ماورائے ارض مائع پانی وہ پانی کی حالت ہے جو مائع صورت میں زمین سے دور پائی جاتی ہے۔ یہ کافی دلچسپی کا حامل موضوع اس لیے ہے کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ماورائے ارض حیات کے لیے اس کا ہونا چند لازمی شرائط میں سے ایک ہے۔

نظام شمسی کے پانی کے جہاں 
مریخ کے پالیکر شہابی گڑھے (جو نیوٹن شہابی گڑھے کے اندر واقع ہے)کے گرم موسمی بہاؤ ۔ اگرچہ ایک تحیر انگیز تاہم  غیر حتمی ثبوت  موجود ہے جو ماورائے ارض مائع پانی  کے بارے میں بتاتا ہے،  اس کو ابھی تک براہ راست تصدیق کہا جارہا ہے۔

سمندری پانی نے زمین کی سطح کا 71 فیصد حصّہ ڈھانپا ہوا ہے جس کے ساتھ زمین وہ واحد معلوم سیارہ ہے جس کی سطح پر مائع پانی مستحکم حالت میں موجود ہے اور مائع پانی زمین پر موجود تمام معلوم حیات کے لیے ناگزیر ہے۔ زمین کی سطح پر پانی کی مستحکم حالت کی وجہ کرۂ فضائی دباؤ اور سورج کے گرد ایک مستحکم نجمی قابل سکونت علاقے میں مدار کی موجودگی ہے، ہرچند کہ یہ ابھی تک نہیں معلوم کہ زمین پر پانی آخر آیا کہاں سے ہے۔

پانی کی موجودگی کی تصدیق کرنے کے لیے فی الوقت استعمال ہونے والے اہم طریقوں میں طیف بینی اور ارضی کیمیا ہے۔ ان طریقوں کی مدد سے کرۂ فضائی میں پانی کے بخارات اور برف کو بہتر طریقے سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال فلکی طیف بینی کے موجودہ طریقوں کا استعمال کرکے مائع پانی کا سراغ چٹانی سیاروں پر لگانا کافی مشکل کام ہے، بطور خاص زیر زمین پانے کے بارے میں۔ اس وجہ سے ماہرین فلکیات، فلکی حیاتیات دان اور سیاروی سائنس دان قابل سکونت خطے، ثقلی اور مدوجزر کے نظریہ، سیاروی امتیاز کے نمونے اور صدا پیمائی کا استعمال ممکنہ مائع پانی کے تعین کے لیے کرتے ہیں۔ بہتے ہوئے پانی کی صورت کی بجائے آتش فشانی سرگرمیوں میں استعمال ہونے والا پانی اور ضد انجماد عامل کی موجودگی جیسا کہ نمک یا امونیا بالواسطہ پانی کے ثبوت کے بارے میں زیادہ بہتر بتاتے ہیں۔

اس طرح کے طریقوں کا استعمال کرکے کافی سائنس دان قیاس کرتے ہیں کہ مائع پانی نے کبھی مریخ و زہرہ کے بڑے علاقے کو ڈھکا ہوا ہوگا۔ پانی کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ سیاروی اجسام کی سطح کے نیچے مائع حالت میں رہ سکتا ہے، جس طرح زیر زمین پانی کرۂ ارض پر ہوتا ہے۔ کبھی کبھار پانی کے بخارات کی موجودگی کو مائع پانی کی موجودگی کا حتمی ثبوت مانا جاتا ہے ہرچند کہ کرۂ فضائی میں پانی کے بخارات کافی ایسی جگہوں پر پائے جا سکتے ہیں جہاں مائع پانی نہیں پایا جاتا۔ اسی طرح نظام شمسی کے کافی سارے چاندوں اور بونے سیاروں کی سطح کے نیچے مائع پانی کے بالواسطہ ثبوت ملے ہیں۔ ان میں سے تو کچھ بڑے ماورائے ارض سمندر بھی سمجھے جاتے ہیں۔ حتمی ثبوتوں کے نہ ہونے کے باوجود یہ سمجھا جاتا ہے کہ مائع پانی دوسرے نظام ہائے سیارگان میں بھی عام پایا جاتا ہوگا اور ماورائے شمس مائع پانی کے امیدواروں کی فہرست تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

نظام شمسی میں مائع پانی ترمیم

مریخ  ترمیم

دور حاضر میں اگرچہ مریخ پر پانی کی تھوڑی سی مقدار کرۂ فضائی میں بطور آبی بخارات کے موجود ہے تاہم یہاں پر زیادہ تر پانی صرف برف کی صورت میں ہی پایا جاتا ہے۔ دور حاضر میں کچھ مائع پانی مریخ کی سطح پر عارضی طور پر نمودار ہو سکتا ہے تاہم ایسا صرف مخصوص حالات کے زیر اثر ہی ہوتا ہے۔ مریخ کی سطح پر مائع پانی کے کھڑے بڑے ذخیرے اس لیے وجود نہیں رکھتے کیونکہ سطح پر موجود فضائی دباؤ کی اوسط 600 پاسکل (0.087 psi) – یعنی زمین کے سطح سمندر کے دباؤ کا صرف 0.6 فیصد ہے – اور کیونکہ سیاروی درجہ حرارت بہت ہی کم ((210K (-63 °C ) ہے لہٰذا اس کی وجہ سے یا تو تیز رفتار تبخیر (عمل تصعید) یا تیز رفتار انجماد وقوع پزیر ہو جاتا ہے۔ 28 ستمبر 2015ء کو ناسا نے اعلان کیا کہ انھوں نے باز گرد ڈھلانوں کے خطوط کی وجہ بہتے ہوئے نمکین پانی یا آبیدہ نمک کو پایا ہے۔ 

