قيس بن الملوح ، ملقب بہ مجنونِ ليلى (24 هـ / 645م - 68 هـ / 688), عربی غزل گو شاعر تھا، وہ نجد کا رہنے والا دیوانہ شاعر تھا۔ خلافت مروان بن الحكم وعبد الملك بن مروان اور قرن اول  کا زمانہ پایا۔

قیس کو مجنوں کا لقب ليلى عامریہ سے بے پناہ محبت کی وجہ سے ملا۔ قیس اورلیلی نے ایک ساتھ بچپن گزارا اور قیس اس کی محبت میں مبتلا رہا۔ قیس نے لیلی سے شادی کے لیے گھر کو خیر آباد کہا، وہ محبت کے اشعار گنگناتا اور ویرانوں کی خاک چھانتا رہا، اسے شام ،نجد اور حجاز میں دشت نوردی کرتے پایا گیا۔

وہ پہلا دیوانہ شاعر تھا اور دوسرا دیوانہ شاعر  قيس بن ذريح  یعنی"مجنون لبنی تھا۔. قیس بن الملوح نے68 هـ موافق 688ء میں وفات پائی۔ وہ پتھروں کے درمیان مردہ پایا گیا اور اس کی گھر والے اس کی لاش اٹھا کر لے گئے۔

نسب نامہ ترمیم

  • قيس بن الملوّح بن مزاحم بن عدس بن ربيعہ بن جعدہ بن كعب بن ربيعہ بن عامر بن صعصعة بن معاويہ بن بكر بن هوازن بن منصور بن عكرمہ بن خصفہ بن قيس عيلان بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان، العامري الهوازني۔

داستان عشق ترمیم

سیر و تراجم کا اس بات پر اجماع ہے کہ قیس لیلی کا چچازاد تھا۔ دونوں کا بچپن ایک ساتھ گذرا دونوں اپنے گھر والوں کے مویشی اکٹھے چراتے تھے اور اکٹھے کھیلتے تھے۔ قیس اپنے شعر میں کہتا ہے:

تعلَقت ليلى وهي ذات تمائمولم يبد للأتراب من ثديها حجم
صغيرين نرعى البهم يا ليت أنناإلى اليوم لم نكبر، ولم تكبر البهم

چنانچہ سيد فالح الحجية اپنی کتاب(الغزل في الشعرالعربي) میں بیان کرتے ہیں:لیلی کو اپنے چچا زاد سے محبت تھی۔ دونوں ایک ساتھ پلے بڑھے ،اکٹھے اپنے والدین کے مویشی چراتے تھے بچپن کا یہ ساتھ ان کی محبت کا سبب بنا۔ حتی کہ دونوں محبت میں وارفتگی کی انتہا کو پہنچ گئے۔ عرب صحرانشینوں کی روایت کے مطابق لیلی جب بڑی ہوئی تو اسے پردہ اختیار کرنا پڑا۔ قیس اپنے ایام گذشتہ کو یاد کر تا اور حسرت کرتا کہ کاش یہ ایام لوٹ آئیں۔ محبت و وارفتگی میں اس کی زباں پر پرتاثیر اشعار غزلیہ جاری رہتے۔ پھر قیس اپنے چچا کے پاس لیلی کا ہاتھ مانگنے گیا، اس وقت تک اس نے مہر کی خطیر رقم جمع کر لی تھی اور اس کا 50 سرخ اونٹوں پر مشتمل تھا۔  مجنوں نے اپنے گھر والوں کو چھوڑ دیا کیوں کہ عرب اس محبوبہ، جس کی محبت مشہور ہو چکی ہو، اس سے شادی کرنا باعث عار سمجھتے تھے۔

بعض روایات کے مطابق مجنوں کی گھر چھوڑنے کی وجہ مجنوں اور لیلی کے والدین کے درمیان اختلاف تھا جو میراث کی تقسیم کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔  آخرکار لیلی کی شادی طائف کے ایک شخص سے کر کے اسے طائف بھیج دیا گیا۔

لیلی کے ہجر نے قیس کی محبت کی آگ کو تیز تر کر دیا اور اسی عالم وارفتگی میں وہ فوت ہوا۔

عشق مجنوں ترمیم

  • بیان کیا جاتا ہے کہ قیس کا والد اسے اپنے ساتھ حج پر لے گیا تاکہ لیلی کی محبت کی وجہ سے اس پر جو مصائب آئے ہیں،اللہ تعالی اسے ان مصائب سے نجات دے۔ اس کے والد نے اسے کہا کہ کعبہ کے غلاف کو پکڑ کر دعا مانگو کہ خدا لیلی کی محبت سے نجات دے دے۔ قیس نے کعبہ کے غلاف سے لپٹ کر دعا مانگی:

"اے اللہ میری لیلی سے محبت کو زیادہ کر دے اور مجھے کبھی اس کی یاد سے غافل نہ کر! "

  • اسی طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ قیس، لیلی کے شوہر ورد کے پاس گیا۔ یہ شدید سردیوں کے دن تھے، ورد اپنی قوم کے سرداروں کے ساتھ، آگ کے الاؤ کے پاس بیٹھا تھا۔ قیس نے وہاں یہ اشعار فی البدیہہ کہے:
    بربّك هل ضممت إليك ليلىقبيل الصبح أو قبلت فاها
    وهل رفّت عليك قرون ليلىرفيف الأقحوانة في نداها
    كأن قرنفلاً وسحيقَ مِسكوصوب الغانيات قد شملن فاها

    (یعنی تجھے رب کا واسطہ کیا تو نے صبح ہونے سے پہلے لیلی کو آغوش میں لیا؟ یا اس کا منہ چوما؟ ۔۔۔ یا اس کی شبنمی زلفیں تجھ پر نازک پھولوں کی طرح لہرائیں؟ ۔۔۔ جیسے کہ خوشبوئیں اور مشک اس کے منہ میں درآئی ہوں؟) ورد نے کہا، جب تم نے مجھے قسم دی ہے تو جواب ہاں میں ہے۔ تو مجنوں نے اپنے ہاتھوں سے آگ کو پکڑ لیا اور اسے نہ چھوڑا یہاں تک کہ بے ہوش ہو گیا۔

    ادب میں قیس کا ذکر ترمیم

     
    مجنون ليلى هائماً في البرية, منمنمة فارسية من القرن الخامس عشر في تصوير قيس بن الملوح في كتاب بنج غنج (الكنوز الخمسة)

    لیلی مجنوں کی داستان عشق کو نہ صرف عربی ادب نے جگہ دی بلکہ فارسی ،ترکی اور اردو ادب میں بھی یہ داستان شامل رہی 

    بیرونی روابط ترمیم