیمانے پر دلوں میں انقلاب برپا کیا۔ نورِ اسلام نے جہاں غیر مسلموں کو متاثر کیا وہیں ہندوانہ رسوم و رواج میں گھرے مسلمانوں کو بھی اسلام کی اصل تعلیمات کی طرف واپس لانے کا عمل سر انجام دیا اور خالص اسلامی تہذیب و تمدن کو فروغ حاصل ہوا۔(40)[40] آپ کے مریدین اور خلفاء کی بدولت آپ کی ذات سے سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کو وادئ کشمیر اور دیگر مقامات میں بیحد ترقی حاصل ہوئی۔(41)[41] مؤرخ کشمیر محمد الدین فوق 1936ء میں لکھتے ہیں کہ آپ بڑے متقی پرہیزگار بزرگ ہیں۔ ہندو مسلمان سب آپ کا احترام کرتے ہیں۔ حضرت خواجہ عبید اللہ لاروی عرف حضرت بابا جی لار والے کے خلیفۂ اعظم ہیں۔ عمر ستر اسی سال کے درمیان میں ہو گی۔ (42)[42]

علمی ذوق و شوق

ترمیم
فائل:Signature Haji Baba.jpg
حضرت حاجی بابا کے دستخط کا عکس

حاجی بابا سید نوران شاہؒ کا ذاتی مطالعہ بہت وسیع تھا۔ آپ کے برادر اکبر سید مخدوم شاہ نقشبندیؒ جو ایک جید عالم تھے، ان کی معیت میں آپ مختلف علما سے علمی و فنی مذاکروں میں شامل ہوتے۔ (43)[43] بہت سی دینی کتب پر نظر رکھتے تھے۔ خاص کر صوفیانہ شاعری سے بہت لگاؤ تھا۔ خود بھی صوفی شاعر تھے اور صوفیا کی شاعری کا مطالعہ بھی کرتے رہتے تھے۔ مثنوی مولانا روم سے تو عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ مثنوی شریف کے اکثر اشعار زبانی یاد تھے جنہیں گاہے بگاہے پڑھا کرتے تھے۔(44)[44] آپ کے ایک خلیفہ مولوی خلیل نقشبندی (م 27 مئی1964ء) نہایت عالم فاضل اور فارسی زبان کے شاعر تھے۔ وہ بھی مثنوی مولانا روم کو نہایت خوش الہانی سے پڑھنے کا ملکہ رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان کا شمار آپ کے خاص منظورِ نظر خلفاء میں ہوتا ہے۔ ایک شخص نے نذرانہ کے طور پر کچھ زمین حاجی بابا کو دی تو آپ نے وہ انہی کو عنایت کر دی۔(45)[45] سلوک کی کتابوں کو اکثر مطالعے میں رکھتے تھے۔ علما کو بہت عزت دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کئی خلفاء کا شمار جید علما میں ہوتا ہے۔ مولانا مہر الدین قمر راجورویؒ (19 جولائی 1901ء۔7 اگست 1976ء) جوپنجاب یونیورسٹی لاہور سے منشی فاضل اور جامعہ اشرفیہ لاہور سے علوم اسلامیہ میں تکمیل یافتہ تھے، انہی خلفاء میں سے ایک تھے۔ وہ دو درجن سے زائد کتب کے مصنف اور صاحبِ طرز ادیب و شاعر بھی تھے۔ (46)[46] آپ کے فیضان نظر سے آپ کے خاندان میں بھی کئی جید علمائے کرام پیدا ہوئے، آپ کے بھتیجے سید محمد قاسم راجوروی بھی ان میں سے ایک تھے۔

شیخ مجدد کی لحد پر

ترمیم

سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت ہونے کے سبب آپ کو ابتدا بیعت ہی سے شیخ مجدد کی لحد پر حاضری کی تمنا تھی۔ چنانچہ آپ فروری 1940ء میں راجوری کشمیر سے تقریباََ 500 کلومیڑ کا فاصلہ طے کر سرہند شریف پہنچے اور اپنے چند خلفاء کی معیت میں حضرت مجدد الف ثانیؒ کی بارگاہ میں عقیدت و احترام کے ساتھ حاضری دی۔(47)[47]

معمولات

ترمیم

سید نوران شاہ مجددی نے بچپن سے وصال تک اپنے معمولات کا تسلسل باقاعدگی سے جاری رکھا اور ان میں کبھی فرق نہ آنے دیا۔ آپ ہمیشہ نماز باجماعت کا اہتمام فرماتے۔ روزانہ نماز فجر کے بعد مراقبہ کرتے ،منظوم شجرہ طریقت ترنم کے ساتھ پڑھتے،پھر نماز اشراق ادا کرتے، دلائل الخیرات کا وظیفہ ادا کرتے اور اس کے بعد قرآن مجید کی تلاوت فرماتے۔ ظہر و عصر کے بعد ختم خواجگان کا اہتمام کرتے۔(48)[48] روزانہ 7 ختم خواجگان تادمِ آخریں آپ کے معمولات میں شامل رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ رات دن ذکر خفی و جلی میں مشغول رہتے۔ زیادہ گفتگو سے گریزاں رہتے اور اپنے پاس آنے والوں کو بھی زیادہ سے زیادہ ذکر کرنے کی تلقین کرتے، آپ فرماتے: جو وقت ہم گفتگو میں صرف کریں گے وہ ذکرِ الٰہی میں بھی صرف کر سکتے ہیں جو زیادہ اولیٰ ہے۔ کہتے تھے کہ ہر وقت اللہ کے ساتھ تعلق قائم رہنا چاہیے۔(49)[49]

پاکستان کو ہجرت

ترمیم

12 اپریل1948ء کو راجوری پر ہندوستانی فوج کا قبضہ ہوا اور تحریک آزادی کشمیر میں نمایاں خدمات سر انجام دینے والی شخصیات کو چن چن کر قتل کیا جانے لگا۔ حاجی بابا سید نوران شاہؒ اور آپ کے خاندان نے تحریک آزادی کشمیر میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا تھا جس کا ذکر اسی مضمون میں آگے آئے گا۔ اس کی وجہ سے ہندوستانی فوج آپ کے درپے ہو گئی۔ آپ کے برادر اصغر سید سلیمان شاہ نقشبندیؒ کو 16 جون 1948ء کو ایک جھڑپ کے دوران میں خاندان کے بیسیوں افراد کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔ اس پر ستم یہ کہ ان تمام لاشوں کو ایک مکان میں اکٹھا کر اسے آگ لگا دی گئی۔(50)[50] ان نازک حالات میں حاجی بابا نے باطنی اشارے اور تمام عزیزوں کے مشورے سے اپنے پورے خاندان اور مریدین کو ساتھ لے کر ہجرت کا فیصلہ کیا۔ روانہ ہونے کے بعد ایک مقام پر پڑاؤ کیا۔ یہاں سے قریب ہی ایک محاذ پر انڈین فوج کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں شکست ہو گئی۔ پاکستانی فوج کے ساتھ اس معرکے میں آپ کے بھیجے ہوئے رضا کار بھی شامل تھے۔ اس محاذ پر شکست کے بعد ہندو فوج کے کچھ سپاہی آپ کے قافلے کے پاس آ گئے لیکن انھیں انسانیت کے ناطے بحفاظت واپس کر دیا گیا۔ ان سپاہیوں کی مخبری پر ہندوستانی فوج نے آپ کے قافلے پر بڑے حملے کی تیاری کی (51)[51] لیکن مجاہدوں کا یہ قافلہ بالآخر آزاد کشمیر میں داخل ہو گیا اور یوں آپ پر خطر راستوں سے گذر کر ذکر الٰہی میں مگن پاکستان تشریف لے آئے۔ پاکستان آمد کے بعد آپ سرائے عالمگیر ضلع گجرات میں مقیم ہو گئے۔(52)[52] کشمیر میں رہ جانے والے مریدین و خلفاء خطوط کے ذریعے آپ سے برابر مستفیدہوتے رہے۔