یورپا  ترمیم

سائنس دان متفق ہیں کہ یورپا کی سطح کے نیچے مائع پانی کی تہ موجود ہے اور مدوجزر کے سکڑاؤ کی وجہ سے پیدا ہونے والی حرارت زیر سطح سمندروں کو مائع حالت میں رکھتی ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ٹھوس برف کی بیرونی پرت لگ بھگ 10 تا 30 کلومیٹر موٹی ہوگی اس میں ایک ملائم گرم برف کی تہ بھی شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اس کے نیچے مائع پانی کا سمندر 100 کلومیٹر تک گہرا ہو سکتا ہے۔ اس وجہ سے یورپا میں سمندر کا حجم زمین پر موجود سمندروں کے حجم کے مقابلے میں دو گنا سے تھوڑا زیادہ ہو سکتا ہے۔

انسیلیڈس  ترمیم

انسیلیڈس جو زحل کا ایک چاند ہے یہاں پر پانی کے چشموں کی موجودگی کی کیسینی خلائی جہاز نے 2005ء تصدیق کی اور 2008ء میں اس کا مزید گہرائی میں تجزیہ کیا۔ 2010-2011ء میں ثقل پیما سے حاصل کردہ اطلاعات زیر زمین سمندر کی موجودگی کی تصدیق کرتی ہیں۔ اگرچہ پہلے یہ مانا جاتا تھا کہ یہ مقامی ہوگا جس کا زیادہ تر حصّہ جنوبی نصف کرہ میں ہوگا، تاہم 2015ء میں حاصل شدہ ثبوت بتاتے ہیں کہ زیر سطح سمندر اپنی ہیئت میں پورے چاند پر پھیلا ہوا ہے۔

جنوبی قطب کی ریخوں کے پاس موجود پانی کے علاوہ ان چشموں میں تھوڑا سا نمک، نائٹروجن، کاربن ڈائی آکسائڈ اور طیران پزیر ہائیڈرو کاربن کی مقدار بھی شامل ہے۔ سمندر کے پانی کے پگھلاؤ اور چشموں کا سبب زحل سے پیدا ہونے والے مدوجزر کی وجہ سے سمجھا جاتا ہے۔ 

گینامیڈ  ترمیم

ہبل خلائی دوربین سے کی جانے والے 2015ء میں کیے گئے مشاہدات کے بعد مشتری کے چاند گینامیڈ پر ایک زیر سطح سمندر کا قیاس کیا جاتا ہے۔ قطبی روشنیوں کی پٹی اور مقناطیسی میدان کی جھونک بتاتی ہے کہ وہاں پر سمندر موجود ہے۔ اندازہ ہے کہ اس کی گہرائی 100کلومیٹر ہوگی جہاں اس کی سطح 150کلومیٹر برف کی تہ کے بعد ہوگی۔

سراغ لگانے اور تصدیق کرنے کے طریقے ترمیم

زیادہ تر معلوم ماورائے شمس نظام ہائے سیارگان نظام شمسی کی ہیئت سے کافی الگ لگتے ہیں اگرچہ اس بات کا امکان اپنی جگہ موجود ہے کہ ایسا سراغ لگانے کے طریقوں کی وجہ سے ہوا ہو۔

طیف بینی  ترمیم

 
مائع پانی کے جذبی طیف 
 
مریخ کے مشتبہ موسمی بہاؤ کے طیف بینی کے تجزیہ میں مائع پانی کا سراغ نہیں ملا۔

ماورائے ارض مائع پانی کے سراغ لگانے اور اس کی تصدیق کرنے کا سب سے بہتر طریقہ جو حال ہی میں رائج ہے وہ جذبی طیف پیمائی ہے۔ مائع پانی کے طیفی نشان پانی کی دوسرے حالتوں کے مقابلے میں کافی الگ ہوتے ہیں جس کی وجہ ہائیڈروجن کے بند ہیں۔ ماورائے ارض پانی کے بخارات اور برف کی تصدیق ہونے کے باوجود مائع پانی کے طیفی نشانوں کی ابھی تصدیق ہونی باقی ہے۔ چٹانی سیاروں کی سطح پر موجود پانی کے نشان موجودہ فنیات کا استعمال کرکے ناقابل سراغ ہو سکتے ہیں جس کی وجہ خلاء کے وسیع فاصلوں پر پھیلا ہوا کثیف کرۂ فضائی ہے ۔

مریخی گرم ڈھلانوں پر ہونے والے موسمی بہاؤ نمکین مائع پانی کا ٹھوس ثبوت ہیں تاہم ابھی اس کا اشارہ طیف بینی تجزیہ میں آنا باقی ہے۔

