محمد بن سلیمان کردی
ابو عبد اللہ شمس الدین محمد آفندی بن سلیمان کردی مدنی المعروف ابنِ سلیمان (ولادت: 1714ء، 1126ھ - وفات: 21 مارچ 1780ء، 16 ربیع الاول 1194ھ) بارہویں صدی ہجری / اٹھارہویں صدی عیسوی کے مسلم، حجازی عالمِ دین تھے۔ آپ دمشق میں پیدا ہوئے اور مدینہ منورہ میں پرورش پائی۔ حجاز و غیر حجاز کے علما سے علم حاصل کیا۔ 1758ء میں اناطولیہ کے ارادے سے دمشق آئے اور پھر آپ کے لیے مدینہ منورہ میں مفتئ شافعیہ کے منصب سنبھالنے کا شاہی فرمان جاری ہوا۔ سرزمین حجاز میں فقیہِ شافعیہ کے نام سے معروف ہوئے اور سلفیوں وہابیوں کے بارے میں اپنی تنقیدی رائے کے سبب مشہور ہوئے۔ مدینہ منورہ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ کئی کتابیں لکھیں۔[1] [2] [3]
شیخ | |
---|---|
محمد بن سلیمان کردی | |
(عربی میں: محمد بن سليمان الكردي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1714ء دمشق |
وفات | 21 مارچ 1787ء مدینہ منورہ |
مدفن | جنت البقیع |
شہریت | سلطنت عثمانیہ |
مذہب | اسلام |
فقہی مسلک | شافعی |
عملی زندگی | |
استاذ | احمد الجوھری |
پیشہ | فقیہ ، معلم ، مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
درستی - ترمیم |
سیرت
ترمیمکرد خاندان مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے والا مشہور خاندان ہے۔ کردوں میں سے جو سب سے پہلے مدینہ منورہ ہجرت کر کے آئے وہ آپ کے والد سلیمان کردی ہیں جو 1115ھ/1703ء کو بلاد شام سے ہجرت کر کے یہاں آئے، اس پاک سرزمین کو اپنا وطن بنایا اور تدریس میں مشغول ہوئے، آپ رباط السبیل میں بچوں کے معلم تھے۔ اولاد میں سے ایک بیٹے ”محمد“ ہیں جو دمشق میں پیدا ہوئے، دوسرے ”احمد“ اور تیسرے ”ابراہیم“۔[2]
شیخ محمد بن ابوبکر سلیمان کردی 1126ھ /1714ء کو سلطنت عثمانیہ کے صوبہ شام، دمشق میں پیدا ہوئے جبکہ آپ کے والد یہیں قیام پزیر تھے۔ آپ کے سالِ پیدائش میں اختلاف ہے، ایک قول کے مطابق 1125ھ/1713ء اور دوسرے قول کے مطابق 1127ھ/1715ء ہے۔ آپ کی پیدائش کے ایک سال بعد آپ کے والد نے خاندان سمیت مدینہ منورہ ہجرت کی۔[2]
تعلیم
ترمیمآپ نے مدینہ منورہ میں پرورش پائی، حفظِ قرآن کے بعد علمائے کرام سے سیکھنا شروع کیا اور اکابر فقہائے شافعیہ سے تعلیم حاصل کی۔ یہاں آپ نے سعید سنبل، اپنے والد سلیمان، یوسف کردی، احمد جوہری اور مصطفی بکری وغیرہ علما سے استفادہ کیا پھر حجاز سے باہر کا سفر اختیار کیا اور اپنے دور کے کثیر علما سے واقف ہوئے اور انھیں میں سے ایک آپ کا سفر دمشق ہے جو 1172ھ/1758ء کو اناطولیہ کے ارادہ سے کیا۔[2]آپ مصطفیٰ بکری، شمس محمد دمیاطی، احمد جوہری، ابو طاہر کورانی، حامد بن عمر علوی، محمد سعید سنبل، عبد الرحمن بن عبد اللہ بلفقیہ وغیرہ علما و مشائخ سے روایت کرتے ہیں۔آپ نے علومِ عقلیہ و نقلیہ میں مہارت حاصل کی اور فقہ شافعی میں خاص طور پر نمایاں ہوئے۔ جب آستانہ میں موجود شیخ الاسلام کو آپ کی علومِ شرعیہ میں مہارت علم ہوا تو انھوں نے آپ کے لیے مدینہ منورہ میں مفتئ شافعیہ کے منصب پر فائز ہونے کا شاہی فرمان جاری کرایا۔
شاگرد
ترمیمطلبہ کی ایک بڑی تعداد نے آپ سے تعلیم حاصل کی ان میں سے چند یہ ہیں: سالم بن ابو بکر انصاری کرانی، علی خباز، علی بن عبد الخالق بن جمال الدین، محمد سمان بن عبد الکریم شافعی، عبد الرحمٰن اہدل، محمد بن عبد الرحمن الکزبری، احمد بن عبید عطار، صالح بن محمد بن نوح فلانی عمری، محمد بن حسین جفری علوی، محمد سعید کورانی، یحییٰ مزوری عمادی، محمد بن عبد الوہاب۔[2]
آراء
ترمیموہابی سلفی نظریہ کی مخالفت
ترمیمآپ کے شاگردوں میں سے وہابی سلفی نظریہ کا بانی محمد بن عبد الوہاب بھی تھا۔ اس نے مدینہ منورہ میں آپ سے پڑھا۔ آپ نے اس سے اختلاف کیا ہے اور اس کے اسلوبِ دعوت پر تنقید کرتے ہوئے آپ نے اس کو خط لکھا جس میں کہا:[2] [5]
اے ابن عبد الوہاب!