وصال

ترمیم
 
مزار مبارک حضرت حاجی بابا

حاجی بابا سید نوران شاہ مجددی ؒ نے اپنی طویل عمر کا بڑا حصہ مخلوق خدا کو خدا کی راہ دکھانے میں صرف کر دیا۔ 13 اکتوبر 1966ء بمطابق 27 جمادی الثانی 1386ھ بروز جمعرات کو جہلم کی تحصیل سوہاوہ میں تقریباََ ایک صدی تک کرنیں بکھیرنے والا یہ نورانی سورج اپنے خالقِ حقیقی کی بارگاہ میں پیش ہونے کے لیے بے تاب تھا۔ آنکھوں کی بینائی ختم ہو چکی تھی اور ظاہری طور پر کلام بھی بند تھا۔ آپ کے خلیفہ اعظم پیر سید محمد شاہ (1 جون 1912ء۔۔۔21 اکتوبر1987ء) اس موقعے پر موجود تھے۔ آپ کے ایک سوانح نگار لکھتے ہیں کہ پیر سید محمد شاہ نے مجھے پاس بلایا اور کہا کہ حاجی بابا کو دیکھو۔ میں نے قریب جا کر دیکھا تو بظاہر کوئی ہوش نہیں تھا اور روح پرواز کرنے والی تھی لیکن آپ کا سینہ مبارک دیکھا تو قلب کی جگہ تیزی سے حرکت کر رہی تھی اور پیراہن اس حرکت سے اوپر کو اٹھ رہا تھا جیسے پنکھے سے کپڑا حرکت کرتا ہے، گویا جسم مردہ تھا لیکن قلب زندہ۔ مصنف لکھتے ہیں کہ حاجی بابا نے ایک دفعہ مجھے فرمایا تھا کہ قلب جاری ہو جائے تو کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔(53)[53] اسی عالمِ ذکر میں اس ذات سے جاملے جس کا ذکر کرتے ساری عمر بیت گئی تھی۔ ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما(54)[54] بوقت مغرب سورج مغرب کی اوٹ میں چھپا تو سلسلہ مجددیہ کا یہ نورانی چراغ بھی لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ نمازِ جنازہ پیر صاحب دیول شریف نے پڑھائی۔ جنازے میں قائد اعظم کے قریبی ساتھی رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس(م1967ء) جو سخت بیماری کے با وجود جنازے میں شریک ہوئے کے علاوہ کئی سیاسی و مذہبی شخصیات بھی شریک ہوئیں۔(55)[55] آپ کو تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم کی نواحی بستی نورپور سیداں میں سپرد خاک کیا گیا۔ یہ بستی جی ٹی روڈ پر سوہاوہ سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جلد ہی قبر مبارک پر مزار کی عمارت تعمیر کر دی گئی جس کا افتتاح پیر سید غلام محی الدین گیلانی(م 1974ء) سجادہ نشین گولڑہ شریف نے فرمایا۔ مزار مبارک کی دوسری تعمیر صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق کے حکم سے ہوئی اور ساتھ ہی ایک خوبصورت مسجد بھی تعمیر کی گئی۔ چند سال قبل ہی جدید فنِ تعمیر کے مطابق مزار کی تعمیر تیسری بار عمل میں لائی گئی ہے۔(56)[56]

صاحب زادگان

ترمیم
فائل:2۔ پیر سید حبیب اللہ شاہ ضیاء شورش جبالیؒ.jpg
سید محمد حبیب اللہ شاہ ضیاء شورش جبالی (فرزند اکبر حضرت حاجی بابا(
فائل:5۔ سید محمد عبداللہ شاہ آزادؒ.jpg
سید محمد عبد اللہ شاہ آزاد، فرزند ارجمند حضرت حاجی بابا

حضرت نوران شاہ مجددی نے یکے بعد دیگر تین شادیاں کی۔ جن میں سے سات صاحبزادگان تولّد ہوئے جنھوں نے حاجی بابا کی فکر اور سلسلے کو فروغ دیا اور علمی و عملی میدان میں کا رہائے نمایاں انجام دیے۔ آپ کے فرزند اکبر سید حبیب اللہ شاہ ضیاء شورش جبالی کا شمار تحریک آزادی کشمیر کے رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ ایک انقلابی شاعر کی حیثیت سے بھی اپنا لوہا منوایا۔ رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس نے آپ کی خدمات پر آپ کو شورش جبالی کا خطاب دیا۔ بعد ازاں حکومت آزاد کشمیر کی طرف سے آپ کو گولڈ میڈل دیا گیا۔ دوسرے فرزند سید یٰسین شاہ نے اپنے والد ماجد کی روحانی میراث کے تحفظ اور فروغ میں تمام عمر بتائی۔ ان سے چھوٹے فرزند حکیم سید امیر حیدر شاہ نے فتح راجوری کے تمام اجلاسوں میں شرکت کی۔ ہجرت کے بعد حکمت کا پیشہ اپنایا اور خلق خدا کی خدمت میں مصروف رہے۔ الحاج سید عبد اللہ شاہ آزاد حاجی بابا کے وصال کے بعد سجادہ نشین مقرر ہوئے۔ آزاد صاحب کا شمار مسلم کانفرنس کے بانی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ آپ کو 1944ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کے دورہ کشمیر کے موقع پربطور مقامی قائد مسلم کانفرنس آپ سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا اور آپ مختلف ادوار میں مسلم کانفرنس کے نائب صدر اور حکومت آزاد کشمیر کے وزیر تعلیم بھی رہے۔ بعد ازاں حکومت آزاد کشمیر نے آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کوبھی طلائی تمغے سے نوازا۔ آپ تحریک آزادئ کشمیر کے پہلے کمانڈر تھے جو باقاعدہ منتخب ہوئے۔(57)[57] ان سے چھوٹے فرزندسید شاہ جنید نسیم شہید بچپن سے تہجد گزار اور ختم خواجگان کے پابند تھے، انقلاب کشمیر کے نام سے 1950ء میں ایک منظوم کتاب آپ سے یادگار ہے۔ کشمیر سے ہجرت کے بعد مہاجرین کی آبادکاری کے لیے آپ کو آزاد کشمیر میں تحصیلدار تعینات کیا گیا۔ آپ کے ایک اور فرزند سید محمد شاہ علم و عمل میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے انھیں عربی، اردو، فارسی، انگریزی، پیشتو سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا جبکہ سب سے چھوٹے فرزند سید نذیر احمد شاہ بقید حیات ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں اپنے والد ماجد کے فیضِ علمی و روحانی کے فروغ میں مصروفِ عمل ہیں۔ (58)[58]

خلفاء

ترمیم
فائل:Kaluchak sharif.jpg
حاجی بابا کے خلیفہ اعظم پیر سید محمد شاہ کاظمی کا مزار، کالوچک شریف ضلع گجرات