کافی اجسام میں پانی کے بخارات کی موجودگی کی تصدیق کو بذریعہ طیف بینی کیا جا چکا ہے اگرچہ یہ خود سے مائع پانی کی موجودگی کی تصدیق نہیں کرتی۔ بہرحال جب اس کو دوسرے مشاہدات کے ساتھ ملا کر دیکھا جاتا ہے تو اس کے ممکن ہونے کا قیاس کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر GJ 1214 b کی کثافت بتاتی ہے کہ اس کی کمیت کا زیادہ تر حصّہ پانی ہوگا اور بعد میں ہبل خلائی دوربین سے لگائے جانے والے پانی کے بخارات کی موجودگی کے سراغ نے بتایا کہ اجنبی مادّے جیسے کہ 'گرم برف' یا فوق سیال پانی' بھی موجود ہو سکتا ہے۔

ارضیاتی اشارے  ترمیم

تھامس گولڈ نے توثیق کی ہے کہ نظام شمسی کے کافی اجسام ممکنہ طور پر زیر سطح پانی رکھ سکتے ہیں۔

یہ سمجھا جاتا ہے کہ مائع پانی مریخی زیر سطح موجود ہو سکتا ہے۔ محققین تجویز کرتے ہیں کہ ماضی میں سطح پر مائع پانی بہتا تھا جس نے زمین کے سمندروں جیسے بڑے علاقے بنائے ہوں گے۔ بہرحال یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ وہ پانی کہاں گیا۔ کافی زیادہ بالواسطہ یا بلا واسطہ ثبوت موجود ہیں جو پانی کی موجودگی کو سطح یا زیر سطح بتاتے ہیں مثلاً نہریں، قطبی ٹوپیاں، طیف بینی پیمائشیں، کٹے ہوئے شہابی گڑھے اور ان معدنیات (جیسا کہ گوتھائٹ ) کی موجودگی جن کو بننے کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیو فزیکل جرنل میں ایک مضمون میں سائنس دانوں نے انٹارکٹکا میں واقع جھیل وستوک کی تحقیق کی اور دریافت کیا کہ اس کے مائع پانی کے مضمرات مریخ پر اب بھی ہو سکتے ہیں۔ ان کی تحقیق کے ذریعہ، سائنس دانوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر جھیل وستوک دائمی ثلجی دور کے شروع ہونے سے پہلے وجود رکھتی تھی تو اس کا مطلب یہ تھا کہ جھیل اپنی تہ تک مکمل منجمد نہیں ہوئی تھی۔ اس قیاس کی وجہ سے سائنس دان کہ سکتے ہیں کہ اگر پانی مریخ کے قطبی ٹوپیوں کے بننے سے پہلے موجود تھا تو امکان ہے کہ برفیلی ٹوپی کے نیچے اب بھی مائع پانی موجود ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ وہ حیات کے ثبوت بھی رکھتا ہو۔

منتشر میدان یورپا کی سطح پر پائی جانے والی عام صورت ہے جس کو لوگ ایسے علاقے کہتے ہیں جہاں زیر زمین سمندر برفیلی قشر کے اندر سے پگھل گئے ہوں گے۔

آتش فشانی ثبوت  ترمیم

 
انسیلیڈس جیسے اجسموں میں برفیلے آتش فشانوں کا ایک ممکنہ  میکانیہ 

زحل کے چاند انسیلیڈس اور مشتری کے چاند یورپا پر چشمے پائے گئے ہیں۔ ان میں موجود پانی کے بخارات گہرائی میں موجود پانی کا اشارہ ہو سکتے ہیں۔ وہ برف بھی ہو سکتی ہے۔ جون 2009ء میں انسیلیڈس میں زیر زمین سمندر کے ثبوت ملے ہیں۔ 3 اپریل 2014ء کو ناسا نے بتایا کہ کیسینی خلائی جہاز نے زحل کے چاند انسیلیڈس پر زیر زمین مائع پانی کے سمندر کا سراغ لگایا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق زیر سطح سمندر بتاتا ہے کہ انسیلیڈس ہمارے نظام شمسی میں ان جگہوں میں سے ایک ہے جو "خرد حیات کے لیے میزبانی" سر انجام دے سکتا ہے۔

ثقلی ثبوت  ترمیم

سائنس دنوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مائع پانی کی ایک پرت یورپا کی سطح کے نیچے موجود ہے اور مدوجزر سے آنے والی توانائی کی بدولت زیر زمین سمندر مائع حالت میں برقرار رہتے ہیں۔

زیر زمین سمندر کا سب سے پہلا سراغ مدوجزر(یورپا کے تھوڑے سے بیضوی مدار اور دوسرے گلیلائی مہتابوں کے ساتھ گمگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی) حرارت کے نظریات سے ملا۔

کیسینی خلائی جہاز سے ثقلی پیمائش کا استعمال کرتے ہوئے سائنس دانوں نے انسیلیڈس کی قشر کے نیچے بھی پانی کے ایک سمندر کی تصدیق کی ہے۔

