ماچس لکھنؤی (پیدائش: 1918ء – وفات: 26 اگست 1970ء) اُردو کے نامور مزاح نویس تھے۔

ماچس لکھنؤی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1918ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لکھنؤ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 26 اگست 1970ء (51–52 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لکھنؤ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (1918–15 اگست 1947)
بھارت (15 اگست 1947–20 اگست 1970)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

پیدائش و خاندان

ترمیم

ماچس لکھنؤی کا پیدائشی نام میرزا محمد اقبال تھا جنہیں عموماً لوگ ایم ایم اقبال کے نام سے بھی پکارتے تھے۔ ماچس لکھنؤی کی پیدائش 1918ء میں لکھنؤ میں اُن کے آبائی مکان محلہ کاظمین گیٹ میں ہوئی۔ مالک رام نے سالِ پیدائش 1913ء لکھا ہے۔ ماچس کا سلسلۂ نسب اَوَدھ کے شاہی خاندان سے ملتا ہے۔ نواب اودھ محمد علی شاہ جو سلطنتِ اَوَدھ کے تیسرے فرمانرواء تھے، اُن کی متعدد اولادیں تھیں جن میں سے دو بیٹے میرزا رفیع الشان اور میرزا فرخندہ بخت بھی تھے۔ میرزا فرخندہ بخت کے پوتے میرزا مہدی حسین ابن میرزا رضا علی ہی ماچس لکھنؤی کے والد تھے۔ دوسرے شاہزادے میرزا رفیع الشان کے بیٹے میرزا ابراہیم علی (جن کا تخلص عیشؔ تھا) کی دختر سلطان جہاں بیگم کا عقد نکاح میرزا مہدی حسین سے ہوا تھا۔اِس اعتبار سے ابراہیم علی عیشؔ ماچس لکھنؤی کے نانا تھے۔[1]

تعلیم

ترمیم

ماچس کے والد میرزا مہدی حسین نے عین حالتِ جوانی میں 1949ء میں وفات پائی۔ محدود ذرائع معاش کے باعث فراغت کا تو کیا ذکر؟ گذر اوقات بھی بمشکل ہوتی تھی۔ چنانچہ اُن کے بچوں کی معقول طریقہ پر تعلیم بھی مکمل نہ ہو سکی۔ ماچس بھی مدرسہ میں مڈل سے آگے نہ بڑھ سکے۔ وہ محلہ نوبستہ کے ایک اسکول میں پڑھتے رہے جو اُن کے مکان کے قریب واقع تھا۔ اِس کے بعد انگریزی زبان میں شدھ بُدھ گھر پر ہی اور عربی و فارسی اپنے نانا میرزا ابراہیم علی عیشؔ سے پڑھی لیکن دونوں زبانوں سے واقفیت ادھوری رہی۔[2]

وفات

ترمیم

ماچس لکھنؤی جون 1970ء میں کینسر کے باعث بیمار پڑے اور دو تین مہینے نہایت تکلیف میں بسر ہوئے۔ آخر وقتِ موعود آگیا اور تقریباً 57 سال کی عمر میں 26 اگست 1970ء کو شام 8 بجے وفات پاگئے۔ بعد از وفات‘ ماچس نے بیوی سمیت تین خورد سال بچے (دو لڑکے اور ایک لڑکی) سوگواران چھوڑے۔ کربلائے امین الدولہ، لکھنؤ میں سپردِ خاک کیے گئے۔[3]

شاعری

ترمیم

ماچس کی عمر ابھی تیرہ چودہ سال کی تھی کہ شاعری کی جانب میلان بڑھنے لگا۔ شاعری میں وہ انور حسین آزردہ لکھنؤی (وفات: 1951ء) کے شاگرد داغنؔ وقار سے اصلاح لینے لگے۔1936ء میں اُن کی وفات کے بعد اُن کے استاد آزردہ لکھنؤی جب لکھنؤ آئے تو اُن سے مشورہ سخن کرنے لگے۔ آزردہ لکھنؤی کی عدم موجودگی میں سید آلِ رضا ایڈووکیٹ سے اصلاح سخن لینے لگے۔سید آل رضا کی وساطت سے ماچس انجمن بہارِ ادب لکھنؤ کے رکن بنے اور ادبی حلقوں میں اُن کی شناسائی کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ البتہ ماچس لکھنؤی کا اندازِ سخن مزاح کی جانب زیادہ رہا اور اُن کی وجہ شہرت بھی مزاح نگاری ہو گئی تھی۔ ماچس نے کوئی مجموعہ کلام شائع نہیں کیا اور نہ اپنے پاس کوئی بیاض رکھی۔ یادداشت بہترین تھی، جو کہتے تھے، اَزبر رہتا تھا۔ دوست احباب کی مجالس میں گھنٹوں اپنا کلام سناتے اور کہیں غلطی نہیں کرتے تھے۔ ماچس کی نظمیں اودھ پنچ اخبار اور شوکت تھانوی کے اخبار ’’سرپنچ‘‘ میں شائع ہوتی رہیں۔ شوکت تھانوی ہمیشہ ماچس کے نام کے ساتھ ’’ظریف الملک‘‘ کا خطاب لکھا کرتے تھے۔[4]

کتابیات

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. تذکرۂ معاصرین، جلد 1 ، صفحہ  227-228۔
  2. تذکرۂ معاصرین، جلد 1 ، صفحہ  230۔
  3. تذکرۂ معاصرین، جلد 1 ، صفحہ  232-233۔
  4. تذکرۂ معاصرین، جلد 1 ، صفحہ  230-232۔