محبوب علی خان
میر محبوب علی خان (انگریزی: Mahboob Ali Khan) 1866ء میں پیدا ہوئے۔۔انھیں 1869ء میں مکمل اختیارات کے ساتھ قلمرو آصفی کا حضور نظام تسلیم کر لیا گیا۔حیدرآباد میں سرکاری زبان انھیں کے دور 1884 ء میں فارسی سے اردو کر دی گئی۔اردو کے بہترین شاعر تھے لیکن فارسی ، عربی اور انگریزی پر بھی عبور کھتے تھے۔فرہنگ آصفیہ ان ہی کی سرپرستی کا نتیجہ تھا۔۔مولوی عبد الحق مصنف تفسیر حقانی،قدر بلگرامی،مولانا شبلی، الطاف حسین حالی،پنڈت رتن ناتھ سرشار، مولانا عبد الحلیم شرر جیسے ان گنت ارباب علم نے ان کی سرپرستی میں ساری زندگی کسب معاش سے بے نیاز ہو کرآرام سے گزار دی۔داغ دہلوی کا سرکار آصفیہ سے پندرہ سو روپیہ وظیفہ مقرر تھا۔ان کی علمی سرپرستی کی وجہ سے انھیں شاہ العلوم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔[1]
محبوب علی خان | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 17 اگست 1866ء ریاست حیدرآباد |
وفات | 29 اگست 1911ء (45 سال) ریاست حیدرآباد |
مدفن | مکہ مسجد |
شہریت | ریاست حیدرآباد |
اولاد | نواب میر عثمان علی خان |
والد | افضال الدولہ |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاہی حکمران |
اعزازات | |
درستی - ترمیم |
کارنامے
ترمیم- 1869ء میں ان کے ہی دورحکمرانی میں نظام اسٹیٹ ریلوے کا قیام عمل میں آیا جس سے حیدرآباد تا ممبئی تجارتی راہداری کھولنے میں مدد ملی۔
- 1884ء میں انھوں نے ہی محکمہ پولیس و محابس قائم کیا۔
- آصفیہ لائبریری جو آج اسٹیٹ سنٹرل لائبریری کی حیثیت سے موجود ہے 1884ء میں اس کے قیام کے ذریعہ آنے والی نسلوں کے لیے ریاست کا سب سے بڑا کتب خانہ فراہم کیا۔ 1872ء میں قائم کردہ مدرسہ عالیہ بھی ان ہی کے دور حکمرانی کی یادگار ہے۔
- 1884ء میں محبوب علی پاشاہ کے دور میں ہی سرکاری زبان فارسی کی بجائے اردو کی گئی۔ تحقیق و تالیف اور ترامیم کے لیے دنیا بھر میں کبھی مشہور رہے۔ دائرۃ المعارف کا 1892 میں قیام عمل میں لاکر اس انسانیت نواز حکمراں نے تعلیمی تحقیق کو ریاست میں ایک نئی جہت عطا کی۔
- اسی طرح باغ عامہ (پبلک گارڈن) عوام کے لیے کھولنے کا اعزاز بھی ان ہی کو جاتا ہے۔
- نواب میر محبوب علی خاں نے انتظامی اصلاحات کے لیے 1874 میں قانونچے مبارک متعارف کروایا جس کے ذریعہ وزراء و امرا اور حکام کے اختیارات متعین کیے گئے۔
- آج تلنگانہ قانون ساز اسمبلی کی جو عظیم عمارت دیکھتے ہیں، 1905ء میں اس کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا تھا۔
- اسی طرح 1908ء میں قائم نظام آبزروٹری بھی محبوب علی پاشاہ کی کئی ایک یادگاروں میں سے ایک یادگار تھی۔[2]