متّوپلانی (تمل: முத்துப்பழனி) اٹھارویں صدی عیسوی میں تیلگو زبان کی ایک شاعرہ اور دیوداسی گذری ہیں۔ متوپلانی تنجاور کے مرہٹہ بادشاہ پرتاپ سنگھ (1739–63) کے دربار سے منسلک رہی۔ بعض مورخین نے ان کا عرصہ حیات 1739ء سے 1790ء تک محیط بتایا اور تنجاؤر ضلع میں واقع موناگاپاکا کو ان کی جائے پیدائش قرار دیا ہے۔[1] متوپلانی نے اپنی شاعری اور علمی رسوخ کے باعث خاصی شہرت حاصل کی، خصوصاً ان کی رزمیہ نظم "رادھکا سانت ونم" (رادھا کی رضاجوئی) بڑی مشہور ہوئی۔

مملکت تنجاور نائک

سوانح حیات

ترمیم
 
پرتاپ سنگھ، بادشاہ تنجاور

متوپلانی تیلگو زبان کی ماہر، سنسکرت ادب کی عالمہ اور مشاق رقاصہ تھیں۔ ان کا تعلق ایک دیوداسی خاندان سے تھا۔[2] ان کے دادا تنجنائیکی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل درباری، ماہر موسیقار اورنو رس میں طاق تھے۔ ان کے گھر میں منعقد ہونے والی محافل موسیقی میں متوپلانی کو اصحاب علم و فضل اور اشرافیہ سے ملنے اور ان سے استفادہ کے بھرپور مواقع میسر آئے۔

ان صحبتوں سے متوپلانی نے علم موسیقی کے اسرار اور فن شاعری کے رموز سیکھے اور خوب ریاض کیا۔ فنون لطیفہ میں ان کی مہارت انھیں کشاں کشاں پرتاپ سنگھ کے دربار تک لے گئی اور جلد ہی انھیں ملکہ بننے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔[3] اس عہد کے ہندوستان میں کسی گھریلو خاتون کا لکھنا پڑھنا اور فنون لطیفہ کا مظاہرہ کرنا نادر الوقوع تھا۔

تخلیقات

ترمیم
 
بروکلین عجائب گھر - کرشن اور رادھا چھت پر بیٹھے ہیں۔

متوپلانی کی سب سے مشہور تخلیق رادھکا سانت ونم" (رادھا کی رضاجوئی) ہے جس میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے جنسی تجربات کو شعری زبان میں بیان کیا ہے۔ اسی بنا پر اسے شہوت انگیز بیانیہ نظم کہا جاتا ہے۔ اس میں متوپلانی نے کرشن، ان کی سہیلی رادھا اور نئی نویلی بیوی الا کے ازدواجی تعلق کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی رادھا کی آتش رقابت کو سرد کرنے اور اس کی رضاجوئی کے واقعات کو واشگاف انداز میں نظم کیا ہے۔ آگے چل کر یہ بھی لکھا ہے اس نظم کا تخیل خود کرشن کا عطا کردہ ہے جب وہ ان کے خواب میں آئے تھے۔[4] یہ نظم اپنی اباحیت اور عریاں تخیل کے باعث بیسویں صدی عیسوی کی ابتدا میں خاصی متنازع بن گئی تھی۔[5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Muddupalani. (2011). Radhika Santwanam—The Appeasement of Radhika. Trans. Sandhya Mulchandani. New Delhi: Penguin, p. xi.
  2. Pran Nevile, "The courtesan was also a scholar", دی ٹریبیون, 12 December 1999, accessed 8 December 2010; Paromita Bose, ‘"Devadasi" Reform in Colonial South India: The Case of Radhika Santwanam ’, in Transcultural Negotiations of Gender, ed. by S. Bhaduri and I. Mukherjee (Springer India, 2016), pp. 115-21 (p. 116). DOI 10.1007/978-81-322-2437-2_11.
  3. Muddupalani. (2011). Radhika Santwanam—The Appeasement of Radhika. Trans. Sandhya Mulchandani. New Delhi: Penguin, p. xii.
  4. Velcheru Narayana Rao and David Shulman, Classical Telugu Poetry: An Anthology, "Muddupalani", pp. 293-296
  5. Susie J. Tharu and Ke Lalita, Women Writing in India: 600 B.C. to the early twentieth century (Feminist Press, 1991; آئی ایس بی این 1-55861-027-8), pp. 116-119