نوے کی دہائی میں اردو شعر و ادب کی دنیا میں متعارف ہونے والے شاعر ,نقاد,مترجم ،محقق اورکالم نگار ڈاکٹر محمدافتخار شفیع 17 اگست 1973 کو ساہیوال کے نواحی قصبے نورشاہ میں پیدا ہوئے۔یہ علاقہ پنجاب کی جنگ آزادی کا مرکزتھا۔ انھوں نے اپنے تعلیمی مدارج وقفے وقفے سے ساہیوال, ملتان اوراسلام آباد سے طے کیے۔گورنمنٹ کالج ساہیوال سے بی اے کیا۔ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے اردو زبان و ادب میں ایم اے اور بعد ازاں ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ اردو میں ایم فل اور پی ایچ ڈی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے کی۔ ان کی متعدد کتب منظر عام پر آئی ہیں۔ افتخارشفیع کی شاعری اور نثر برصغیر کے معروف ادبی پرچوں میں شائع ہوتی ہے۔ ان کی ادبی خدمات کے حوالے سے اہل علم انھیں اس خطے کا نمائندہ شاعر اور ادیب قرار دیتے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹرافتخارشفیع ساہیوال میں مقیم ہیں لیکن ان کے علمی و ادبی مقام کی اہمیت قومی سطح پرمحسوس ہوتی ہے۔وہ قومی منظرنامے میں ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔حال ہی میں ان کے ایک شہرہ آفاق گیت ّّہری یوپیا ٗٗکو وادی سندھ کا ترانہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ افتخارشفیع ایک قومی روزنامے ّّنوائے وقتٗٗ میں ّّسرمایہ افتخارٗٗ کے عنوان سے علمی ادبی اور تہذیبی کالم بھی لکھتے ہیں۔افتخارشفیع کوان کے متنوع علمی و ادبی کاموں کی وجہ سے ان کے معاصرین میں انفرادیت حاصل ہے۔ان کے علمی و ادبی کام کی بہت سی جہات ہیں۔ان کی ادبی زندگی کی ابتدا توشاعری سے ہوئی۔طالب علمی کے زمانے میںّّ فنون ٗٗاورّّاوراق ٗٗٗجیسے اہم ادبی جرائدمیں ان کا شاعری کا شائع ہوئی۔افتخارشفیع کی شاعری مختلف جہتوں کوسمجھنے کے لیے یہ کہاجاسکتا ہے کہ اس میں بڑی حدتک شعورکی کارفرمائی ہے۔ڈاکٹرافتخارشفیع استاد ادبیاتِ اُردو ادب ہونے کی وجہ سے فقیرانہ مزاج، دھیما لب ولہجہ،دلچسپ اندازِ بیان کے حامل خوب صورت شاعر ہیں۔ حساس دل و دماغ رکھنے کی وجہ سے ان کی غزل اپنے عہد کی عکاس و ترجمان ہے۔ اپنی درویشانہ طبیعت کی وجہ سے گوشہ نشین ہیں۔ادبی محافل اور مشاعروں سے دور رہنے کے باوجودوہ دنیائے اُردو میں اپنی پہچان اور شناخت رکھتے ہیں۔اِس صدی کے بہت سے شاعروں نے جدید اُردو غزل کو اپنایا۔انھوں نے روایتی اور کلاسیکی غزل سے اپنے آپ کو قطع تعلق کیا، جدید اور نئی غزل سے اپنا رابطہ اُستوار کرتے ہوئے نئے نئے موضوعات کو غزل میں باندھا۔یوں بہت سے شعرانے جدید اُردو غزل کو اپنایا لیکن بہت کم ایسے شاعر ہیں جنھیں غزل نے اپنایا۔اگراِس تناظر میں دیکھا جائے تو ایسے شعرا کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے، جو جدید اُردو غزل کے مزاج کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔افتخار شفیع کو ایسے شعراکی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ان کی غزل کے علاوہ نظم بھی جدید حسیات سے آراستہ ہے ۔ افتخارشفیع ایک نمایاں شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اہم محقق اور نقاد بھی ہیں۔عملی زندگی میں دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ تنقید و تحقیق اور شاعری ان کے ایک ساتھ موجود ہے۔افتخارشفیع کی سچی شعری طبعیت نے آج کے انسان کے داخلی اور خارجی کرب کو ایک مختلف موضوع بنا کر پیش کیا ہے۔غم نصیب انسان اپنے ازلی وجود کو دریافت کرنے چلا تو اپنے غموں کی تعبیر میں دور تک بکھرتا چلا گیا۔اسے مظاہر فطرت اور حالات کی زنجیروں میں جکڑے انسان کے درمیان ایک رشتے کے قیام کی ضرورت محسوس ہوئی،افتخار شفیع کے ہاں اسی طرح کی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔

عام طور پر روایتی غزل میں جو یاسیت اور نارسائی کی کیفیت دکھائی دیتی ہے،افتخار شفیع کے ہاں کہیں اس کا وجود دکھائی نہیں دیتا۔اس کے برعکس انسانی زندگی کے نئے تجربات اور ان سے اخذ شدہ گہرائی سے خیالات میں پیدا ہونے والا حکیمانہ اضطراب ان کی غزل کی جان ہے۔افتخار شفیع زندگی میں بہ یک وقت بہت سے جاں گسل تجربات سے گذرے ہیں۔جس سے ان کی سوچ میں بالیدگی اور انداز سخن میں پختگی پیدا ہوئی ہے۔افتخار شفیع نے فکری،شعوری اور روشن زندگی کے لمحوں میں اپنے وجود کو تسلیم کروایا ہے۔ایسا وجود جو ہم سب کا وجود ہے۔جس میں قدر مشترک یہ ہے کہ ہم سب اجتماعی طور پر غم ونشاط کے رشتوں میں بندھے ہیں۔صوتی تاثرات،جمالیاتی رچاؤ،اور کرافٹنگ کے باعث افتخارشفیع کی غزل ہماری سوچ کے دریچوں میں بے شمار تصویریں منعکس کرتی ہے۔چوں کہ زندگی اپنے پھیلاؤ کے اعتبار سے ناقابل گرفت بل کہ لچک دار ہے۔اس لیے آدرش کا حسن انھیں آگے بڑھانے کے اشارے کرتا ہے۔انھوں نے زندگی سچائیوں کا منظوم قصہ لکھا ہے۔جس میں شام کرب وبلا کے ساتھ ساتھ صبح گلنار کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔اور ان سب کے ساتھ ساتھ وہ حقائق بھی جہاں زمیں کی بینائی بھی منحرف ہونے لگتی ہے۔افتخار شفیع اچھے شاعر ہیں،لیکن ان ساری باتوں کے باوصف ایک خاص قسم کی سرمدی کیفیت بھی ان کے ہاں محسوس کی جا سکتی ہے۔ان کی غزل جس کیفیت کی روداد ہے اس میں کہیں تصنع کا نام نہیں،قدیم و جدید افکار نہایت احسن طریقے کے ساتھ ان کے ہاں موجود ہیں۔ان کا بنیادی تعلق مجیدامجدکے شہر ساہیوال سے ہے اس لیے ان کا شمار شہرغزل کے اہم شعرا مجیدامجد،جعفرشیرازی،بشیراحمدبشیر،