حضرت حاجی بابا سید نوران شاہؒ نے کئی دہائیوں تک وادئ کشمیر اور ہند و پاک میں تبلیغی خدمات انجام دیں۔ حدِ متارکہ کے دونوں جانب آپ کے مرید بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ کئی سالکین کو تصوف کی عملی تربیت فراہم کرنے کے بعد سلسلہ عالیہ کی خلافت و اجازت بھی عطا کی۔ ان میں سے ہر ایک اپنے دور میں آفتابِ عالم بن کر چمکا۔ آپ کے نامور خلفاء میں میاں محمد حسین (ریاسی، جموں)، الحاج سید محمد شاہ (گجرات)، پیر سید جماعت علی شاہ (پونچھ، جموں)،پیر سید حبیب اللہ شاہ ضیاء(بھمبر)، پیر سید یٰسین شاہ (سرائے عالمگیر)، پیر سید مہر علی شاہ (کوٹلی)، پیر سید حاکم علی شاہ (چکوال)، مولوی سید رسول شاہ بخاری(سرگودھا)، مولانا مہر الدین قمر راجوروی(ایبٹ آباد)، پیر سید محمد شاہ (اسلام آباد)، حاجی سید امیر علی شاہ (سوہاوہ) اور پیر سید حسن شاہ (مدفون جنت البقیع) وغیرہ شامل ہیں۔

مکتوبات

ترمیم

مشائخ نقشبندیہ کی روایت کے مطابق حاجی بابا سید نوران شاہ مجددیؒ نے مکتوبات کے ذریعے بھی اپنے مریدین و عقیدمندوں کی اصلاح و رہنمائی کا سلسلہ جاری رکھا۔ گو ابھی تک آپ کے مکاتیب کا کوئی باقاعدہ مجموعہ مرتب نہیں کیا گیا۔ کئی مآخذ و مراجع میں مذکور ہے کہ جب آپ 1948ء کی ہجرت کے بعد پاکستان آ گئے تو مقبوضہ کشمیر کے مریدین و خلفاء سے مکتوبات کے ذریعے ہی رابطہ رہا۔ آپ کے مکاتیب تصوف و ادب کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔

1903ء کے لگ بھگ جب حاجی بابا سید نوران شاہ حج پر تشریف لے گئے تھے تو وہاں سے آپ نے اپنے اہلِ خانہ کو ایک منظوم خط لکھا تھا جس کے کچھ اشعار درج ذیل ہیں:

اے صبا دی باد پیاری طرف راجوری جائیں بھائیاں میریاں ساریاں تائیں ہتھ بنھ عرض سنائیں فکر کرو اے یار بھراؤ آخر نکھڑ جاناں سو ورھیاں کوئی زندہ رہسی آخر نکھڑ جاناں مائی میری نوں میری طرفوں ہتھ بنھ کے ایہہ کہناں اس فرزند مسافر اتے ہر دم راضی رہناں اس خط میں اہلِ خانہ کو توشۂ آخرت کی فکر کرنے کی تلقین کی گئی ہے، ساتھ ہی اپنی والدہ ماجدہ کی رضا بھی چاہی گئی ہے۔(59)[59]

اپنے فرزند سید امیر حیدر شاہ کو 21 اگست 1955ء میں لکھے گئے ایک خط میں فرماتے ہیں: تم خدا کی یاد میں ہوشیار ہو جاؤ کیونکہ دنیا رہنے کی جگہ نہیں اور اگر دولت ہے تو خدا کی یاد ہے۔ سب خوشیاں بھول جائیں گی اور خدا کی یاد ساتھ جائے گی۔

ہزاراں پاک پیغمبر، ہزاراں اولیاء اللہ ہمہ در خاک شد آخر نہ من دانم نہ تو دانی چوں ختم الانبیاء ہم رفت دیگر کیست کو ماند مگر ذات مقدس قادر قیوم صمدانی(60)[60]

2 جنوری 1964ء کو لکھے گئے ایک خط بنام مرید مولوی محمد حفیظ اللہ لکھتے ہیں: عزیز یہ جہان کچھ بھی نہیں۔ دراصل یہ امتحان گاہ ہے۔ جہاں پر انسان ایک مقررہ وقت کے لیے آتا ہے اور وقت پورا کرکے واپس چلا جاتا ہے۔ اپنے اصلی مقام پر جو بھی زیادہ محنت کرتا ہے وہ اتنے زیادہ نمبر حاصل کرکے پاس ہوتا ہے۔ جتنا بھی کوئی مشکل امتحان دیتا ہے اتنی ہی بڑی ڈگری اسے دی جاتی ہے۔ خدا تعالیٰ کو نہ ہماری عبادت کی ضرورت ہے اور نہ وہ بھوکا ہے۔ وہ تو صرف ہمارے دلوں کو دیکھتا ہے اور نیت کو۔ عبادت کرنا تو ہمارا فرض ہے۔۔۔ عزیز دوسروں کو خدا کی یاد کی تلقین کرو اور خصوصاََاسکول کے بچوں کو نمازی بناؤ۔ تمھاری یہی سب سے بڑی عبادت ہوگی۔(61)[61]

ملفوظات

ترمیم

مکتوبات کی طرح آپ کے ملفوظات کا بھی کوئی مجموعہ تا حال سامنے نہیں آیا لیکن آپ کی کتبِِ سوانح میں درج ذیل فرمودات ملتے ہیں جن سے آپ کے تعلق مع اللہ اور یادِ آخرت کی تصویر بخوبی سامنے آ جاتی ہے۔ 1۔ فرماتے کہ اسمِ ذات اور نفی اثبات کی ضربوں سے اپنے دلوں کی سیاہیوں کو یوں دھویا کرو جیسے بچے اپنی تختیاں صاف کرتے ہیں۔ (62)[62] 2۔ فرمایا مجھے ظاہر نہیں کرنا میں چھپ کر عبادت کرنا چاہتا ہوں۔(63)[63] 3۔ فرمایا جب قلب جاری ہو جائے تو کوئی حاجت باقی نہیں رہتی۔ (64)[64] 4۔ فرماتے ہر وقت خدا سے تعلق قائم رکھنا چاہیے۔(65)[65] 5۔ اپنے ہاتھ سے پانی لے کر وضو فرماتے اس کام کے لیے دوسروں کی مدد کو اچھا نہ سمجھتے۔ فرماتے کہ خالق حقیقی کے سامنے سجدہ کرنا ہے تو دوسرے کی مدد لینا کیا معنی رکھتا ہے۔(66)[66] 6۔ کوئی زیادہ گفتگو کی کوشش کرتا تو فرماتے جو وقت ہم گفتگو میں صرف کریں گے وہ ذکرِ الٰہی میں بھی گزار سکتے ہیں جو زیادہ اولیٰ ہے۔(67)[67] 7۔ کسی کو قہقہہ لگا کر ہنستے دیکھتے تو فرماتے کیا تمھیں موت اور قبر یاد نہیں آتی؟(68)[68]

