ما ملکت ایمانکم (سوریہ کا ٹی وی سلسلہ)
ما ملکت ایمانکم ملک سوریہ میں 2010ء کے عرصے میں نشر کیے جانے والا ایک ٹیلی ویژن سیریل ہے۔ یہ سیریل بہ طور خاص اس سال رمضان کے موقع پر عوام میں بے حد مقبول رہا۔ اس ٹی وی شو میں جن موضوعات کو منظر عام پر لایا گیا وہ ہم جنسیت، رشوت ستانی اور غیر زوجی جنسی تعلقات ہیں۔[2] [3]
ما ملکت ایمانکم | |
---|---|
نوعیت | سوریہ کا عربی زبان کا ٹی وی سیریل |
ہدایات | نجدت اسماعيل انزور |
نشر | سوریہ |
زبان | عربی |
اقساط | [1]30 |
تیاری | |
کیمرا ترتیب | ہمہ کیمرا |
نشریات | |
چینل | سوریہ کے متعدد عربی چینل |
عنوان
ترمیماس سیریل کا عنوان ایک مشہور قرآنی آیت ما ملکت ایمانکم (جو تمھارے ماتحت ہیں) پر بنایا گیا ہے۔ یہ آیت باندیوں سے متعلق ہے۔ اس وجہ سے کئی اسلام پسند اس سیریل پر پابندی کا مطالبہ کر رہے تھے کہ سیریل کا اسلامی آیت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس طرح کا ٹی وی شو گستاخی اور اہانت اسلام پر مبنی ہے۔[3]
سیریل کی پیش کش کے اہم پہلو
ترمیماس سیریل میں کئی کرداروں کو جدید سوریائی ماحول میں حالات کے ستم رسیدہ افراد کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ لیلٰی جو حجاب پر سختی سے عمل کرتی ہے، نیکی اور بدی کی کش مکش میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ بالآخر اس کا قتل ہوتا ہے اور اس کا جسم ریزہ ریزہ حالت میں پایا جاتا ہے۔ سیریل کی ایک اور خاتون عالیہ اپنے خاندان کی کفالت کے لیے خود کو بازار میں عملاً فروخت کر دیتی ہے۔ جہاں عام طور سے شوہر بیوی کی عزت کا پاسبان اور محافظ سمجھا جاتا ہے، وہاں یہ بتایا جاتا ہے کہ غارم نامی خاتون کا شوہر اپنی بیوی کی اس بات کے لیے حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ مفادات کے حصول کے لیے بر سر آوردہ لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم کرے۔[3]
تنقید
ترمیمسوریہ کے قدامت پسند افراد نے اس سیریل کی شدید مذمت کی اور اس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیریل کا عنوان سیاق و سباق سے ہٹ کر ہے اور اس سے اسلام کی شبیہ مسخ کر کے پیش کی جا رہی ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس سیریل میں حجاب پوش خواتین کو مظلوم بتایا گیا ہے، جو غلط ہے۔[3]
تعریف
ترمیمیہ سیریل 2010ء کے مشہور ترین سوریائی سیریلوں میں سے ایک تھا۔ متنازع موضوعات اور رمضان کے مہینے کے باوجود یہ کثرت سے دیکھا گیا۔ کئی سوریائی نوجوانوں نے اس کی تعریف کی۔[3]
سوریہ میں مذہب نوازوں کی حکومت کی جانب سے عدم حوصلہ افزائی
ترمیمحالاںکہ سوریہ ایک مسلم اکثریتی ملک ہے، تاہم اس کا آئین نامذہبی ہے۔ سنہ 2010ء ہی کے آس پاس 1,200 اسکولی ٹیچروں کو نقاب کی وجہ سے عوامی شعبے کی ملازمت اختیار کرنا پڑا اور حکومت نے جامعات میں مکمل چہرے کے حجاب پر پابندی عائد کر دی ہے۔[3]