گوہرہوشیارپوری،ناصرشہزاد،مراتب اختر،محمودعلی محمود،الف د نسیم،ایزدعزیز کے بعداہمیت کا حامل ہے۔افتخارشفیع اس دھیمے مزاج کے شہر کے جدید شعری اسالیب کی امانت دار شاعر ہیں۔افتخارشفیع نے ان شخصیات کے پیدا کردہ شعلہ احساس کوبجھنے نہیں دیا۔افتخارشفیع کے ادبی کام کی ایک اہم جہت ان کا تنقیدی اور تحقیقی کام بھی ہے۔انھی خدمات کی وجہ سے برصغیر کی مختلف جامعات میں ان کے فن اور شخصیت کے حوالے سے ایم اے کی سطح کے تین اور ایم فل لیول کے چار تحقیقی مقالہ جات لکھے جاچکے ہیں۔ان کا کاتحقیقی شاہکار ّّاردو غزل میں سراپانگاری ٗٗہے۔اس علمی کام کو تحسین پیش کرتے ہوئے شمس الرحمٰن فاروقی لکھتے ہیں:

مّّجھے خوشی ہے کہ افتخارشفیع نے اردوغزل میں سراپانگاری کے موضوع پرقلم اٹھایا ہے۔میں سراپانگاری کوفارسی،اردواور سنسکرت شاعری کابنیادی عنصرتونہیں دل چسپ،دل کش،اورتخیل(خاص کربصری تخیل)کے تقاضوں پرمبنی عنصر ضرورسمجھتاہوں۔لیکن آج کل عام رواج یہ ہے کہ غزل کوخارجی مضامین سے حتیٰ الامکان دوررکھاجائے اوراس میں داخلیت،فکری میلانات اورمعاصرصورت حال کوبیش از بیش جگہ دی جائے۔اس طرح غزل کے دواہم پہلوبڑی حدتک نظراندازہوگئے ہیں،جن کاتعلق عشق اورحسن کے بے پناہ انسانی تجربات سے ہے۔حسر ت موہانی نے ”فاسقانہ شاعری“کا بڑے زوروشورسے دفاع کیاتھا لیکن یہ لفظ فاسقانہ خوداپنی جگہ پر منفی اورناپسندیدہ تاثرات کاحامل ہے۔اس لیے حسرت موہانی کی سعی مشکورنہ ہو سکی۔افتخارشفیع نے سراپانگاری کوبڑے پس منظرمیں رکھ کردیکھاہے۔مختلف زبانوں میں اس کی روایت یارسومیات پرانھوں نے تفصیلی نظرڈالی ہے۔انھوں نے تمتع زہرگوشہ یافتم کے مصداق دور دورتک نظردوڑائی ہے اورخوداپنی رایوں کے اظہارمیں بھی پوری بے باکی اورمکمل دیانت داری کااظہارکیاہے۔میراخیال ہے یہ کتاب اہم ترین ہے اورآج کے تناظرمیں غزل کی اصل صورت شکل کوبے تکلف دیکھنے کی کوشش کرتی ہے اورہمیں غزل کی وسعتوں اوربوقلمونیوں پرمطلع کرتی ہے۔ ٗٗ 

روس میں اردو ادب کی معروف سکالر ڈاکٹرلدمیلہ ویسیلیویا کی رائے ہے کہ:

ّّمحمدافتخارشفیع کی کتاب”اردوغزل میں سراپانگاری“موضوع کے لحاظ سے اردوغزل کی جمالیاتی قدروں سے روشناس کرتی ہے۔انھوں نے اردو شاعری کے اس خوب صورت مگرنظراندازشدہ پہلو کوخوب اجاگرکیاہے۔کلاسیکی عہدکی غزل عام طورپران کے مباحث کاحصہ بنی ہے۔انھوں نے اس زمانے کے شاعروں کی غزل میں محبوب کے حسن کے مختلف زاویوں کا خوب صورت جائزہ لیاہے۔ یہ اپنی نوعیت کاایک منفردکام ہے،ان کا انداز ِتحریر بھی عالمانہ ہے،ان کے ہاں اس زمانے کی خوب صورت تصویریں بننے لگتی ہیں۔ہم اس کام کے مکمل ہونے کادعویٰ نہیں کرسکتے لیکن یہ اعتراف ضرور کرلیناچاہیے کہ اس سے پہلے اس موضوع پراس سے بہترکام نہیں ہو سکا۔اردوکے استادشعراکے حسن وجمال کے تصورات کا جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے ان کے زمانے کے سیاسی اورسماجی حالات سے بھی مدد لی ہے۔مطالعے کے دوران انسان اس عہدکے ہندمیں گھومنے لگتاہے،عاشقوں اورنظربازوں کے جملوں پہ غورکرتاہے۔اس عہدکی شاعری میں محبت کے خارجی پہلو اس کے سامنے گردش کرنے لگتے ہیں۔انھوں ایک پورے عہدکی حسن وعشق کی تاریخ کوان صفحات پربکھیردیاہے۔یہ ایک خوب صورت کاوش ہے۔اس کی تعریف کیے بغیررہانہیں جا سکتا ٗٗ۔