نظام شمسی کے دوسرے مہتابوں میں پانی کی تہوں کا پتا لگانے کے لیے اس طرح کے مدوجزر کے نمونوں کو بطور نظریات کے استعمال کیا گیا ہے۔

کثافت کا حساب  ترمیم

 
سیلیڈس کے زیر سطح سمندر کی 2014ء میں ہونے والی تصدیق  جس  کا حساب ثقلی پیمائش   اور کمیت کا اندازہ لگا کر  ایک مصور نے اپنا تخیل  استعمال کیا۔

سیاروی سائنس دان کثافت کا حساب لگا کر سیارے کی بناوٹ اور ان میں پانی موجود ہونے کی اہلیت کا تعین کرسکتے ہیں، یہ طریقہ بہت زیادہ درست نہیں ہے کیونکہ مختلف مرکبات اور حالتیں اسی قسم کی کثافت پیدا کرسکتی ہیں۔

زحل کے چاند ٹائٹن کی سطح کے نیچے مائع پانی اور امونیا کی تہ کا سراغ لگانے کے لیے سائنس دان کیسینی کھوجی سے نکلنے والی پست تعدد ارتعاش کا استعمال کرتے ہیں جو چاند کی کثافت کے حساب سے میل کھاتی ہیں۔

کینکری 55 کی پست کثافت کے ابتدائی تجزیے سے پتا لگا کہ یہ 30 فیصد حد درجہ نازک سیال پر مشتمل ہے جس کے لیے میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والی ڈیانا ولینشیا نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وہ نمکین حد درجے نازک پانی پر مشتمل ہوگا، اگرچہ بعد میں عبور کے دوران کیے گئے تجزیوں میں پانی یا ہائیڈروجن کے سراغ لگانے میں ناکامی ہی ہوئی۔

جی جے 1214b (کوروٹ - 7 b) کے بعد تعین کردہ کمیت اور نظام شمسی کے دیوہیکل سیاروں کے مقابلے میں کم نصف قطر رکھنے والا دوسرا ماورائے شمس سیارہ تھا۔ اس کا حجم زمین کے مقابلے میں تین گنا زیادہ جبکہ ضخامت 6.5 گنا زیادہ تھی۔ اس کی کم کمیت بتاتی ہے کہ یہ ممکنہ طور پر چٹانوں اور پانی کا آمیزہ ہے، اورایسا لگتا ہے کہ جیسے ہبل سے بعد میں کیے جانے والے مشاہدات تصدیق کرتے ہیں کہ اس کی کمیت کا بڑا حصّہ پانی ہے، لہٰذا وہ بڑی پانی کی دنیا ہے۔ بلند درجہ حرارت اور دباؤ کی وجہ سے اجنبی مادّے جیسا کہ 'گرم برف' یا ' فوق سیال پانی' بن سکتے ہیں۔

تابکار انحطاط کے نمونے  ترمیم

نظام شمسی کے چھوٹے برفیلے اجسام کے حرارتی برقراری اور حرارت کے نمونے بذریعہ تابکار انحطاط بتاتے ہیں کہ ریا، ٹائٹینیا، ابرائین، ایرس، سیڈنا اور اورکس میں بھی ٹھوس برف کی 100 کلومیٹر دبیز تہ کے نیچے سمندر موجود ہو سکتے ہیں۔ ان کی صورت حال میں جو دلچسپ بات ہے وہ یہ کہ نمونے بتاتے ہیں کہ مائع پرتوں کا چٹانی قلب سے براہ راست رابطہ ہے، جس کی وجہ سے معدنیات اور نمکیات اچھی طرح سے پانی میں مل سکتی ہیں۔ یہ ان سمندروں کے برعکس ہے جو بڑے سیارچوں جیسا کہ گینی میڈ، کیلستو یا ٹائٹن کے اندر موجود ہو سکتے ہیں، جہاں پر بلند دباؤ کے مرحلے کیبرف کی پرتوں کو مائع پانی کی پرت کے نیچے سمجھا جاتا ہے۔

تابکار انحطاط کے نمونے بتاتے ہیں کہ MOA-2007-BLG-192Lb جو ایک چھوٹا سیارہ چھوٹے ستارے کے گرد مدار میں چکر لگا رہا ہے اتنا گرم ہو سکتا ہے جتنی زمین ہے اور مکمل طور پر بہت گہرے سمندر سے ڈھکا ہوا ہو سکتا ہے۔

اندرونی امتیازی نمونے  ترمیم

 
خاکے میں سیریز کی  ممکنہ  اندرونی  ساخت دکھائی گئی ہے۔  
 
یورپا کی بناوٹ کے دو نمونے  ایک بڑے مائع پانی کے سمندر کا بتاتے ہیں۔ اسی طرح کے نمونے نظام شمسی میں واقع دوسرے سماوی اجسام کے بارے میں پیش کیے گئے ہیں۔

نظام شمسی کے اجسام کے نمونے پانی کی موجودگی ان کے اندرونی امتیاز میں بتاتے ہیں۔

کچھ نمونے بونے سیارے سیریز، جو سیارچوں کی پٹی میں سب سے بڑا جسم ہے، کے بارے میں گیلی اندرونی پرت کے بارے میں اشارہ دیتے ہیں بونے سیارے سے خارج ہونے والے پانی کے بخارات کا سراغ شاید اس بات کا اشارہ ہیں کہ سطح کی برف میں عمل تصعید جاری ہے۔

