محمد حسین نیلوی

پاکستانی عالم دین

محمد حسین نیلوی شاہ صاحب دیوبندی مکتب فکرکے مشہور عالم دین ہیں۔

محمد حسین نیلوی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1922ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نیلہ، چکوال   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 18 فروری 2006ء (83–84 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ حسین علی نقشبندی میانوالوی ،  کفایت اللہ دہلوی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسب

ترمیم

آپ کاپورانام محمدحسین ہے آپکانسب کچھ یوں ہے :محمدحسین بن گل محمدبن محمدافضل بن بدرالدین بن سلطان احمدبن الغازی لطف الله بن نورمحمد[1]

پیدائش

ترمیم

آپ صفرالمظفر 1341ھ بمطابق ستمبر 1922ء کو بمقام نیلہ ضلع چکوال میں اپنے ننہال کے ہاں پیدا ہوئے اور اسی نسبت سے آپ نیلوی کہلائے [1]

خاندان

ترمیم

آپ کا تعلق ایک دیندار گھرانے سے تھا جو بھگوال ضلع چکوال میں آباد تھا آپ کے چچا محمد شاہ جہلمی معروف عالم دین اور حسین علی الوانی کے خلیفہء مجاز تھے۔ آپ کے جد امجد نور محمد بھی صوفی منش انسان تھے جن کا مزار آج بھی چکوال میں واقع ہے

تعلیم و تربیت

ترمیم

آپ چارسال کے تھے کہ آپ کے چچامحمدشاہ جہلمی انھیں اپنے ساتھ چنیوٹ لے آئے اورآپ کی تعلیم و تربیت کاغیرمعمولی انتظام فرمایاآپ نے15سال تک چنیوٹ کی مختلف مساجدمیں رہ کراپنے چچاسے مختلف علوم وفنون میں مہارت حاصل کی اس کے علاوہ عصری علوم اورفن کتابت سیکھنے کے لیے ماسٹرعنایت الله گجراتی کی خدمات حاصل کیں(ناشرالقرآن ص 14،15)۔ عصری علوم اورفنون میں مہارت حاصل کرنے کے بعدآپ کے چچانے خط دے کرآپ کواپنے پیربھائی ولی الله کے ہاں موضع انہی تحصیل ملکوال ضلع منڈی بہاو الدین بھیجاجہاں آپ نے مختلف علوم وفنون میں مہارت تامہ حاصل کی اسی دوران میں آپ کوحسین علی الوانی سے درس قرآن پڑھنے اور بیعت ہونے کاشرف حاصل ھواانہی میں آپ کے ساتھی شاگردوں میں رشیداحمد لدھیانوی اوربشیراحمدخوشابی بھی شامل تھے ۔[2] دورہ حدیث کے لیے آپ کومدرسہ امینیہ دہلی میں مفتی کفایت الله دہلوی کے ہاں بھیجنے کافیصلہ ہواجہاں آپ نے مفتی صاحب کے علاوہ خدابخش بھیروی اورضیاءالحق دیوبندی سے20سال کی عمرمیں دورۂ حدیث کی تکمیل کی آپ نے مفتی صاحب کی زیرنگرانی فتوی نویسی اورخوشخطی پر بھی دسترس حاصل کی۔

شادی

ترمیم

آپ کو دہلی میں مفتی صاحب کی خصوصی شفقت حاصل رہی اور انھی کی زیرنگرانی آپ رشتہء ازدواج سے منسلک ہوئے۔

تدریسی اورتبلیغی سرگرمیاں

ترمیم

آپ اسی مدرسہ میں درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے جہاں آپ نے قیام پاکستان تک اپنے فرائض بخوبی نبھائے اس دوران میں آپ نے مختلف علوم وفنون کے نقشے اور رسالہ "انوارالمطالع فی ہدایات المطالع" تالیف فرما کرشائع فرمایاجن کو بحمدالله مقبولیت عامہ حاصل ہوئی۔1947ءسے1965ءتک کے اٹھارہ سالوں میں آپ نے بھیرہ،موچھ، فیصل آباد،سرگودھااور چوکیرہ کے مختلف اداروں میں تدریسی خدمات سر انجام دیں قیام موچھ ضلع میانوالی کے دوران میں آپ نے روزنامہ "شان" میانوالی اورروزنامہ "سرحد" پشاورکے لیے متفرق مضامین تحریرفرمائے ۔[3] چوکیرہسے آپ کی ہی استدعاپراحمدشاہ چوکیروی نے الفاروق جاری کیاتھا۔1965ءمیں آپ ضیاءالعلوم سرگودھاتشریف لائے اوراپنے پیر بھائی محمدامیربندیالوی کے ساتھ مل کردین حق کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ محمدامیر بندیالوی اورآپ کارشتہ سگے بھائیوں سے بھی بڑھکرتھاچنانچہ دونوں نے ملکرایک بڑے کام کی نیواٹھائی اوراس دوران میں تلقین شیعہ اوردعاءبریلویہ کی تردید میں "شفاءالصدورفی تحقیق عدم سماع من فی القبور"(عربی)،حیات النبی ص سے متعلق مختلف مکاتب فکر مثلامرزائی،بریلوی،روافض وغیرہ کے عقائدکی تردیدمیں"الصراط المستقیم فی اثبات الحیاۃ البرزخیہ للنبی الکریم علیہ صلوۃوالتسلیم"(اردو) اورتقسیر "فیض الجلیل فی تسہیل التنزیل"(اردو،15جلدیں) جیسی نادرالوجودتصانیف معرض وجودمیں آئیں محمد امیربندیالوی کی وفات کے بعد آپ نے مدرسہ ضیاءالعلوم کا انتظام انتہائی متانت اورسنجیدگی سے چلایااورتقریباً 36سال تک اس سے وابستہ رہے اس دوران میں آپ نے فتوی نویسی،تصنیف وتالیف اوردرس وتقریرکاکام بھی جاری رکھااورخلق خداتک حق کاپیغام پہنچایاآپ سنہری مسجدبلاک اے سیٹلائیٹ ٹاؤن میں خطیب رہے۔۔[4] آپ نے2000ءکے آواخرمیں ضیاءالعلوم سے علیحدگی اختیارکرلی اور 2001ءمیں محمدیہ کالونی گلی نمبر2سرگودھامیں جامعہ محمدیہ حسینیہ کی داغ بیل ڈالی لیکن معاشی بدحالی کی وجہ سے ادارہ کامیاب نہ ہو سکا۔

