محمد اشرفی جیلانی
محدثِ اعظمِ ہند ابوالمحامد اعلی حضرت سید محمد اشرفی جیلانی کچھوچھوی محدث و مفسر، مترجم و شارح، مفکر و مدبر، خطیب و ادیب، بے باک صحافی اور بلند پایہ شاعر بھی تھے۔
ولادت
ترمیممحدث اعظم ہند کی ولادت ۱۵/ذیقعدہ ۱۳۱۱ھ / ۱۸۹٤ء کو جائس ضلع رائے بریلی (اتر پردیش) میں ہوئی، آپ کے والد کا نام حکیم سید نذر اشرف تھا۔
تعلیم
ترمیممحدثِ اعظمِ ہند نے ابتدائی تعلیم والدِ ماجد سے حاصل کی۔ بعدہٗ مدرسۂ نظامیہ لکھنؤ جا کر مولانا عبد الباری فرنگی محلی کے درس میں شریک ہوئے۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا لطف اللہ علی گڑھی، مولانا مطیع الرسول محمد عبد المقتدر بدایونی اور مولانا وصی احمد محدث سورتی جیسے جلیل القدر حضرات کا شمار ہوتا ہے۔ محدثِ سورتی سے آپ نے علمِ حدیث و اصولِ حدیث کا درس لیا۔ علاوہ ازیں امام احمد رضا محدثِ بریلوی کے حلقۂ درس میں بھی آپ نے شرکت کی اور امام احمد رضا سے فقہ اور اس کے جملہ متعلقات، افتا نویسی وغیرہ فنون میں مہارتِ تامہ حاصل کی۔ وطنِ عزیز ہندوستان کے آپ منفرد اور مایۂ ناز عالمِ حدیث مانے جاتے تھے۔ ہزا رہا احادیث اسناد کے ساتھ آپ کو حفظ تھیں، یہی وجہ ہے کہ آپ کو علمائے کرام کی ایک بڑی جماعت نے ’’محدثِ اعظمِ ہند‘‘ جیسے عظیم الشان لقب سے نوازا۔
بیعت و خلافت
ترمیمآپ نے سید شاہ علی حسین اشرفی میاں سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔ امام احمد رضا محدثِ بریلوی نے اپنی خلافت و اجازت سے نوازا، اسی طرح خلیفۂ اعلیحضرت سید احمد اشرف صاحب کچھوچھوی نے بھی اپنی خلافت و اجازت عطا کی،
ترجمۂ قرآن
ترمیممحدثِ اعظم ہند سید محمد کچھوچھوی کا محیر العقول اور نادرِ روزگار اردو ترجمہ ء قرآن بنام "معارف القرآن" جو انھوں نے 28 سال کی محنت شاقہ کے بعدقومِ مسلم کو ایک بہترین تحفہ کے طور پر دیا۔
علامہ سید محمد مدنی اشرفی فرماتے ہیں کہ:
قرآن کے صحیح مفہوم و مطلب سے دنیا والوں کو خبر دار کرنے کی ضرورت کو سید محمد محدث نے شدت کے ساتھ محسوس کیا اور دینی و تعلیمی مصروفیتوں کے باوجود قرآنِ کریم کے ترجمہ و تفسیر کا قصد فرمایا۔ ترجمہ فرمانے کا کیا نرالا انداز تھا، تبلیغی پروگرام میں کوئی کمی نہیں، ایک عالم اپنے ساتھ رکھے ہوئے ہیں، مستند و معتمد علیہ تفاسیر کا اچھا خاصا ذخیرہ جو ان کے ساتھ رہتا ہے، نگاہوں کے سامنے ہے، ترجمہ بولتے جاتے ہیں، وہ لکھتا جا رہا ہے۔ ویٹنگ روم میں بیٹھے ہوئے ترجمہ لکھا رہے ہیں، گاڑی میں سفر کر رہے ہیں ترجمہ بول رہے ہیں اور رمضان کے موقع پر مکان آئے ہوئے ہیں اوراس دینی کام میں مصروف ہیں۔ ٦/ذوالحجہ ۱۳٦٦ھ میں پورے قرآن کا ترجمہ ختم فرما کر تفسیر کی طرف متوجہ ہوئے۔[1]
شاعری
ترمیممحدثِ اعظمِ ہند درس و تدریس، خطابت و نظامت اور تبلیغ و ارشاد کے ساتھ ساتھ میدانِ فن اور ادب کے بھی شہ سوار تھے۔ آپ کے والد حکیم سید نذر اشرف بھی ایک عمدہ شاعر تھے۔ حضرت محدثِ اعظمِ ہند کو شاعری ورثے میں ملی، بچپن ہی سے شعر و سخن سے لگاؤ اور شغف تھا۔ گھریلو ماحول کی برکتیں اس پر مستزاد… آپ کا قلم نثر و نظم دونوں ہی میں یک ساں چلتا تھا۔ کئی نثری کتابیں آپ کی علمی یادگاریں ہیں۔ آپ نے بہاریہ شاعری بھی کی اور تقدیسی شاعری بھی … حمد و نعت، مناقب و سلام اور غزلیات و رباعیات پر مشتمل آپ کا خوب صورت اور د ل کش دیوان ’’فرش پر عرش‘‘ کے نام سے رضوی کتاب گھر دہلی سے شائع ہوکر داد و تحسین کی خراج وصول کر چکا ہے۔
وفات
ترمیم۱٦/رجب المرجب ۱۳۸۱ھ مطابق ۲۵/دسمبر ۱۹٦١ء کو لکھنؤ میں وصال فرمایا اور آپ کی تدفین کچھوچھہ، ضلع فیض آباد(اتر پردیش) میں ہوئی۔[2]