افتخار شفیع کا اہم ادبی کام مسئلہ فلسطین کو اردو کے قارئین سے متعارف کروانا بھی ہے۔انھوں نے فلسطینی اور پاکستانی ادب کے درمیان ایک ادبی جنکشن کا کام بھی کیاہے۔اس سلسلے میں ان کا تحقیقی کام ہو یا تراجم ،عالمی سطح پر اس کی پزیرائی ہوئی ہے۔ان کے فلسطینی ادب پرہونے والے کام کوادبی حلقوں کے علاوہ بھی اہمیت ملی ہے۔اس کی ایک مثال سینیٹرمشاہدحسین سید کی یہ رائے ہے جن کے مطابق ّّفلسطین اور اہل فلسطین کے ساتھ ہمارے تعلقات صدیوں پرمحیط ہیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ہرعالمی فورم پر فلسطین اوراہل فلسطین کی حمایت کی ہے۔ہم نے ہمیشہ وہاں انسانی حقوق کی پامالی کی مذمت کی ہے۔فلسطین سے پاکستان کی وابستگی کی تاریخ پاکستان قائم ہونے سے بھی زیادہ پرانی ہے۔23 مارچ 1940 کوقائداعظم محمدعلی جناح کی زیرِصدارت آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں قرارداد پاکستان کے ساتھ جودیگر قرار دادیں متفقہ طورپرمنظورہوئیں ان میں سے ایک قرارداد فلسطین اور اس کے عوام کی حق خودارادیت کے لیے کی جانے والی جدوجہد سے متعلق تھی۔اس لیے فلسطین پاکستانیات کا حصہ مانا جاتا ہے۔یہ محض اتفاق نہیں بلکہ 1974 میں لاہورپاکستان میں ہونے والی اسلامک سمٹ میں پی ایل او کوعالمی سطح پر پہلی دفعہ یاسرعرفات کی سربراہی میں فلسطین کی واحد نمائندہ تنظیم کے طورپرتسلیم کیا گیا۔آج بھی فلسطینی کیڈٹس پاکستان کے فوجی تعلیمی اداروں میں اعلیٰ فوجی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ فلسطینی کہانیوں کے یہ تراجم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم مذہبی،سیاسی اور سماجی سطح کے علاوہ ادبی سطح پربھی فلسطین کے ساتھ گہرا ور مضبوط تعلق رکھتے ہیں۔ان تراجم سے نہ صرف دونوں ملکوں کے پڑھنے لکھنے والے طبقے کوفائدہ ہوگا بلکہ ہمارے ادبی جواہرپاروں کوبھی نکھار ملے گا۔دونوں علاقوں کے عوام کوبھی ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملے گا۔یہ تراجم بین الاقوامی سطح پریہ دونوں قوموں کے سفارتی تعلقات میں مزیدبہتری کا باعث بنیں گے۔ڈاکٹرمحمدافتخارشفیع ستائش کے لائق ہیں جنھوں نے ان کہانیوں کا خوب صورت ترجمہ کیاٗٗٗٗٗ۔

