لوپامدرا
لوپامدرا (سنسکرت: लोपामुद्रा) جو کوشیتاکی اور ورپردا [1] قدیم ویدک ہندوستانی ادب کے مطابق ایک فلسفیہ تھی۔ وہ یوگی اگستیا کی بیوی تھی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ رگ وید عہد (1950 قبل مسیح-1100 قبل مسیح) کا ہے، اس وید میں اس سے منسوب کئی بھجن شامل ہیں۔ وہ صرف اگستیا کی بیوی ہی نہ تھی بل کہ خود بھی ایک رشی تھی، جس کے رشی ہونے کی شہرت، شکتی مت روایتی ہندومت کے "پنچاداسی" منتر/بھجن میں کی گئی تصویر کشی ہے۔[2][3]
لوپامدرا | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
شہریت | بھارت |
شریک حیات | اگستیا |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنفہ ، فلسفی ، شہزادی |
درستی - ترمیم |
پیدائش و خاندان
ترمیمرگ وید میں اس کی پیدائش کی کہانی مافوق الفطرت ہے اور اس ک وایک غیر معمولی دیوی والی خصوصیات کے ساتھ ظاہر کیا گیا ہے۔ اس کی پیدائش شمالی ہندوستان کی ایک ریاست راجا ویداربھا کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جو انتہائی خوبصورت تھی اور جوان ہونے پر بہت عقلمند ثابت ہوئی، اس کی خوبصورتی اور دانش کے چرچے چار سو پھیلے تو ایک یوگی اگستیا نے راجا سے اس کا ہاتھ مانگا، یوں اس کی شادی یوگی اگستیا سے ہو گی، وا اس کو شہزادیوں والی زندگی تو نہ دے سکتا تھا، سو لوپامدرا نے اس سے علم کی دولت کا مطالبہ کیا۔ ان کا ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام دِرِڑچِیُت رکھا گیا۔[4]
شہرت
ترمیمہندو مت کی اس کی اہمیت کے کئی پہلو ہیں۔ جن میں ایک معروف پہلو، اس کا دیوی ماں کے ایک ہزار ناموں کی پوجا کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ رگ وید میں اس کے نام سے ایک بھجن بھی منسوب ہے۔[4]
فلسفہ
ترمیملوپامدرا کا فلسفہ میاں بیوی کے ایک دوسرے پر فطری حقوق فرائض کے حوالے سے شاندار مکالموں پر مشتقل ہے۔ اس کے فلسفے کا دوسرا حصہ گیان اور علم ہے، جس میں وہ علم کے مقابلے میں دھن دولت کو فغیرہ کو کچھ اہمیت نہیں رکھتے۔ اس کے فلسفے میں بے لوث محبت پر بات بھی گئی ہے، اس کا کہنا تھا کہ جو مبت بے لوث نہ ہو، وہ محبت نہیں، ہوس ہوتی ہے۔ ہوس محبت کی ضد/متضاد ہوتی ہے۔ اس کے کلاسیکل فلسفے نے جدید دور کے فلاسفروں کو بھی متاثر کیا۔[4]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Garg 1992, p. 200.
- ↑ Swami & Irāmaccantiraṉ 1993, p. 242.
- ↑ Dr. Rajeshwari Pandharipande۔ "A Possible Vision of Lopamudra!"۔ themotherdivine.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 دسمبر 2015
- ^ ا ب پ قدیم دور کی عظیم فلسفی خواتین، ملک اشفاق، صفحہ 23-24، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد، 2015ء