اس پر سلام ہو جس نے ہدایت کی پیروی کی
اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے میں تمھیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم مسلمانوں (کی تکفیر) سے اپنی زبان کو لگام ڈالو۔ اگر تم کسی شخص سے سنو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اس شخص کے مؤثر ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے جس سے وہ استغانہ/فریاد کر رہا ہے تو تم اسے درست بات کی پہچان کراؤ اور اس کے سامنے اس بات کے دلائل رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مؤثر نہیں پھر بھی اگر وہ نہ مانے تو اس صورت میں خاص اس شخص کی تکفیر کرو لیکن مسلمانوں کے سوادِ اعظم کی تکفیر کی کوئی گنجائش نہیں۔ تم سواد اعظم سے جدا ہو اور جو شخص سواد اعظم سے جدا ہو اس کی طرف کفر کی نسبت زیادہ قریب ہے کیونکہ اس نے مسلمانوں کے راستے سے جدا راستہ اختیار کیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيرًا﴾ [[[سورہ سانچہ:نام سورہ 4|4]]:115]سانچہ:اقتباس 2 اور بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے جدا ہوتی ہے۔
علمائے نجد میں سے ابن غنام اور ابن بشر وغیرہ بعض تذکرہ نویسوں نے اس بات کو بعید قرار دیا ہے کہ ابن عبد الوہاب شیخ محمد بن سلیمان کا شاگرد ہے اور ان تذکرہ نویسوں کے گمان کے مطابق ایسا صرف احمد زینی دحلان نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے۔ حالانکہ سلفی وہابی ائمہ کے نظریات کے رد اور مخالفت میں شیخ محمد بن سلیمان کردی کے جوابات پر مشتمل قلمی نسخے ثابت شدہ موجود ہیں اسی طرح انھوں نے اس مسئلے میں سلیمان بن عبد الوہاب کے رسالے کی تائید و تعریف کرتے ہوئے اس پر تقریظ بھی لکھی ہے۔[2]
لائبریری
ترمیمآپ کو کتابیں جمع کرنے کا بہت شوق تھا لہٰذا آپ کے پاس ایک بہت عظیم الشان لائبریری موجود تھی۔ کہا گیا ہے کہ اس لائبریری کا کچھ حصہ شہر تریم، حضرموت میں اور کچھ حصہ سیؤن، حضرموت میں ہے۔[2]
وفات
ترمیمشیخ محمد بن سلیمان کردی نے 16 ربیع الاول 1194/21 مارچ 1780ء کو سڑسٹھ سال کی عمر میں عثمانی صوبہ حجاز کے شہر مدینہ منورہ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں قبہ حضرت عباس کے پڑوس میں تدفین ہوئی۔[2]
تصانیف
ترمیمآپ نے بہت سی کتابیں لکھیں، جن میں سے چند یہ ہیں:[6]
- الاصول الدینیہ فی شرح الرسالۃ
- العلاویۃ
- اربعون حدیثا
- الانتباہ فی تعجیل الصلاۃ
- الثغر البسام عن معانی الصور التی یزوج فیہا الحکام
- الجامع للاسرار الالہیۃ والحقائق الربانیۃ والحکم الدیانیۃ
- الحواشی المدنیۃ علی شرح ابن حجر (دو جلدیں)
- الحواشی المدنیۃ علٰ شرح المقدمۃ الحضرمیۃ
- الدرۃ البہیۃ فی جواب الاسئلۃ الجاویۃ
- تحفۃ الحبیب بشرح نظم غایۃ التقریب
- تشیید البنیان
- جالیۃ الہم والتوان عن الساعی لقضاء حوائج الانسان
- حاشیۃ الشوبری علی شرح التحریر
- حاشیۃ علی شرح الغایۃ للخطیب
- زہر الربی فی بیان احکام الربا
- شرح جمع الجوامع
- شرح فرائض التحفۃ
- شرح منظومۃ الناسخ والمنسوخ
- عقود الدرر فی مصطلحات تحفۃ ابن حجر
- الفتاوی
- فتح الفتاح بالخیر فی معرفۃ شروط الحج عن الغیر / فتح الفتاح فی شروط الحج
- فتح القدیر باختصار متعلقات نسک الاجیر
- الفوائد المدنیۃ فیمن یفتی بقولہ من ائمۃ الشافعیۃ
- کاشف اللئام عن حکم التجرد قبل المیقات بالاحرام
- کشف المروط عما للوضوء من الشروط
- منہل التوحید
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "محمد بن سليمان الكردي المدني الشافعي"۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 فروری 2020
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح أعلام من أرض النبوة۔ المدينة، السعودية: الخزانة الكتبية الحسنية الخاصة۔ 1993
- ↑ الأعلام۔ المجلد السادس۔ بيروت، لبنان: دار العلم للملايين۔ 2002
- ↑ "مخطوطات > ترجمة الشيخ محمد بن سليمان الكردي المتوفي سنة 1194هـ > الصفحة رقم 1"۔ 04 فروری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مارچ 2020
- ↑ دعاوى المناوئين لدعوة الشيخ محمد بن عبد الوهاب عرض ونقد۔ الرياض، السعودية: دار طيبة۔ 1989
- ↑ "المؤلف - محمد بن سليمان الكردي"۔ 29 فروری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 فروری 2020