پروفیسر ڈاکٹرمحمدافتخارشفیع کی تنقیدی اورتحقیقی خدمات کا ایک اہم پہلو ان کی اردو نظم کے عظیم شاعرمجیدامجد کی شخصیت اورشاعری کی نئے سرے سے بازیافت ہے۔اس موضوع پرانھوں نے بہت سی غلط فہمیوں کاازالہ کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ نئے پہلو بھی تلاش کیے۔تاج سعید اور ڈاکٹرخواجہ محمد زکریا کو مجیدامجدکے شعری کلیات مرتب کرنے کااعزاز حاصل ہے۔افتخارشفیع کا مرتبہ ّّکلیات مجیدامجدٗٗجدید تقاضوں کے عین مطابق ہے،اس میں ان کی بہت سی غیر مطبوعہ تحریریں شامل ہیں۔اس کے علاوہ انھوں نے متن کے اختلاف کا بڑی باریک بینی کے ساتھ جائزہ بھی لیا ہے۔مجیدامجدشناسی کی روایت میں افتخارشفیع کو خصوصی مقام حاصل ہے۔ا س سلسلے میں مشاہیرکی آرا دیکھی جا سکتی ہیں:

1۔ایک تحریرجس نے تازگی کے باعث راقم کی توجہ خاص طورپرحاصل کی ہے محمدافتخارشفیع کی ہے جس کی نوعیت تحقیقی ہے۔افتخارشفیع نے روایتی صنف سہرا کا تعارف کرواتے ہوئے۔مجیدامجد کے تحریر کردہ چھ سہرے یک جاکیے ہیں۔یہ سہرے صاحب زادہ فرخ سئیر،سیدناصرشہزاد،سیدمراتب اختر،سیددانیال ساجد،پرویزانجم صدیقی اور عبد العزیز خان یوسفی کی تقاریب شادی خانہ آبادی  پر پیش کیے گئے۔افتخارشفیع نے حوالہ جات وحواشی میں مآخذ کی نشان دہی کرنے کے علاوہ مذکورہ ”دولھوں“کا مختصرتعارف بھی کروایاہے اورسہرے کی روایت کے حوالے سے مفیدمعلومات بھی فراہم کی ہیں۔اگرچہ مجیدامجد کی شعری کائنات میں یہ سہرے کوئی نمایاں مقام حاصل نہیں کرپائے تاہم نجی نوعیت کی شاعری میں ان کی خاص اہمیت ہے اور مجیدامجد کا فن ان میں بھی اپنا اظہار کرنے میں کامیاب ہواہے۔ 2۔کہا جاتاہے کہ حب الوطن من الایمان۔یہ محبت اس وقت اور زیادہ جاگتی ہے،جب وطن عزیز کے دشمن نے اسے للکارا ہو۔پاکستان اور بھارت کے بیچ میں دشمنی کا جو بیج آغاز میں بو دیا گیا تھا اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں۔5691ء اور1791ء کی جنگیں تو خاص طور پرتباہی کا باعث بنیں۔مجیدامجدنے ان جنگوں کے پس منظر میں بھی کچھ نظمیں لکھی ہیں جوان کے قومی درد کی آئینہ دار ہیں۔مثال کے طور پر ان کی نظم ”اے قوم“1791ء کے پس منظرمیں لکھی گئی ہے۔محمدافتخارشفیع نے اپنے مقالے میں پاک بھارت جنگوں کے حوالے سے لکھی گئی مجیدامجد ایسی ہی نظموں کا ایک مکمل مطالعہ کیا ہے۔اس مضمون کوپڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مجیدامجد اپنی دھرتی سے کس قدر جڑے ہوئے تھے اوران کی شاعری محض اپنی ذات کے لیے نہ تھی بل کہ اپنے ہم وطنوں کے لیے بھی تھی۔

           (ڈاکٹرمحمدفخرالحق نوری:مطبوعہ مضمون سے مقتبس )