صوفیانہ شاعری

ترمیم

حاجی بابا سید نوران شاہؒ کے شیخ طریقت حضرت خواجہ عبید ا للہ لارویؒ ایک معروف صوفی شاعر تھے۔ مجموعہ سی حرفی اور دیگر کتب میں آپ کا صوفیانہ کلام موجود ہے۔ آپ کی مجلسوں میں صوفیانہ شاعری کا اکثر دور ہوتا رہتا تھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ اکثر عقیدت مند ان مجالس میں اپنا صوفیانہ کلام سناتے اور باضابطہ اصلاح لیتے اور ان کی پزیرائی بھی کی جاتی۔ حاجی بابا سید نوران شاہؒ بھی آپ کے خلیفہ اعظم ہونے کے ناطے اس شعری تحریک سے بہت متاثر ہوئے۔ اس طرح اپنے مرشد کے قائم کردہ صوفی شعرا کے اس حلقے میں نمایاں مقام حاصل کیا۔( 69)[69] نمونے کے طور پر آپ کا کلام ملاحظہ ہو: اول حمد خدا رحمان دی ہے سر جنہار جو زمیں اسمان دا ہے بے مثل عدیم نظیر مالک، ذوالجلال عالی عزت شان دا ہے اس دے وچ احکام تمام چیزاں عاجز ہر انسان بیان دا ہے لکہاں کی میں خط وچ حال اپنا محرم راز اپنا جاندا ہے(70)[70] آپ نے فرمایا کہ ایک بار بحالت خواب میری زبان پر خود بخود درج ذیل شعر جاری ہوا: جا سوناں وچہ جنگلاں دے اتھے کوئی نہ سنگی یار ہو سی شاہ نوران میں میاں رب دی یاد کر لے آنا نئیں تیرا دوجی وار ہوسی(71)[71]

ذکر الٰہی

ترمیم

حضرت حاجی بابا سید نوران شاہ مجددیؒ کو ذکرِ روحی حاصل تھا۔ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں ذکرِ الٰہی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ آپ کے مرشد خانے لار شریف سرینگر کشمیر کے سجادہ نشین میاں بشیر احمد لاروی بیان کرتے ہیں کہ حاجی بابا نوران شاہؒ ہر سال 8 جون کو حضرت خواجہ نظام الدین کیانوی کا عرس منانے وانگت (لار شریف) تشریف لایا کرتے تھے۔ اس وقت نہ سڑکیں تھیں اور نہ سواری کا انتظام تھا۔ لیکن وادی کشمیر اور پونچھ راجوری کے درویش حضرات، صوفی حضرات اور بڑی بڑی گدیوں کے پیر ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ وہ سرینگر سے وائیل کے مقام تک جب گاڑی میں بیٹھتے تو لا الٰہ الا اللہ کا ذکر شروع کرتے تھے اور پھر آگے تقریباََ 14 میل اسی طرح ذکر کرتے ہوئے پیدل جاتے تھے۔ ایک دو دفعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے بھی سرینگر سے وانگت تک حضرت سید نوران شاہ کے ساتھ جانے کا شرف حاصل ہوا تو دیکھا کہ ذکر کرتے کرتے ان کے گلے کی رگیں پھول کر باہر آجایا کرتی تھیں۔(71)[72] حاجی بابا خود تو ذکر الٰہی میں مشغول رہتے ہی ساتھ ہی اپنے سب مریدین کو بھی ہمیشہ یہی تلقین کرتے رہتے۔ فرمایا کرتے کہ اللہ کا ذکر کرو کہ یہی توشۂ آخرت ہے۔( 72)[73]

خلقِ خدا کا درد

ترمیم

ایک مولوی صاحب عبد الرشید مفظرآباد کے رہنے والے تھے۔ جذام کے موذی مرض کا شکار تھے۔ دہلی تک علاج کی غرض سے گئے لیکن ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے دیا۔ ان کا منہ اس مرض سے بری طرح متاثر تھا۔ راجوری میں حاجی بابا سید نوران شاہ کی شہرت سن کے آپ کے پاس راجوری آئے اور آپ سے پوری کہانی بیان کی۔ آپ نے فرمایا کہ میرے لنگر سے کھاؤ، لسی پیو اور میرے ہی پاس رہو۔ اس نے کہا ڈاکٹروں نے مجھے بستر اور برتن الگ کرنے کو کہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں ہم یہاں اکٹھے ہی کھائیں گے اور اکٹھے ہی رہیں گے۔ آگے اللہ مالک ہے۔ آپ کے اس خلوص، دردمندی اور دعاؤں کا یہ اثر ہوا کہ وہ مولوی صاحب نہ صرف شفایاب ہو گئے بلکہ ایک عرصہ تک آپ کی خدمت میں رہے اور آپ کے قائم کردہ درس میں مدرس کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔(73)[74]

تفرقہ بازی سے احتراز

ترمیم

یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ حضرت حاجی بابا سید نوران شاہ نے مذہبی تفرقہ بازی سے اپنے دامن کو کبھی آلودہ نہ ہونے دیا۔ آپ کی تعلیم و تبلیغ اسلام کے ان اعلیٰ اصولوں پر مبنی تھی جن میں اللہ پاک کی وحدانیت، عشق رسول ﷺ،محبتِ اہل بیت اور احترام صحابہ کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ فرقہ بندی اسلام کو کمزور کرنے کے سوا کچھ نہیں۔(74)[75] فروعی اختلافات کی بنا پر تکفیر بازی کی شدت سے مذمت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ مولوی نور محمد فاضل دیوبند نے آپ سے عرض کیا کہ میں ایک شخص کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن لڑکی کے والد نے کہا ہے کہ ہمارے مرشد حاجی بابا ہیں، وہ اجازت دیں گے تو رشتہ ہو گا۔ حاجی بابا نے جواب دیا کہ تم عالم ہو۔ تم سے نکاح کرنے میں کیا رکاوٹ ہو سکتی ہے؟ میں چٹھی لکھ دیتا ہوں جو لڑکی کے والد کو دکھا دینا۔(75)[76] الغرض آپ کی رواداری کا اثر تھا کہ ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے حضرات آپ کے پاس عقیدت و احترام سے حاضر ہوتے۔ سید عباس علی اور سید امیر علی شاہ اثناء عشری عقیدہ رکھنے کے باوجود آپ کے عقیدت مند تھے۔ میر واعظ کشمیر مولانا محمد یوسف فاضلِ دیوبند تھے مگر آپ کا بیحد احترام کرتے تھے حتیٰ کہ غیر مسلم بھی آپ کا اسی طرح احترام کرتے تھے۔

مشکلات پر صبر

ترمیم

حاجی بابا نوران شاہ مجددیؒ حج پر پیدل تشریف لے گئے تھے۔ اس سفر کے دوران میں اکثر مواقع ایسے آئے جب آپ بالکل تن تنہا ہوتے۔ آپ خود بیان کرتے ہیں: پیدل اور تن تنہا سفر حج میں کئی بہت تکلیف دہ مواقع بھی آئے۔ اس سفر میں بہت تکلیف اٹھائی۔ ریگستان میں میلوں تک ریت کے ٹیلے، جنگلی جانوروں کی بھرمار، پانی کا نام و نشان تک نہ تھا اور اکثر اوقات جہاں رات پڑتی ریت کا گھر بنا کر رات بسر کرتا۔ سفر میں میرا جوتا بھی ٹوٹ گیا اور پاؤں میں نوک دار کانٹا چبھ گیا۔ اس پر ستم یہ کہ ایک بدو کے کتے نے بھی کاٹ لیا۔ ننگے پاؤں چلتے چلتے چھالے پڑ گئے۔ ایک رات ایسی آئی کہ میں نے سمجھا یہ میری زندگی کی آخری رات ہے۔ ساری رات روتے ہوئے خدا کے حضور دعا میں گذر گئی۔ اس رات میری دعا قبول ہوئی۔ اس رات کو میں شبِ قبولِ دعا کہتا ہوں۔ 18 ماہ کے اس سفرِ بیت اللہ اور مدینہ منورہ نے مجھے جن آزمائشوں، مشکلات اور بیماری سے مسلسل دوچار رکھا اس نے گویا تمام کثافتوں کو میرے جسم سے نکال کر روحانی شفا بخشی۔(76)[77] صبر اور برداشت کا یہ مزاج زندگی کے ہر موڑ پرآپ کے کردار کا لازمی حصہ بنا رہا۔

