للہ عارفہ
للہ عارفہ (پیدائش: 1320ء یا 1335ء[1] – وفات: 1392ء یا 1379ء[2]) آٹھویں صدی ہجری میں وادی کشمیرکی ایک عجیب و غریب شخصیت ہیں۔
للیشوری | |
---|---|
लल्लेश्वरी, لل دید | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1320 Pandrethan, کشمیر |
وفات | 1384 کشمیر |
دیگر نام | للہ، لل دید، لل دِیدِی |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، مصنفہ |
وجہ شہرت | Vatsun poetry |
درستی - ترمیم |
نام کا تنازع
ترمیمہندو کہتے ہیں کہ یہ خاتون ہندو تھیں اور ان کا نام للہ ایشوری یا لل دید تھا۔ مسلمان کہتے ہیں کہ مسلمان تھیں انھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ کشمیر کے مسلمان ان کو للہ عارفہ اور احتراماً للہ ماجہ”لل ماجی” کہتے ہیں۔ (“لل ماجی” کا مطلب ہے”بزرگ خاتون”)صوفیائے کشمیر کے تذکروں میں ان کو مسلم اولیاء اللہ میں شمار کیا گیا ہے عام طور پر لل ہی کے نام سے مشہور ہیں جو کشمیری زبان میں پیار کا لفظ سمجھا جاتا ہے۔
ولادت
ترمیمکشمیر کی یہ عظیم صوفیہ خاتون 1330ء کو سری نگر سے 6 میل دور جنوب و مشرق کی طرف سیمپور کے گاؤں میں پیدا ہوئیں۔
برہمن سے شادی
ترمیمللہ عارفہ 17 برس کی تھیں کہ ان کی شادی سیمپور سے 2 میل کے فاصلے پر واقعہ مشہور قصبے پانپور کے ایک ہندو برہمن سے کر دی گئی ۔ سسرال میں ان کا نام پدماوتی رکھا گیا۔[3] ان کا شوہر جاہل اور اجڈ تھا جونہ صرف خود آپ کو مارتا پیٹتا بلکہ آپ کی ساس بھی آپ پر بے پناہ ظلم کرتی تھی، وہ ان کے شوہر کے کان بھرتی اور لل دید کو پیٹ بھر کر کھانا بھی نہ دیتی۔ یہ سلسلہ جب حد سے گذر گیا تو للہ عارفہ خاتون حالت دیوانگی میں ویرانوں کی طرف نکل گئی۔
معرفت و سلوک
ترمیموہ صوفیوں، سادھوؤں اور رشیوں کی محفلوں میں بیٹھ کر معرفت اور شعور و آگہی کی تعلیم حاصل کرنے لگی۔ رفتہ رفتہ للہ عارفہ سلوک کی راہ میں اتنی بے خود ہو گئی کہ اس نے دیوانگی کے عالم میں معرفت و حکمت کی باتیں کرنی شروع کر دیں مشہور ولی اللہ سید سمنانی تانی جب کشمیر میں آئے تو للہ عارفہ ان کے دست حق پرست پر مسلمان ہو گئیں اور پھر ان کے حلقہ ارادت میں داخل ہو کر وقت کا بیشتر حصہ عبادت الٰہی میں گزار دیا۔
شاعری
ترمیماور صوفیانہ اشعار کہنے لگی جنہیں لوگ یاد کر لیتے۔ للہ عارفہ نے انسان دوستی کا فلسفہ پیش کیا۔ وہ اخوت، مساوات اور عدل و انصاف کی پیروکار تھی۔ للہ عارفہ خاتون کشمیری زبان کی پہلی صوفی شاعرہ ہے۔ اس کا کلام حکمت و معرفت کا خزینہ ہے۔ == وفات ==اللہ پاک ان کو جنت نصیب کرے۔۔ للہ عارفہ کی وفات کا واقعہ بھی بڑا ایمان افروز ہے کہ اس کی وفات پر ہندو اسے جلانا چاہتے تھے اور مسلمان دفن کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جب چادر ہٹائی گئی تو وہاں پھولوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ تاریخ میں اس امر کا کوئی ثبوت نہیں کہ للہ عارفہ خاتون کہاں گئی اور کہاں دفن ہے۔ (حوالہ جموں کشمیر باب آف نالج صفہ)[4][5]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ طالب الہاشمی: تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین، ص 323، مطبوعہ لاہور، 1992ء۔
- ↑ طالب الہاشمی: تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین، ص 325، مطبوعہ لاہور، 1992ء۔
- ↑ پروفیسر جیا لال کول (1961)۔ لل دید۔ سرینگر: جموں و کشمیر کلچرل اکادمی سرینگر۔ صفحہ: 6–9
- ↑ سہ ماہی تجزیات اسلام آباد
- ↑ ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین،مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی صفحہ نمبر 271 تا 275