٭

آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفعت شان کی عکاسی کی گئی ہے لیکن خاص طور پرمجیدامجد کی رسالے ”الفلاح“کے نومبر 7391ء کے شمارے میں شامل نعت پرافتخارشفیع کا مضمون اورمجیدامجدکی نعت پڑھ کر ایک کیف طاری ہو گیا۔خاص طور پر اس نعت کے معراج نامہ کے انداز واسلوب نے بہتر اثر چھوڑا

      (ڈاکٹر عزیز ابن الحسن خط بنام مدیر نعت رنگ کراچی)

٭

مجید امجد کے مسودے ”فسانہ آدم“کے بارے میں مجیدامجد شناسوں کی اب تک رائے یہ تھی کہ یہ ان کی ادھوری کتاب ہے۔ڈاکٹرافتخارشفیع نے پہلی دفعہ ثبوتوں کے ساتھ اسے مارٹن ڈیوڈسن کی کتاب کا ترجمہ قرار دیا ہے۔افتخارشفیع نے اس مضمون میں بالکل نیا زاویہ پیش کیا ہے۔

                 (ڈاکٹررفیق الاسلام:مضمون سے مقتبس)  

٭         

        مجیدامجدشناسی کی روایت میں ڈاکٹروزیرآغا،ڈاکٹرخواجہ محمدزکریا،ڈاکٹرناصرعباس نیر،ڈاکٹرنوازش علی،ڈاکٹرمحمدامین اور ڈاکٹرعامرسہیل کے ساتھ اب ڈاکٹرافتخارشفیع کا نام بھی تواترسے لیاجانے لگا ہے۔انھوں نے گذشتہ دودہائیوں میں مجیدامجدشناسی کے مخفی گوشوں کی تلاش کا کام جاری رکھا ہے۔افتخارشفیع اسی شہر(منٹگمری)سے متعلق ہیں جہاں مجیدامجد نے اپنی زندگی کے شب وروز گزارے،اسی لیے ان کی رسائی بنیادی ماخذات تک ہوئی ہوگی۔اس کی ایک مثال مجیدامجد کے نام سے منسوب ”فسانہ آدم“نامی مسودہ ہے۔اولین درجے کے مجیدامجدشناسوں نے اسے مجیدامجد کی علم فلکیات پرلکھی گئی کتاب قرار دیا،اس پر مقالات تحریر کیے۔افتخارشفیع نے اپنے مبسوط مقالے میں اس مسودے کو ایک انگریزی کتاب کا ترجمہ قرار دیا۔اپنے مندرجات کوانھوں نے دلائل کے ساتھ ثابت کیا۔مجیدامجدکی ”کلیات نثر“کوجدید خطوط کے ساتھ مرتب کرکے انھوں نے مجیدامجدکے کمال فن کو نئی جہت دی ہے۔

                        (ڈاکٹرحسن محمدخان:مضمون سے مقتبس)

پروفیسرڈاکٹرافتخارشفیع کی اب تک منظرعام پرآنے والی کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:

1.نیلے چاند کی رات۔(شعری مجموعہ). افتخارشفیع کا اولین شعری مجموعہ۔اس میں ٖٓغزلیں اورنظمیں شامل ہیں۔اس میں ڈاکٹرشمیم حیدرترمذی،ڈاکٹروزیرآغا ،ڈاکٹراسلم انصاری اورسیدجعفرشیرازی کی آرا شامل ہیں۔

2.پاکستانی ادب کا منظرنامہ۔(مرتبہ) پاکستانی ادب کو شناخت دینے والے عمدہ مضامین کا انتخاب۔اس کتاب کا دیباچہ ڈاکٹروحیدعشرت نے لکھا ہے۔پروفیسر فتح محمدملک کی رائے فلیپ کے طورپرشامل ہے۔