تبلیغ دین

ترمیم

حاجی بابا سید نوران شاہؒ نے اپنے مرشد سے خلافت حاصل کرنے کے بعد مرشد کے ہی حکم سے کشمیر کے علاقہ راجوری میں اپنی خانقاہ قائم کی۔(77) [78] ساتھ ہی مسجد و مدرسہ کا قیام بھی عمل میں آیا۔ جہاں دینی تعلیم کے ساتھ سلوک و تصوف کی تعلیم بھی دی جاتی۔ علوم اسلامیہ کی تعلیم کے لیے حاجی سید امیر علی شاہ اور مولانا عبد الرشید مظفرآبادی جیسے علما موجود تھے۔ دور دور سے متلاشیان حق آپ کی خانقاہ کا رخ کرتے۔ جو آپ کی صحبت میں رہ کر سلوک کی تربیت حاصل کرتے۔ علاقہ لاہ راجوری کی یہ مسجد اور آپ کی رہائش گاہ آپ کی تبلیغ کا مرکز رہی۔ اسی مقام پر بہت سے اہم فیصلے بھی ہوئے جنھوں نے کشمیر کی تاریخ پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ (78)[79]

تحریک آزادی کشمیر میں کردار

ترمیم

16 مارچ 1846ء کو کشمیری عوام کو گلاب سنگھ (بانی ڈوگرہ سلطنت، 18 اکتوبر 1792ء۔30 جون 1857ء) کے ہاتھ بھیڑ بکریوں کی طرح فروخت کر دیا گیا۔ ہر کشمیری فرد کی قیمت چند روپے مقرر کی گئی۔(79)[80] بقول اقبال دہقان و کشت و جوئے و خیاباں فروختند قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند(80)[81] اس بدنام زمانہ بیع نامہ امرتسر کے بعد ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیریوں کے ساتھ واقعی جانوروں کا سا سلوک کیا۔ آزادی کے متوالوں کی کھالیں کھینچ لی جاتیں۔(81)[82] خاص کر مسلمانوں کو اچھوت سے بھی کمتر سمجھا جاتا تھا۔(82) [83] اور پھر مہاراجا ہری سنگھ کے دور میں تو مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کر دی گئی۔ ان کے دینی شعائر کا مذاق اڑایا گیا۔ 1931ء میں ایک ڈوگرہ فوجی کے ہاتھوں قرآن پاک کی بے حرمتی سمیت کئی ایسے واقعات پیش آئے جن سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیے گئے۔ مسلمانوں نے احتجاج کیا تو سرینگر میں ان کا قتل عام کیا گیا جس میں 22 مسلم نوجوان شہید ہوئے۔(83)[84] یہ وہ پس منظر تھا جس میں حاجی بابا سید نوران شاہ مجددیؒ نے خانقاہ سے نکل کر رسم شبیری ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور دعوت و تبلیغ کے ساتھ لوگوں کی درخواست پر مسلمانوں کے استحصال کے خلاف مؤثر کردار ادا کیا۔ 1923ء میں جموں کے ایک علاقے کے لوگ ڈوگرہ انتظامیہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر آپ کی خدمت میں دعا کے لیے حاضر ہوئے تو آپ نے ان کی دلجوئی کے لیے اپنے فرزند اکبر سید حبیب اللہ شاہ ضیاء کو ان کے ساتھ روانہ کیا۔ جنھوں نے ان لوگوں کے ساتھ مہاراجا پرتاب سنگھ (18 جولائی 1848ء۔23 ستمبر 1925ء، دورِ حکومت: 1885ء۔1925ء) سے ملاقات کر کے مسلمانوں کا مقدمہ پیش کیا۔(84)[85]

جامع مسجد راجوری کی بازیابی

ترمیم

ڈوگرہ سلطنت میں کئی مساجد کی تالا بندی کر دی گئی۔ ان میں لڑی میدان راجوری کی تاریخی جامع مسجد بھی شامل تھی۔ یہ مسجد مغلیہ دورِ حکومت میں تعمیر کی گئی تھی۔ 1924ء میں ایک قادیانی مولوی عبد الرحمٰن اس مسجد کا خطیب بن کر آیا۔ اس نے دو سال تک اپنے نظریات کو خفیہ رکھا۔ بھید کھلنے پر وہ تو روپوش ہو گیا۔ مگر علاقہ میں کشیدگی کا ماحول پیدا ہونے کی وجہ سے ڈوگرہ سرکار نے جامع مسجد لڑی کی تالا بندی کرا دی۔ اس عمل نے جلتی پر گویا تیل چھڑک دیا۔ علاقہ کے تمام مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ اس موقع پر بابا سید نوران شاہؒ نے علاقہ کے مسلمانوں کو انتشار اور افراتفری کا شکار ہونے سے بچایا اور مسلمانوں کے احتجاج کی قیادت کے لیے خود کو پیش کر دیا چنانچہ آپ جلوس کی قیادت کرتے ہوئے لڑی میدان پہنچے۔ احتجاجاََ نماز جمعہ کی نماز اس مسجد کے سامنے میدان میں ادا کی گئی جس کی امامت حاجی بابا سید نوران شاہؒ نے کروائی۔ الغرض اس تحریک کے نتیجے میں ڈوگرہ ملٹری مذاکرات پر مجبور ہوئی، بالآخر مسجد کی تالا بندی ختم کر دی گئی۔(85)[86] اور علاقہ کے مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا۔

مسلم نمائندہ وفد میں شرکت

ترمیم

1931ء میں سرینگر اور جموں میں مسلمانوں کے قتل عام اور دیگر اشتعال انگیز واقعات کے باعث چلنے والی عوامی تحریک نے زور پکڑااور مسلمان احتجاج کے لیے سروں پر کفن باندھ کر میدان میں آئے تو مہاراجا کشمیر ہری سنگھ (23 ستمبر 1895ء۔25 اپریل 1961ء، دورِ حکومت: 23 ستمبر 1925ء۔26 اکتوبر 1947ء) نے ریاست کے تمام سرکردہ مسلمانوں کو مشورہ و گفت و شنید کے لیے دربار میں بلایا۔ مہاراجا سے ملاقات کرنے مسلم نمائندہ وفد میں حاجی بابا سید نوران شاہؒ نے بھی ایک اہم رکن کی حیثیت سے شرکت کی(86)[87] جس سے علاقے کے مسلمانوں کا آپ پر اعتماد اور آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف واضح ہوتا ہے۔ اس وفد نے مہاراجا سے ملاقات میں جو مطالبات پیش کیے ان میں سے چند یہ ہیں:# مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے سے گریز کیا جائے اور ان کے مذہبی مقامات جو حکومت کی تحویل میں ہیں وہ مسلمانوں کے حوالے کیے جائیں۔# مسلمانوں کی تعلیم کا کافی انتظام کیا جائے۔# مسلم طبقے کو ملازمتوں میں حصہ دیا جائے۔# ناجائز ٹیکسوں کا بوجھ ختم کیا جائے۔(87)[88] مہاراجا سے اس ملاقات میں حاجی بابا سید نوران شاہ مجددیؒ نے اپنی دینی حمیت و وقار کو قائم رکھا۔ مہاراجا کے دربار میں حاضری کی لیے یہ ضروری تھا کہ آنے والا مہاراجا کوجھک کر سلام کرے لیکن حاجی بابا کمال بے نیازی کے ساتھ جا کر اپنی کرسی پر بیٹھ گئے اورگفت و شنید کا آغاز کیا۔ دربار ختم ہوا تو حاجی بابا سید نوران شاہ کی اس شان بے نیازی اور قلندرانہ ادا کو بڑے پیمانے پر سراہا گیا۔(88) [89] کشمیری عوام کے حقوق کی تحریک میں مہاراجا سے اس وفد کی ملاقات نے ایک سنگ میل کا کردار ادا کیا۔ مسلمانوں کے مطالبات نے زور پکڑا اور مہاراجا ان مظالم کی تحقیقات کے لیے مشہور زمانہ گلانسی کمشین بنانے پر آمادہ ہوا جس کی سفارشات کے نتیجے میں کشمیر میں پہلی عوامی نمائندہ اسمبلی کا قیام عمل میں آیا۔

