لثیر غس
سرسام بلغمی یا ورم (سرسام) بلغم سے پیدا ہوتا ہے جس کا نام لثیر غس ہے۔ " لثیر غس “ کا ترجمہ نسیان (بھول) ہے۔ ثابت بن قرہ نے کہا ہے کہ “لثیر غس اس ورم سے پیدا ہوتا ہے جو بلغم سے عارض ہوتا ہے اور یہ بلغم دماغ کے اگلے حصے میں جمع ہو کر سڑ جاتا ہے۔“ اسی طرح ابن سرافیون نے کہا ہے نیز ادیب ابو الفرح نے مفتاح میں لکھا ہے علاوہ ازیں "صاحب تلخیص" اور صاحب مغنی وغیرہ مشہور و معروف اطباء قدیم نے بھی یہی بیان کیا ہے لیکن ان کے کلام قابل اعتراض ہیں۔ کیونکہ ان کے اقوال سے خاص دماغ کا ورم بھی مراد نہیں لیا جا سکتا۔ کیونکہ یہ تمام اطباء خاص دماغ میں ورم پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے اور نہ اس سے دماغی جھلیوں کا ورم مراد لیا جا سکتا ہے، جیسا کہ وہ ورم کہہ کر اس سے دماغی جھلیوں کا ورم مراد لیتے ہیں۔ جیسا کہ ہم ابن سرافیون کے قول کو قرانیطس میں بیان کر چکے ہیں۔ جہاں اس نے کہا ہے کہ “ہمارے ورم دماغ کہنے سے یہ مراد نہیں ہوتی ہے کہ ورم خاص دماغ میں پیدا ہوتا ہے بلکہ اس سے ہماری مراد اس جھلی کا ورم ہوتا ہے جو دماغ پر لپٹی ہوئی ہوتی ہے۔ کیونکہ جالینوس نے کتاب النبص کے بارہویں مقالہ میں صاف طور پر بیان کیا ہے کہ قرانیطس دماغی جھلیوں میں لثیر غس خاص دماغ میں پیدا ہوتا ہے۔علاوہ ازیں اس لیے بھی ورم دماغ سے دماغی جھلی کو مراد نہیں لیا جا سکتا ہے کہ بلغم غلیظ اور لیسدار ہونے کے باعث جھلی میں نفوذ نہیں کر سکتی اور صاحبِ کامل کا قول ہے کہ “سرسام بارد قوت حافظہ کی خرابی کا نام ہے جو یا توسؤ مزاج سرد وتر سے لاحق ہوتی ہے یا اس بلغمی مادہ سے عارض ہوتی ہے جس کا غلبہ تمام دماغ میں یا دماغ کے اگلے حصے میں ہی ہوتا ہے“ یہ قول بھی کئی وجوہ سے قابلِ اعتراض ہے:-
1. اس لیے کہ اس قول میں “سؤ مزاج سرد و تر“ مادہ کے مقابلہ میں بولا گیا ہے جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ سؤ مزاج سرد وتر سے سؤ مزاج مادی نہیں بلکہ سؤ مزاج سادہ مراد ہے۔ لیکن سؤ مزاج سادہ سے ورم ہی نہیں پیدا ہو سکتا۔ لٰہذا یہ قول غلط ہے۔
2۔ (اس لیے بھی یہ قول قابلِ اعتراض ہے کہ) اس کا یہ قول کہ “سرسام بارد حافظہ کی خرابی کا نام ہے“ اس قول کے سراسر مخالف ہے کہ “اس بلغمی مادہ سے عارض ہوتی ہے جس کا غلبہ دماغ کے اگلے حصے میں ہوتا ہے“۔
3۔ (اس لیے بھی قابلِ اعتراض ہے کہ) اس مرض کی علامات میں اِس کا قول ہے “اس کے ساتھ بلغم کی عفونت کے باعث خفیف بخار بھی ہوتا ہے۔ “یہ قول پہلے قول کے بر خلاف ہے۔کیونکہ اس کے سابقہ قول کا مفہوم یہ ہے کہ“ یہ مرض گاہے سؤ مزاج سادہ سے بھی پیدا ہوتا ہے“ (اور یہ ظاہر ہے کہ سؤ مزاج سادہ ہونے کی صورت میں نہ بلغم ہو سکتا ہے اور نہ بخار)۔