3.شہر غزل کے بعد۔.(مرتبہ).ساہیوال ڈویژن کے شعرائے کرام کا خوب صورت انتخاب۔

4.اصناف شاعری۔اصناف شاعری کی تفہیم وتوضیح کے کے موضوع پر بہت مقبول ہونے والی کتاب،اس کے تین ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔اس کتاب پر ڈاکٹروحیدالرحمٰن خان کی رائے شامل ہے۔

5.اصناف نثر۔..۔اصناف نثر کی تفہیم وتوضیح کے کے موضوع پر بے حد مقبول ہونے والی کتاب،اس کے تین ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔اس کتاب پر جاویداختربھٹی کی رائے شامل ہے۔

6.ڈاکٹراسلم انصاری شخصیت اورفن۔(بہ سلسلہ پاکستانی ادب کے معمار اکادمی ادبیات پاکستان)... ڈاکٹراسلم انصاری کی علمی و ادبی شخصیت کی متنوع اوصاف پر تحریر کردہ کتاب۔

7.حفیظ الرحمٰن خان شخصیت اور فن۔..(مرتبہ).پاکستانی ادب کے نمائندہ ادیب کے فن اورشخصیت پر مضامین کا انتخاب

8.کلیات نثر مجید امجد۔.(مرتبہ).مجیدامجدکی نثربھی ان کی شاعری کی طرح اہم ہے۔اس کتاب میں ان کی نثرشائع کی گئی ہے۔اس میں تنقیدی مضامین،دیباچے،بچوں کے لیے تحریریں،کالم اورنظموں کے تجزیات کے علاوہ ان کے دونادرانٹرویو بھی شامل ہیں۔

9..اردوادب اور آزادی فلسطین۔اس کتاب میں اردو ادب اورمسئلہ فلسطین کے عنوان سے شاندار تحقیق کی گئی ہے۔ڈاکٹرمعین الدین عقیل کے مطابق اردوادب میں اس موضوع پراس نوعیت کا کام اس سے پہلے نہیں ہوا۔

10.آثار جنوں(مرتبہ)....اردو کے نامورشاعراورسردار عبدالرب نشتر کے استاد شیخ عطااللہ جنوں (م 1961ء)کی غیر مطبوعہ کلام کی تدوین کا خوب صورت کام

11.اردو غزل میں سراپا نگاری(تحقیقی مقالہ پی ایچ ڈی)۔کلاسیکی اردو غزل میں (محمدقلی قطب شاہ سے داغ دہلوی تک) محبوب کے حسن کی جلوہ آرائی اورسراپا نگاری پر شاندار تحقیقی کام۔یہ کتاب پاکستان کے علاوہ بھارت سے بھی شائع ہوئی ہے۔اس میں شمس الرحمٰن فاروقی اور لدمیلہ ویسیلیویا کی آرا شامل ہیں۔

12۔شواہدالہام از مولاناحالی(ترتیب) ۔مولانا الطاف حسین حالی کی ایک مقالے شواہدالہام کی نئے سرے سے اشاعت۔اسے ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور نے شائع کیا ہے۔اس میں ظفرسپل کا مبسوط مقدمہ شامل ہے۔

13۔مجیدامجد؛نئے تعینات۔ مجیدامجد کے فن اورشخصیت پر خوب صورت مضامین

14۔تذکرہ مہ وسال (ترتیب)ملک کی قدیم درسگاہ گورنمنٹ کالج ساہیوال کے سابق طلبہ کی یادداشتیں

15۔ڈاکٹرالف د نسیم (بہ سلسلہ پاکستانی ادب کے معمار اکادمی ادبیات پاکستان)۔اردو ادب کی اہم شخصیت کے فن پر تحریر کردہ شاندار کتاب

16۔فلسطین کی منتخب کہانیاں (تراجم)۔فلسطینی افسانوں کے تراجم۔اس کتاب میں مشاہدحسین سید اور ڈاکٹریوسف خشک کی آرا شامل ہیں