قوم کی رہنمائی

ترمیم

کشمیر کے پسے ہوئے طبقات کی داد رسی اور ان طبقات کی اعلیٰ صطح پر نمائندگی کے لیے 13 اپریل 1932ء کو ایک تنظیم کا قیام عمل میں آیا جس کا نام گوجر جاٹ کانفرنس رکھا گیا۔ اس جماعت کے قیام کا حتمی فیصلہ حاجی بابا نوران شاہؒ نے ہی کیا اور اس کا افتتاحی اجلاس بھی آپ کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔ آپ کے مرشد زادہ اور اس کانفرنس کے صدر جناب میاں نظام الدین مجددیؒ نے اس کانفرنس کے پہلے اجلاس میں آپ کو مخاطب کر کے کہا: آپ میرے بزرگ باپ کی دولتِ فقر کے وارث ہیں لھٰذا اس قوم پر دستِ شفقت قائم رکھیں اور ان کی بہتری کے لیے دعا فرمائیں۔ حاجی بابا نے ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے اور ہزاروں افراد کی آمین کہتی ہوئی صدائیں فضاؤں کی چیرتی عرش الٰہی کی طرف بڑھتی چلی گئیں۔(89)[90]

شدھی تحریک کے خلاف کردار

ترمیم

1923ء میں سوامی شردھانند (22 فروری 1856ء۔23 دسمبر 1926ء) نے شدھی تحریک کا آغاز کیا جس کا مقصد مسلمانوں کو شدھی(پاک) کرنا یعنی مرتد بنانا تھا۔ 1940ء کے عشرے میں سرکاری سرپرستی میں یہ تحریک جموں کی ایک نوجوان خاتون شانتا بھارتی کے ذریعے راجوری میں وارد ہوئی۔ اس نے بڑے بڑے جلسے کر کے اسلام کے خلاف زہر افشانی شروع کی تو حاجی بابا سید نوران شاہؒ کو سخت فکر لاحق ہوئی۔ آپ نے ایک طرف اپنی تبلیغی سرگرمیاں تیز کر دیں اور دوسری طرف علاقے کے رؤسا مرزا محمد حسین ذیلدار اور اور چوہدری دیوان علی کی معاونت سے آریاؤں کے خلاف اس وقت کے ایک نامور مناظر مولانا لال حسین چترویدی کو راجوری بلوا بھیجا۔ مولانا کی آمد پر حاجی بابا نوران شاہ کے ایک خلیفہ مولانا مہر الدین قمر راجوروی نے ان کے ساتھ مل کر خطے میں فتنہ ارتداد کی تحریک کا بڑھ چڑھ کر مقابلہ کیا جس کی وجہ سے یہ اسلام دشمن تحریک اس علاقے میں بری طرح ناکام ہو گئی۔(90)[91]

فتح راجوری میں کردار

ترمیم

جموں اور سرینگر میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے بعد راجوری کے ارکان اسمبلی مرزا محمد حسین ذیلدار جو بعد میں راجوری کی آزاد انقلابی کونسل کے چئیر مین بھی بنے نے آپ کے سامنے ہی اور آپ کی دعا کے ساتھ ڈوگرہ مہاراجا سے بغاوت کا اعلان کیا۔(91)[92] راجوری کے دانشور میر محمد شمسی لکھتے ہیں کہ حاجی بابا سید نوران شاہ نے دیگر علاقائی زعماء کے ساتھ مل کر اس علاقے کو ڈوگرہ ملٹری سے آزاد کرانے میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔(92)[93] 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد بھارت کی فوجوں نے کشمیر پر قبضہ جمانا شروع کیا تو پاکستانی فوجوں نے میرپور سے مظفرآباد تک کے اضلاع کو آزاد کروالیا۔ ان اضلاع پر 24 اکتوبر 1947ء کو بیرسڑسردار محمد ابراہیم کی سربراہی میں آزاد جموں کشمیر حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ لیکن راجوری کے علاقے کو پاکستانی افواج نے 12 نومبر 1947ء کو فتح کرنے کے بعد مرزا محمد حسین کی انقلابی کونسل کے سپرد کر دیا۔(93)[94] یہ انقلابی کونسل 12 اپریل 1948ء تک قائم رہی۔ فتح راجوری سے پہلے پاکستانی فوج کے کمانڈر کیپٹن رحمت اللہ نے راجوری کے مسلمان زعماء کوتعاون کا پیغام بھیجا۔ جس کے بعد حاجی بابا سیدنوران شاہؒ کے گھر پر ان ہی کی سربراہی میں علاقے بھر کے زعماء کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں یہ قرارداد پاس کی گئی کہ پاکستانی فوج کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے اور اسے اپنے اپنے علاقہ میں خوش آمدید کہا جائے۔ ساتھ یہ فیصلہ بھی ہوا کہ راجوری میں موجود ہندؤوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق تحفظ دیا جائے گا۔(94)[95]