ایک سیاروی مائع پانی کی پرت کی موجودگی ٹائٹن، یورپا اور کچھ کم یقین کے ساتھ کیلسٹو، گینی میڈ اور ٹرائیٹن پر سمجھی جاتی ہے جو اتنی دبیز ہے کہ قشر اور غلاف توانائی کا تبادلہ نہیں کرسکتے۔ دوسرے برفیلے چاندوں میں بھی اندرونی سمندر موجود ہو سکتے ہیں یا کبھی سمندر موجود ہوں گے جو اب منجمد ہو گئے ہوں گے۔

قابل سکونت علاقے  ترمیم

 
ایپسیلون  اینڈرومیڈا  ڈی کا مصور کا خیال  جس میں اس نے جماعت دوم کے سیارے کو بنانے کی کوشش کی ہے  جس میں پانی کے بخارات کے بادل  ایک بڑے قیاسی چاند  سے دیکھے جا رہے ہیں جس کی سطح پر مائع پانی موجود ہے 

ستارے کے قابل رہائش علاقے کے گرد سیارے کے مدار کا استعمال کرکے اس کی سطح پر پانی کی موجودگی کا اندازہ لگانا ایک مشہور طریقہ ہے۔ قابل سکونت علاقے کا نظریہ کافی سارے ماورائے شمس سیاروں کو مائع پانی کا امید وار بنا دیتا ہے، اگرچہ یہ کافی زیادہ قیاس پر مبنی ہوتا ہے کیونکہ سیارے کا صرف اکیلا سیارے کا مدار ہی اس کی سطح پر مائع پانی کی موجودگی کی ضمانت نہیں دیتا۔ اپنی کلاس کے علاوہ میں، ایک بڑے پیمانے پر اعتراض گرہوں مائع پانی اور اس کی سطح پر یا اس کے قریب ہائیڈروجن اور آکسیجن کی کافی فراہمی کی حمایت کرنے کے لیے کافی وایمنڈلیی دباؤ کے لیے کی صلاحیت ہونا ضروری ہے۔ اس کے مدار کے علاوہ، ایک سیاروی کمیت کے جسم میں اتنا کرۂ فضائی کا دباؤ موجود ہونہ چاہیے کہ مائع پانی کو سہارا دے سکے اور سطح پر یا اس کے قریب ہائیڈروجن اور آکسیجن کی کافی رصد بھی ہونی چاہیے۔

گیلز 581 کا نظام کافی ایسے سیارے رکھتا ہے جو سطحی پانی رکھنے والے امید وار ہو سکتے ہیں، بشمول گلیز 581c کے، گیلز 581d شاید سمندر رکھنے جتنا گرم ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہاں پر نباتاتی خانے کا اثر جاری ہو۔

گلیز 667 c کے تین ایسے سیارے ہیں جو قابل سکونت علاقے میں موجود ہیں بشمول گلیز 667Cc کے جس کے بارے میں اندازہ ہے کہ وہاں زمین جیسا سطحی درجہ حرارت ہوگا اور مائع پانی کی موجودگی کا زبردست امکان ہے۔

کیپلر-22B کیپلر دوربین سے پائے جانے والے اوّلین 54 امیدواروں میں سے ایک ہے جس کا حجم زمین کے مقابلے میں 2.4 زیادہ ہے، جبکہ درجہ حرارت کا اندازہ 22 °C ہے۔ اس کو سطحی پانی رکھنے والے کے طور پر بیان کیا جاتا ہے اگرچہ اس کی بناوٹ ابھی معلوم نہیں ہے۔

ناسا کی سیارہ شناس کیپلر خلائی دوربین نے اپنے ابتدائی چار ماہ میں جو 1,235 ممکنہ ماورائے شمس سیاروں کا سراغ لگایا تھا ان میں سے 54 اپنے مرکزی ستارے کے گردقابل سکونت گولڈی لاکس خطے میں مدار میں چکر لگا رہے تھے جہاں مائع پانی وجود رکھ سکتا ہے۔ ان میں سے پانچ لگ بھگ زمین کے حجم کے ہیں۔

6 جنوری 2015ء میں ناسا نے مئی 2009ء سے اپریل 2013ء کے دوران کیے جانے والے مزید مشاہدات کا اعلان کیا جس میں آٹھ امید وار زمین کے حجم والے یا اس سے دوگنے ایسے تھے جو قبل سکونت علاقے میں چکر لگا رہے تھے۔ ان آٹھ میں سے چھ ایسے تھے جو سورج جیسے حجم و درجہ حرارت والے ستاروں کے گرد چکر لگا رہے تھے۔ تین نئے تصدیق شدہ ماورائے شمس سیاری سورج جیسے ستاروں کے گرد قابل سکونت علاقوں میں پائے گئے ہیں: تین میں سے دو کیپلر - 438b اور کیپلر - 442b، لگ بھگ زمین جیسے حجم اور چٹانی ہیں؛ تیسرا کیپلر - 440b، ایک فوق ارض ہے۔