ڈاکٹر محمدافتخارشفیع آج کل ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب میں بطور پروفیسر اردو کام کر رہے ہیں۔ ان دنوں وہ گورنمنٹ کالج ساہیوال میں صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کے کام کو پاکستان اور ہند میں خاصی پزیرائی ملی ہے۔ ان کی شخصیت اور فن پر احمد ندیم قاسمی ,وزیرآغا،منیر نیازی،انتظارحسین،شمس الرحمن فاروقی،لدمیلہ ویسلیویا،معین الدین عقیل،اسلم انصاری ،محسن بھوپالی،اور ظفراقبال جیسے مشاہیر کی تحریریں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کی مختلف جامعات میں افتخارشفیع کی ادبی خدمات پر مقالہ جات لکھے گئے ہیں۔ ذیل میں ان کے منتخب اشعار دیے جا رہے ہیں۔

اک یاد شب رفتہ کے مرقد پہ چڑھی یاد

ورنہ یہ چراغوں کا دھواں کچھ بھی نہیں ہے

ہجرت کی گھڑی ہم نے ترے خط کے علاوہ

بوسیدہ کتابوں کو بھی سامان میں رکھا

قصہ گو تونے فراموش کیا ہے ورنہ

اس کہانی میں ترے ساتھ کہیں تھے ہم بھی

خاک تہ ہستی میں سمانے کے لیے ہیں

ہم لوگ کسی اور زمانے کے لیے ہیں

آؤ نکلیں شام کی ٹھنڈی سڑک پر افتخار

زندگی سے کچھ تو اپنا رابطہ رہ جائے گا

کمال اے دم وحشت کمال ہو گیا ہے

ہمارا خود سے تعلق بحال ہو گیا ہے

نجانے کون سی رت کی سفیر تھی وہ ہوا

درخت رو دیے جس کو سلام کرتے ہوئے

ڈاکٹرافتخارشفیع کی کتب کا مختصر تعارف

(نیلے چاند کی رات)

افتخارشفیع کا اولین شعری مجموعہ

یہ 1999میں فکشن ہاوس لاہور سے شایع ہوا۔ اس میں ان کی غزلیں،اورنظمیں شامل ہیں۔ اس کتاب کا دیباچہ ڈاکٹر شمیم حیدر ترمذی کا تحریر کردہ ہے جب کہ وزیر آغا،جعفر شیرازی اور اسلم انصاری کی آرا شامل ہیں۔

(پاکستانی ادب کا منظرنامہ)

پاکستانی ادب کے ترجمان پروفیسرحفیظ الرحمٰن خان کے منتخب مضامین کی ترتیب۔ اس کا دیباچہ ڈاکٹروحیدعشرت اور فلیپ پروفیسر فتح محمد ملک کا تحریر کردہ ہے۔ (شہر غزل کے بعد)

سید علی ثانی گیلانی کے ساتھ ساہیوال ڈویڏن کے شعرا کا انتخاب۔ یہ اس علاقے کے شعری منظر نامے کے حوالے ایک اہم دستاویز ہے۔ (اردو ادب اور آزادی فلسطین)

افتخارشفیع کے علمی و ادبی کام کی خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سیدہ سیفو لکھتی ہیں:

دو رتک پھیلی ہوئی رات کی پہنائی میں

تونے جوپیارکی قندیل جلا رکھی ہے

ایک ویران سرائے میں برنگ امجد(1)

محفل انجم و مہتاب سجا رکھی ہے

جب لرزتا ہے شبستاں میں کوئی زرد چراغ

ٹمٹماتے ہیں تری آنکھ میں اشکوں کے دیے

ڈھونڈ لیتا ہے کسی کھوئی ہوئی جنت کا سراغ

گل نہ ہوجائے کہیں آج چراغ امید

دیکھتی رہتی ہوں میں اے شخص ترا عکس جمیل

ہوچلی ظلمت شب اور طویل اور طویل

اسی تاریکی عالم سے الجھنا ہے تجھے

اک معما ہے بہرحال سلجھنا ہے تجھے