اس کے متعلق شیخ کا قول محقق اور صحیح ہے اور وہ یہ ہے کہ "لثیر غس" ورم بلغمی کو کہا جاتا ہے جو کھوپڑی کے اندر پیدا ہوتا ہے اور یہی سرسام بلغمی ہے اور یہ ورم زیادہ تر جوہر دماغ کے مجاری (راستوں) میں پیدا ہوا کرتا ہے۔ دماغ کی جھلیوں، دماغی بطون اور جوہر دماغ[1] میں نہیں پیدا ہوتا۔ کیونکہ بلغم دماغی جھلیوں میں بہت کم جمع ہوتا ہے اور نیز ان کے سخت ہونے کے باعث ان میں بہت کم نفوذ کرتا ہے اور بلغم دماغ میں بھی کم نفوذ کرتا ہے اس لیے دماغ میں لزوجت (لیس) ہے۔ جیسا کہ ذات الجنب بھی زیادہ تر صفراوی ہوا کرتا ہے بلغمی بہت کم ہوتا ہے کیونکہ بلغم ایسے جوہر (جسم) میں نفوذ کرتا ہے جو ٹھوس اور پٹھوں کے مانند سخت ہو۔ اس کے ماسوا یہ بھی ممکن ہے کہ جو لثیر غس شاذ و نادر دیکھا جاتا ہے وہ (درحقیقت) خالص بلغم سے نہ ہو بلکہ بلغم و صفراء کی آمیزش سے پیدا ہوا ہو اور شاید اس میں سُبات سہری کے ہیدا ہونے کی وجہ یہی ہے:-
جو امع اعضاء اٰلیه کے دوسرے مقالہ میں تحریر ہے کہ "دماغ میں پیدا ہونے والی بیماریوں میں سے بعض تو دماغی رگوں میں ہوتی ہیں مثلاََ سدردوار۔ اور بعض دماغی ثقب (یعنی سوراخوں) میں ہوتی ہیں نہ کہ دماغی بطون میں مثلاََ لثیر غس۔" اس تحریر سے شیخ کے قول محقق کی تصدیق ہوتی ہے لیکن سید جرجانی نے شیخ کے قول پر اعتراض کیے ہیں اور اس کو (کئی وجوہ سے) غلط قرار دیا ہے۔
1۔ کیونکہ دماغ کے مجاری ایک قسم کے خالی مسالک (خالی راستے) ہیں۔جم میں صرف روح ہی نفوذ کر سکتی ہے۔ ان میں ورم پیدا ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ان میں صرف سُدے پیدا ہو سکتے ہیں جو مرگی اور سکتہ کا موجب بنتے ہیں۔ لٰہذا یہ ورم دماغ کی جھلیوں میں یا خاص دماغ میں ہوتا ہے اور ان میں مادہ دفعتاََ نفوذ نہیں کرتا بلکہ اس طرح نفوذ کرتا ہے جس طرح کوئی چیز بھیگ جاتی ہے اور رطوبت کو جذب کر لیتی ہے۔
حکیم خواجہ رضوان احمد کے نزدیک جرجانی کا یہ قول کئی وجوہ سے قابلِ اعتراض ہے:-
ایک وجہ تو یہ ہے کہ مجاری دماغ ایسے خالی مسالک (راستے) نہیں ہیں کہ جن میں صرف ارواح ہی نفوذ کر سکتی ہیں۔ بلکہ مجاری دماغ وہ باریک باریک رگیں ہیں جو مغز (بھیجد) میں نفوذ کیے ہوئے ہیں اور ان میں سے بعض رگیں تو وہ ہیں جن کے ذریعہ دماغ کو غذا پہنچتی ہے اور وہ وریدیں ہیں اور بعض وہ ہیں جن کے ذریعہ روح قلبی پہنچتی ہیں۔ وہ شریانیں ہیں۔ چنانچہ یہ وریدیں اور شریانیں نہ تو خالی ہوتی ہیں اور نہ یہ صرف دماغی روح کے نفوذ کرنے کا مسالک ہیں۔ بلکہ ان میں روح کا نفوذ اسی طرح ہوتا ہے جس طرح کہ بدن کی دوسری وریدوں اور شریانوں میں ہوتا ہے۔ لیکن دماغ کی خالی تجاویف (جوف یا وسعتیں) جن میں روح نفوذ کرتی ہے ان کا نام بطون ہے۔[2]