اقلیتوں کے جان و مال کا تحفظ

ترمیم

بدقسمتی سے آر ایس ایس کے ہندو گماشتوں نے صلح کی تمام راہیں مسدود کر دیں اور پاکستانی فوج کومجبوراً راجوری پر حملہ کرنا پڑا اورہندو انتہا پسندوں کے ساتھ ایک خونی معرکے کے بعدبالآخر شہر کو آزاد کروا یا گیا۔ لیکن یہاں بھی حاجی بابا سید نوران شاہؒ کی سربراہی میں علاقے کے زعماء نے عام ہندو ؤں کے لیے پناہ کا پروانہ حاصل کیا اور ہزاروں انسانوں کی جان بچانے میں اپنا اسلامی کردار ادا کیا۔(95)[96] حاجی بابا سید نوران شاہ مجددی نے صحیح معنوں میں مذہبی و ملی طور پر ایک مصلح کا کردار ادا کیا۔ دیگر صوفیا کرام کی طرح آپ کی زندگی للٰہیت اور خدمتِ خلق کی تصویرنظر آتی ہے۔ ضرورت ہے کہ آپ نے جن خطوط پر زندگی گزاری فی زمانہ بھی ان سے روشنی حاصل کی جائے اور اپنی دنیا و آخرت کی بہتری کا سامان کیا جائے۔ == مآخذ ==# اعظم،محمد، تاریخ کشمیر اعظمی، ترجمہ: ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی، مقام طبع ندارد، 1355ھ# اقبال، علامہ، جاوید نامہ، مشمولہ کلیات اقبال فارسی، لاہور: مکتبہ دانیال، س ن#حافظ شیرازی، دیوان حافظ، مترجم: قاضی سجاد حسین، لاہور: مشتاق بک کارنر، س ن#حیدر شاہ غالب، دریائے معرفت کا گوہر تابندہ(مضمون) مشمولہ: کوہستان، روزنامہ، راولپنڈی، 12 اکتوبر 1967ء# حیدر شاہ غالب، سید، رہبر طریقت، میرپور: علی پرنٹرز، 2010ء# شمسی، امیر محمد، مولانا مہر الدین قمر راجوروی(مقابل اداریہ) مشمولہ: کشمیر عظمیٰ، روزنامہ، سرینگر، 9 جنوری 2016ء# شمسی، امیر محمد، 10 نومبر 1947ء جب راجوری جلیانوالہ باغ بنا(مقابل اداریہ)، مشمولہ کشمیر عظمیٰ، روزنامہ، سرینگر، 23 اپریل 2014ء# شمسی، امیر محمد، آزاد راجوری کے شب و روز(مقابل اداریہ)، مشمولہ کشمیر عظمیٰ،روزنامہ، سرینگر، 28 مئی 2104ء#شہباز، انجم سلطان، تذکرہ اولیاء کرام جہلم، دینہ: چوہدری بک پبلشرز، 2001ء# طاسین شاہ، سید، حاجی، رہبر کامل،کھاریاں: مطبع ندارد، 1990ء# عابد منہاس صدیقی، تذکرہ اولیائے چکوال،چکوال: کشمیر پبلیکشنز، 2011ء# عنصر صابری، تاریخ کشمیر، لاہور: پروگریسو بکس، 1991ء# غلام نبی خیال، صدائے کشمیر،سرینگر: کشمیری رائٹرز کانفرنس، 1994ء# فوق، محمد الدین، تاریخ اقوام پونچھ، لاہور: مشتاق بک کارنر، 2004ء# قاسم راجوروی، سید، مولانا، ذکر مخدوم،راولپنڈی: فضل ربی پریس، 1990ء# قاسم راجوروی،سید، مولانا، شجرہ مخدومیہ، راولپنڈی: فضل ربی پریس، 1398ھ# قاسم راجوروی، سید، مولانا، فیضِ مخدوم، (غیر مطبوعہ) کاتب: ابوالبلال، مملوکہ: سید محبوب شاہ کاظمی، اسلام آباد# قاسم راجوروی، مولانا، سید، مظہر جلال و جمال، راولپنڈی، فضل ربی پریس، 1386ھ# قمر راجوروی، مہر الدین، تحریک آزادئ کشمیر، راولپنڈی، تعمیر پرنٹنگ پریس، ستمبر 1958ء# قمر راجوروی، مہر الدین، شجرہ نقشبندیہ مجددیہ، راولپنڈی، نور آرٹ پریس، بارِ پنجم، جولائی 1973ء# قمر راجوروی، مہر الدین، کارروائی اجلاس عرس شریف، راولپنڈی، نور آرٹ پریس، 1966ء# قمر راجوروی، مہر الدین، کشمیر کا خونیں انقلاب،(قلمی) مملوکہ: احمد حسین آوانہ، نواں شہر ایبٹ آباد# کرمانی، ارتضیٰ علی، امام بری سرکار، لاہور: عظیم اینڈ سنز پبلشرز، 2001ء# کشمیری، طیب حسین، اولیائے کشمیر، لاہور: نذیر پبلشرز اردو بازار، 1988ء# کے ڈی مینی، متاع فقر و دانش، دہلی: کاف آٖفسیٹ پرنٹرز، 2012ء#لاروی، عبید اللہ،خواجہ، اسرار کبیری، مقدمہ از قاسم راجوروی، لاہور: اومی پرنٹرز رحمٰن مارکیٹ، 1994ء# لاروی، نظام الدین، رموز نہانی، سرینگر: آفسٹ گورنمنٹ پریس، 1985ء#مشتاق حسین راجوروی، روشن ستارے، مشمولہ: گوجر گونج، ماہنامہ، لاہور، جنوری 1997ء# مغموم، آغا حسین، سید، امام الانبیاء، راولپنڈی: فیض الاسلام پرنٹنگ پریس، 1995ء# مغموم، آغا حسین،سید، چراغوں میں روشنی نہ رہی(قلمی) مملوکہ: سید ارسلان احمد، جہلم# ناصر گنج العلم آبادی ،سفینۃ الاولیاء،(قلمی) مملوکہ: سید ابوزہراء فدا حسین موسوی، مظفرآباد#ناظم، ظہور الحسن، قاضی، نگارستان کشمیر، دہلی:در جید برقی پریس#نوران شاہ، سید، حاجی، مشمولہ: نیر سمندر، مرتبہ: میاں بشیر احمد مجددی، دہلی:جے کے آفیسٹ پریس، 1997ء# یعقوب شاہ حیدری، سید، انوار محمدی، جہلم، مطبع ندارد، 1997ء# Prem Nath Bazaz، The History of the Struggle for Freedom in Kashmir, Delhi: Kashmir Publications, 1954