تاریخ  ترمیم

قمری ماریا چاند پر سنگ سیاہ کے وسیع میدان ہیں جن کے بارے میں پہلے کے خلانورد کا خیال تھا کہ وہ پانی کے اجسام ہیں جو انھیں "سمندر" کہا کرتے تھے۔ گلیلیو نے قمری 'سمندروں' کے بارے میں کچھ خدشات اپنے دو خاص جہانوں کے نظام سے متعلق مکالمے میں ظاہر کیے۔[ا]

خلائی کھوجیوں کو چھوڑنے سے پہلے، زہرہ پر سمندر کا تصور کافی معتبر سائنسی خیال تھا، تاہم سیارہ کافی سے بھی زیادہ گرم پایا گیا۔

گلیلیو کے وقت سے دوربین سے کیے جانے والے مشاہدات بتاتے ہیں کہ مریخ کے خدوخال ایسے نہیں ہیں کہ وہاں پر سمندر موجود ہو۔ مریخ کی خشکی کو بہت پہلے سے جان لیا گیا تھا اور اس نے مریخی مصنوعی نہروں پر سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔

ماضی میں سطح پر موجود پانی کے ثبوت  ترمیم

 
ارضیاتی اعداد و شمار کی بنیاد پر قدیمی مریخ کس طرح کا نظر آتا ہوگا، ایک مصور کا تخیل۔

فرض کیجئے کہ دیو ہیکل تصادم کا نظریہ درست ہے، تو چاند پر کبھی بھی حقیقی دریا یا سمندر موجود نہیں ہو سکتے تھے، شاید کچھ تھوڑی سی نمی (مائع یا برف) کچھ جگہ پر ہوتی جب چاند کا مہین کرۂ فضائی پھٹتے ہوئے آتش فشانوں یا برفیلے اجسام کے تصادم سے بنا تھا۔

ڈان خلائی کھوجی نے سیارچہ ویسٹا پر ماضی کے پانی کے ممکنہ بہاؤ کے ثبوت پائے ہیں، جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی برف کے ذخیروں کے متعلق قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔

خلانوردوں نے اندازہ لگایا کہ زہرہ میں پانی تھا اور شاید اس کی ابتدائی تاریخ میں سمندر بھی تھے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ زہرہ اپنی ارضیاتی سرگرمی کی وجہ سے دوبارہ بنا، لہٰذا قدیمی سمندروں کے نظریے کی جانچ کافی مشکل ہے۔ چٹان کے نمونے شاید کسی دن جواب دے سکتے ہیں۔

کسی وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ مریخ زمین جیسی صورت سے خشک ہوا ہوگا۔ شہابی گڑھوں والی سطح کی ابتدا میں دریافت نے اس طرح کے منظر نامے کو رد کر دیا، تاہم مزید حاصل ہونے والے ثبوت نے اس خیال کو بدل دیا۔ مریخ کی سطح پر ماضی بعید میں مائع پانی موجود ہو سکتا تھا اور مریخ پر موجود کئی طاس خشک سمندر کے پیندوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ سب سے بڑا وسٹیٹاس بوریلس ہے؛ دوسروں میں ہیلس پلانیشیا اور ارگیر پلانیشیا شامل ہیں۔

فی زمانہ اس بات پر کافی بحث جاری ہے کہ آیا مریخ پر اس کے شمالی نصف کرہ میں کبھی پانی کا سمندر موجود تھا یا نہیں اور اگر وہ موجود تھا تو پھر اس کا کیا ہوا۔ مریخی کھوجی جہاں گردوں کی حالیہ مہمات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں پر کم از کم ایک جگہ پر کافی لمبے عرصے کھڑا رہنے والا پانی تھا، تاہم اس کی وسعت معلوم نہیں ہے۔ آپرچونیٹی مریخی جہاں گرد نے معدنیات کی روشن رگوں کی تصاویر لیں جس سے مائع پانی کے ذخیرے کی حتمی تصدیق ہو گئی۔

9 دسمبر، 2013ء کو ناسا نے ایولس پالس کے قریب ماؤنٹ شارپ میں واقع گیل شہابی گڑھے کی کیوریوسٹی جہاں گرد سے کی جانے والی تحقیق کی بنیاد پر بتایا کہ سیارہ مریخ پر تازہ پانی کی بڑی جھیل تھی (جس کا ماحول خرد حیات کے لیے قابل حلیم ہو سکتا تھا)۔

دم دار ستاروں کے اندر پانی  ترمیم

دم دار ترے پانی کی برف کے بڑے حصّے پر مشتمل ہوتے ہیں، تاہم اپنے حجم اور سورج سے دوری کی وجہ سے انھیں عام طور پر مکمل طور پر جما ہوا سمجھا جاتا ہے۔ تاہم وائلڈ دوم سے جمع کی گئی مٹی پر کی گئی تحقیق دم دار تارے کے اندر ماضی میں کسی وقت مائع پانی کی موجودگی کے ثبوت کا بتاتی ہے۔ یہ بات اب تک واضح نہیں ہوئی کہ وہ کیا چیز تھی جس نے دم دار تارے کی کچھ پانی کی برف کو پگھلا دیا تھا۔

بہر حال، 10 دسمبر 2014ء، سائنسدانوں نے بتایا کہ دم دار ستارے چریموف-جیرامینسکو کے پانی کے بخارات کی ہیئت جس کا تعین روزیٹا خلائی جہاز نے کیا تھا وہ زمین پر پائے جانے والے پانی سے معقول حد تک مختلف تھی۔ یعنی کہ دم دار ستارے سے حاصل ہونے والے پانی میں ڈیوٹیریم کی ہائیڈروجن سے نسبت ارضی پانی پر پائے جانے والے پانی سے تین گنا تھی۔ سائنس دانوں کے مطابق اس وجہ سے اس بات کا امکان کافی کم ہو گیا کہ زمین پر پایا جانے والا پانی دم دار ستاروں جیسا کہ چریموف-جیرامینسکو سے آیا ہو۔

ماورائے ارض قابل سکونت علاقے امید وار برائے پانی  ترمیم

زیادہ تر معلوم ماورائے شمس نظام ہائے سیارگان نظام شمسی کی بناوٹ سے الگ لگتے ہیں اگرچہ یہ بات ممکن ہو سکتی ہے کہ ان کے سراغ لگانے کے طریقوں کی وجہ سے نمونے میں تعصب موجود ہو۔

حالیہ تلاش کا مقصد ان نظام ہائے سیارگان کے رہنے کے قابل خطے میں زمین کے حجم کے سیارے تلاش کرنا ہے (اکثر ان کو گولڈی لاکس زون بھی کہا جاتا ہے)۔ سمندروں والے سیاروں میں دیوہیکل سیاروں کے زمین کے حجم جتنے والے چاند بھی شامل ہیں، اگرچہ اس طرح کے 'چاندوں' کی حقیقی موجودگی ابھی بھی کافی قیاسی ہے۔ کیپلر دوربین اتنی حساس ہو سکتی ہے کہ ان کا سراغ لگا سکے۔ تاہم اس طرح کے ثبوت موجود ہیں کہ پانی کی میزبانی کرتے چٹانی سیارے پوری ملکی وے میں عام ہوں گے۔

گلیز  667 C - تین سیارے  ترمیم

شروع میں گلیز 667Cc کو گلیز 66C کے گرد دو 'فوق ارض' سیاروں میں سے ایک کہا گیا، جو اصل میں ایک مدھم سرخ سیارہ ہے جو تہرے ستارے کے نظام کا حصّہ ہے۔ اس نظام کے ستاروں میں بھاری عناصر کا ارتکاز ہمارے سورج کے مقابلے میں صرف 25 فیصد ہے۔ اس طرح کے عناصر ارضی سیاروں کی بنیاد ہوتے ہیں لہذا اس طرح کے نجمی نظاموں میں کم کمیت کے سیاروں کی فراوانی غیر معمولی سمجھی جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پہلے سمجھے جانے کے مقابلے میں رہنے کے قابل سیارے کافی متنوع فیہ ماحول میں بن سکتے ہیں۔

گلیز 667Cc، ایک مدھم سرخ سیارے کے گرد تنگ 28 دن کے مدار میں رہتے ہوئے لازمی طور پر زمین کے مقابلے میں 90 فیصد روشنی حاصل کرتا ہوگا، تاہم اس کی زیادہ تر آتی ہوئی روشنی زیریں سرخ طیف کی ہوتی ہے، اس آتی ہوئی توانائی کی زیادہ تعداد سیارہ جذب کرلیتا ہوگا۔ سیارہ اپنے ستارے سے اتنی ہی توانائی جذب کرتا ہوگا جتنی زمین سورج سے کرتی ہے، جس کی وجہ سے سطح کا درجہ حرارت زمین جیسا ہوگا اور شاید وہاں مائع پانی بھی ہو۔

جون 2013ء میں شائع ہونے والے مزید کام نے بتایا کہ نظام کے چھ سیارے ہیں اور ان میں سے تین قابل سکونت والے علاقے میں موجود ہیں۔

جے جی 1214بی  ترمیم

جی جے 1214b (کوروٹ - 7 b) کے بعد تعین کردہ کمیت اور نظام شمسی کے دیوہیکل سیاروں کے مقابلے میں کم نصف قطر رکھنے والا دوسرا ماورائے شمس سیارہ تھا۔ اس کا حجم زمین کے مقابلے میں تین گنا زیادہ جبکہ ضخامت 6.5 گنا زیادہ تھی۔ اس کی کم کمیت بتاتی ہے کہ یہ ممکنہ طور پر چٹانوں اور پانی کا آمیزہ ہے، اورایسا لگتا ہے کہ جیسے ہبل سے بعد میں کیے جانے والے مشاہدات تصدیق کرتے ہیں کہ اس کی کمیت کا بڑا حصّہ پانی ہے، لہٰذا وہ بڑی پانی کی دنیا ہے۔ بلند درجہ حرارت اور دباؤ کی وجہ سے اجنبی مادّے جیسا کہ 'گرم برف' یا ' فوق سیال پانی' بن سکتے ہیں۔