حوالہ جات

ترمیم
  1. (1)ناظم، ظہور الحسن، قاضی، نگارستان کشمیر، دہلی:در جید برقی پریس، 1352ھ، ص 369۔370
  2. (2) ایضاََ
  3. (3) کلہانہ، راج ترنگنی، ص 725، بحوالہ نگارستان کشمیر، ص369
  4. (4) اعظم،محمد، تاریخ کشمیر اعظمی، ترجمہ: ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی، مقام طبع ندارد، 1355ھ، ص74
  5. (5) کشمیری، طیب حسین، اولیائے کشمیر، لاہور: نذیر پبلشرز اردو بازار، 1988ء، ص 13
  6. (6) قمر راجوروی، مہر الدین، شجرہ نقشبندیہ مجددیہ، راولپنڈی، نور آرٹ پریس، بارِ پنجم، جولائی 1973ء، 4۔5؛ قاسم راجوروی،سید، مولانا، شجرہ مخدومیہ، راولپنڈی: فضل ربی پریس، 1398ھ، ص 9۔ 10
  7. (7) فوق، محمد الدین، تاریخ اقوام پونچھ، لاہور: مشتاق بک کارنر، 2004ء، ص581
  8. (8) قاسم راجوروی، سید، مولانا، ذکر مخدوم،راولپنڈی: فضل ربی پریس، 1990ء،ص 9
  9. (9) ناصر گنج العلم آبادی ،سفینۃ الاولیاء،(قلمی) مملوکہ: سید ابوزہراء فدا حسین موسوی، مظفرآباد
  10. (10) قاسم راجوروی، سید، فیضِ مخدوم، (غیر مطبوعہ) کاتب: ابوالبلال، مملوکہ: سید محبوب شاہ کاظمی، اسلام آباد، ص44
  11. (11)عابد منہاس صدیقی، تذکرہ اولیائے چکوال،چکوال: کشمیر پبلیکشنز، 2011ء، ص 238، کرمانی، ارتضیٰ علی، امام بری سرکار، لاہور: عظیم اینڈ سنز پبلشرز، 2001ء، ص 19
  12. (12) تاریخ اقوام پونچھ، ص 581
  13. (13) ایضاََ، ص 579؛ فیضَ مخدوم، ص18
  14. (14) فیضِ مخدوم، ص 23، 24
  15. (15) ایضاََ، ص 25
  16. (16) ذکر مخدوم، ص 11
  17. (17) کے ڈی مینی، متاع فقر و دانش، دہلی: کاف آٖفسیٹ پرنٹرز، 2012ء، ص 425
  18. (18) حیدر شاہ غالب، سید، رہبر طریقت، میرپور: علی پرنٹرز، 2010ء، ص23
  19. (19) مغموم، آغا حسین، سید، امام الانبیاء، راولپنڈی: فیض الاسلام پرنٹنگ پریس، 1995ء، ص243
  20. (20) ذکر مخدوم، ص 88
  21. (21) ایضاََ، ص 36
  22. (22)شہباز، انجم سلطان، تذکرہ اولیاء کرام جہلم، دینہ: چوہدری بک پبلشرز، 2001ء، ص23
  23. (23) قمر راجوروی، مہر الدین، کارروائی اجلاس عرس شریف، راولپنڈی، نور آرٹ پریس، 1966ء، ص29
  24. (24) انٹرویو، سید شوکت علی شاہ بن سید عبد اللہ شاہ بن سید نوران شاہؒ (سجادہ نشین)، 28 اپریل 2016ء، نورپورسیداں سوہاوہ ضلع جہلم
  25. (25) ذکر مخدوم، ص 41
  26. (26) ایضاََ، ص 173
  27. (27) ایضاََ، ص 91
  28. (28) تذکرہ اولیائے کرام جہلم، ص23
  29. (29) رہبر طریقت،ص 25
  30. (30) انٹرویو، سید شوکت علی شاہ
  31. (31) متاع فقر و دانش، ص 422
  32. (32) رہبر طریقت، ص 35
  33. (33) ایضاََ، ص 36۔ 37
  34. (34) لاروی، نظام الدین، رموز نہانی، سرینگر: آفسٹ گورنمنٹ پریس، 1985ء، ص25
  35. (35)لاروی، عبید اللہ،خواجہ، اسرار کبیری، مقدمہ از قاسم راجوروی، لاہور: اومی پرنٹرز رحمٰن مارکیٹ، 1994ء، ج1 ص3
  36. (36) ذکر مخدوم، ص 99۔100 ؛ متاع فقر و دانش، ص 426۔427
  37. (37) رہبر طریقت، ص 44
  38. (38) متاع فقر و دانش، ص 428
  39. (39) قاسم راجوروی، مولانا، سید، مظہر جلال و جمال، راولپنڈی، فضل ربی پریس، 1386ھ، ص20
  40. (40)حیدر شاہ غالب، دریائے معرفت کا گوہر تابندہ(مضمون) مشمولہ: کوہستان، روزنامہ، راولپنڈی، 12 اکتوبر 1967، ص6
  41. (41) تذکرہ اولیائے کرام جہلم، ص 23
  42. (42) تاریخ اقوام پونچھ، ص 581
  43. (43) ذکر مخدوم، ص 42
  44. (44) متاع فقر و دانش، ص 422
  45. (45) ذکر مخدوم، ص145
  46. (46) شمسی، امیر محمد، مولانا مہر الدین قمر راجوروی(مقابل اداریہ) مشمولہ: کشمیر عظمیٰ، روزنامہ، سرینگر، 9 جنوری 2016ء، ص 7؛ مشتاق حسین راجوروی، روشن ستارے، مشمولہ: گوجر گونج، ماہنامہ، لاہور، جنوری 1997ء، ص10۔15
  47. (47) طاسین شاہ، سید، حاجی، رہبر کامل،کھاریاں: مطبع ندارد، 1990ء، ص 9 ؛ یعقوب شاہ حیدری، سید، انوار محمدی، جہلم، مطبع ندارد، 1997ء، ص57
  48. (48)ذکر مخدوم، ص 92
  49. (49)رہبر طریقت، ص 68
  50. (50) رہبرِ کامل، ص 15
  51. (51) ایضاََ، ص 16
  52. (52) مغموم، سید آغا حسین، چراغوں میں روشنی نہ رہی(قلمی) مملوکہ: سید ارسلان احمد، جہلم، ص 35
  53. (53)ذکر مخدوم، ص 160
  54. (54)حافظ شیرازی، دیوان حافظ، مترجم: قاضی سجاد حسین، لاہور: مشتاق بک کارنر، س ن، ص35
  55. (55) رہبر طریقت، ص 77
  56. (56)کتبۂ مزار حاجی بابا سید نوران شاہؒ، نورپورسیداں سوہاوہ، ضلع جہلم
  57. (57) قمر راجوروی، مہر الدین، تحریک آزادئ کشمیر، راولپنڈی، تعمیر پرنٹنگ پریس، ستمبر 1958ء، ص41
  58. (58) رہبر طریقت، ص27۔ 34، چراغوں میں روشنی نہ رہی، ص 3۔ 17
  59. (59)ذکر مخدوم، ص 93
  60. (60)ایضاََ، ص 109
  61. (61)ایضاََ، ص 110۔ 111
  62. (62)رہبر طریقت، ص 74
  63. (63)ذکر مخدوم، ص 113
  64. (64)ایضاََ، ص 160
  65. (65)رہبر طریقت، ص 69
  66. (66)ایضاََ، ص 68
  67. (67)انٹرویو، سید شوکت علی شاہ
  68. (68)ایضاََ
  69. (69)متاع فقر و دانش، ص 77
  70. (70)نوران شاہ، سید، حاجی، مشمولہ: نیر سمندر، مرتبہ: میاں بشیر احمد مجددی، دہلی:جے کے آفیسٹ پریس، 1997ء، ج1 ص145
  71. (71)ذکر مخدوم، ص 89
  72. (71)متاع فقر و دانش، ص 358
  73. (72)ذکر مخدوم، ص 110
  74. (73)رہبر طریقت، ص 52۔ 53
  75. (74) رہبر طریقت، ص73
  76. (75)ذکر مخدوم، ص 91
  77. (76)رہبر طریقت 37۔ 40
  78. (77)متاع فقر و دانش، ص 428
  79. (78)امام الانبیاء، ص259
  80. (79) Prem Nath Bazaz، The History of the Struggle for Freedom in Kashmir, Delhi: Kashmir Publications, 1954, P123
  81. (80) اقبال، علامہ، جاوید نامہ، مشمولہ کلیات اقبال فارسی، لاہور: مکتبہ دانیال، س ن، ص880
  82. (81) غلام نبی خیال، صدائے کشمیر،سرینگر: کشمیری رائٹرز کانفرنس، 1994ء، ص 13۔14
  83. (82) عنصر صابری، تاریخ کشمیر، لاہور: پروگریسو بکس، 1991ء، ص 140
  84. (83) نگارستان کشمیر، ص 258
  85. (84)چراغوں میں روشنی نہ رہی، ص4۔5
  86. (85) ایضاََ، ص 6۔ 7
  87. (86)رہبر طریقت، ص 71
  88. (87) نگارستان کشمیر، ص 258
  89. (88)رہبر طریقت، ص 71
  90. (89)متاع فقر و دانش، ص 121۔ 125
  91. (90)شمسی، امیر محمد، مولانا مہر الدین قمر راجوروی(مضمون)
  92. (91) امام الانبیاء، ص 259
  93. (92) ایضاََ، 10 نومبر 1947ء جب راجوری جلیانوالہ باغ بنا(مقابل اداریہ)، مشمولہ کشمیر عظمیٰ، روزنامہ، سرینگر، 23 اپریل 2014ء، ص 7
  94. (93) قمر راجوروی، مہر الدین، کشمیر کا خونی انقلاب (قلمی)، مملوکہ احمد حسین آوانہ، نواں شہر ایبٹ آباد، ص 154
  95. (94) شمسی، امیر محمد، 10 نومبر 1947ء جب راجوری جلیانوالہ باغ بنا(مقابل اداریہ)، مشمولہ کشمیر عظمیٰ، روزنامہ، سرینگر، 23 اپریل 2014ء، ص 7
  96. (95) ایضاََ، آزاد راجوری کے شب و روز(مقابل اداریہ)، مشمولہ کشمیر عظمیٰ،روزنامہ، سرینگر، 28 مئی 2104ء، ص7