ایچ ڈی 85512 بی ترمیم

HD 85512 b اگست 2011ء میں دریافت ہوا تھا۔ یہ زمین سے کافی بڑا تاہم اتنا چھوٹا ہے کہ ممکنہ طور پر چٹانی سیارہ ہوگا۔ یہ اپنے ستارے کے قابل سکونت خطے کے کنارے پر ہے اور ہو سکتا ہے کہ مائع پانی بھی رکھتا ہو اور یہ حیات کو سہارا دینے والے ممکنہ جہاں کا امیدوار ہو سکتا ہے۔

کپٹین  بی  ترمیم

کپٹین b ایک فوق عرض ہے جو کپٹین ستارے کے قابل سکونت علاقے کے اندر چکر لگا رہا ہے جو 13 نوری برس دور اور 11 ارب برس پرانا ہے۔

کیپلر -22 بی  ترمیم

کیپلر-22B ایک ایسا سیارہ ہے جس کا حجم زمین سے 2.4 گنا زیادہ ہے جس کے درجہ حرارت کا تخمینہ 22 °C ہے۔ یہ ان 54 امیدواروں میں سے ایک تھا جس کو کیپلر دوربین نے تلاش کیا تھا اور فروری میں اس کو قابل رہائش بتایا گیا۔ یہ ان میں سے پہلا ہے جس کی رسمی تصدیق دوسری دوربینوں کا استعمال کرکے کی گئی۔ اس کی ساخت اس وقت نامعلوم ہے۔ کافی امکان اس بات کا ہے کہ یہ سمندری سیارہ ہوگا جہاں کوئی خشک زمین موجود نہیں ہوگی جس کی وجہ اس کا بڑا حجم اور بڑی کمیت ہے جو ارضی سیاروں اور گیس دیو کے درمیان کی ہے۔

کیپلر - 62 ای اور کیپلر  -62 ایف  ترمیم

کیپلر 62 ستارے کے دو سیارے قابل سکونت علاقے میں ہیں۔ کیپلر-62F زمین کے مقابلے میں صرف 40 فیصد زیادہ بڑا ہے، جس کی وجہ سے یہ کیپلر - 186f کے دریافت ہونے تک دوسرے ستارے کے قابل سکونت علاقے میں موجود وہ ماورائے ارض سیارہ تھا جو ہمارے اپنے سیارے کے حجم کے قریب تر تھا۔ کیپلر 62e-رہنے کے قابل خطے کے اندرونی کنارے پر مدار میں موجود ہے اور لگ بھگ زمین سے 60 فیصد زیادہ بڑا ہے۔

کیپلر  - 69 سی  ترمیم

یہ بڑا چٹانی سیارہ کیپلر 69 کے قابل سکونت علاقے کے اندر مدار میں ہے، جو ہمارے سورج جیسا ہی ہے اور زمین سے 70 فیصد زیادہ ضخیم ہے۔

کیپلر  - 186 ایف  ترمیم

کیپلر-186f زمین سے صرف 10 فیصد زیادہ بڑا ہے اور سرخ بونے ستارے کیپلر-186 کے قابل سکونت علاقے کے اندر ہے۔ 17 اپریل 2014ء کو جب یہ اعلان ہوا، تو اس کو اس وقت تک دریافت ہونے والے سیاروں میں سب سے زیادہ زمین کے حجم کا بیان کیا گیا۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

وضاحتی  نوٹس 

  1. 'سلویاتی، جو عام طور پر گلیلیو کا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں، کہتے ہیں:

    میں تب کہتا ہوں کہ اگر قدرت میں کوئی ایسا واحد طریقہ ہوتا جو سورج سے ضو فشاں ہوتا تاکہ کوئی ایک دوسرے سے زیادہ روشن دکھائی دے اور اس طرح سے ایک زمین کو بناتا جبکہ دوسرا پانی کو، یہ بات کہنا لازمی ہوتی کہ چاند کی سطح جزوی طور پر میدانی ہے اور جزوی طور پر آبی ہے۔ تاہم کیونکہ ہمارے پاس یہ جاننے کے لیے مزید راستے موجود ہیں جو اسی اثر کو پیدا کرسکتے ہیں اور شاید دوسرے ایسے بھی ہیں جن کو ہم نہیں جانتے، لہذا میں اس بات کی جرت نہیں کروں گا کہ چاند پر کسی ایک کی تصدیق دوسرے کے مخالف کروں۔۔۔ چاند پر جو چیز واضح دکھائی دیتی ہے وہ یہ کہ تمام تاریک حصّے میدانی ہیں، جن کے درمیان کچھ چٹانی اور پہاڑیاں ہیں، اگرچہ یہ بھی کم ہیں۔ روشن باقیات چٹانوں، پہاڑیوں، گول ڈھلوانوں اور کچھ دوسری ساختوں سے بھری ہوئی ہیں، خاص طور پر نشان کے ارد گرد کافی عظیم پہاڑوں کے سلسلے موجود ہیں۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ قمری جہان کا مادّہ زمین و پانی نہیں ہے اور صرف یہی اتنا کافی ہے ہماری جیسی تبدیلیوں اور نسلوں کو بجائے رکھے۔

اقتباس حوالہ

بیرونی روابط  ترمیم