سفر آخرت

ترمیم

2004ءمیں آپ نے کتاب"مظلوم کربلارض" شائع فرمائی جس کی بناپربعض لوگوں نے آپ پر گستاخئ حسین رض کامقدمہ درج کروایاجس کی وجہ سے آپ گرفتارہوکرپہلے سرگودھاجیل اورپھراڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل ہو گئے جہاں آپ شدیدبیمارپڑگئے اور18فروری2006ءبمطابق20 محرم الحرام1427ھ بروزاتوار کووفات پائی۔

تصانیف

ترمیم

جس کام نے نیلوی شاہ کوجماعتی حلقوں میں سب سے زیادہ مقبول بنایاوہ ان کی تصنیفی خدمات ہیں۔ بلامبالغہ آپ نے جماعت کی نظریاتی بنیادوں کی وضاحت کی۔آپ کی تصانیف جماعت کی ترجمانی کرتی نظرآتی ہیں۔ آپ کواپنی زندگی میں معاشی بدحالی نے کچھ نہ کرنے دیا اورآپ کی وفات کے بعدنہ ہی جماعتی سطح پراورنہ ہی کسی ناشرنے یک سوہو کران کی کتابوں پرکام کیا۔اس فہرست میں وہ کتب اوررسائل شامل نہیں ہیں جوتفسیرفیض الجلیل یافتاوی حسینیہ کاحصہ ہیں مثلاتبیین القرآن،مرآۃالقرآن،رفع الاشتباہ،رفع عیسی ع وغیرہ کیونکہ یہ کوئی مستقل تصانیف نہیں ہیں بلکہ تفسیراورفتاوی حسینیہ کاہی حصہ ہیں:

  • تفسیرفیض الجلیل فی تسہیل التنزیل اردو۔
  • فتاوی حسینیہ۔
  • شفاءالصدورعربی۔
  • ندائے حق تین جلدیں۔
  • الصراط المستقیم فی اثبات حیات البرزخیہ للنبی الکریم علیہ الصلوة والتسلیم۔
  • فتح الرحمن فی قیام رمضان۔
  • مواہب رحمانی درمسائل قربانی۔
  • فیض المستغاث فی حکم الطلقات الثلاث۔
  • خیرالکلام فی تقبیل الابہام۔
  • الکلمات الصادقہ فی حکم الزنادقہ۔
  • الادلتہ المنصوصہ فی صفات الله المخصوصہ۔
  • القول الاتم فی حیات عیسی ابن مریم ع۔
  • رق منشورفی احکام الموتی والقبور۔
  • ناشرالقرآن سوانح حسین علی الوانی رح)
  • الریاض الناظرہ فی جمع الفروق المتناثرہ عربی۔
  • اسلوب بیان القرآن۔
  • فتح المغیث شرح تحریرات حدیث عربی۔
  • ردمنکرات حیات الاموات۔
  • ضیائے حق عربی(رسائل خمسہ)۔
  • دنیا میں اروح کاملین کے تصرف کاعقیدہ۔
  • القول المرعی فی القبر الشرعی۔
  • عقائدعلمائے دیوبندالمعروف احسن العقائد۔
  • صلوة وسلام برنبی علیہ السلام۔
  • ایصال ثواب اوراہل سنت کاعقیدہ۔
  • ادعیہ مبارکہ۔
  • اطیب الکلام فی نکاح یوسف ع۔
  • طلاق دینے کا شرعی طریقہ۔
  • عیدمیلادالنبی ص اوراس کی شرعی حثیت۔
  • بشریت نبوی ص۔
  • پیران پیرتاریخ کی روشنی میں۔
  • معراج النبی ص حقائق کی روشنی میں۔
  • ازالة الاشتباہ عن اخبار یا عبادالله۔
  • فضل المعبودفی ہیت المرأة فی السجود۔
  • حق الاظہار فی تحقیق معنی الشغار۔ م
  • قدرت الرب فی ولادت عیسی ع من غیر اب۔
  • مرزاقادیانی کی تضادبیانی۔
  • مرزا قادیانی کی تحریف قرآنی۔
  • خاتم النبیین ص۔
  • کلمہء طیبہ اورنمازکاتشریحی ترجمہ۔
  • نظم اللغات فی سلک الابیات۔
  • غایة المنی فی وجوب اعفاء للحیی۔
  • اصول کتب ستہ۔
  • فیض المغیث فی اصول الحدیث۔
  • شجرات۔
  • المیراث۔
  • سواداعظم۔
  • ظریف اللغات۔
  • لغت۔
  • یزید کون تھا؟۔
  • حاشیہ الجریدتین علی القبر۔
  • حاشیہ میزان البلاغہ۔
  • رسالہ ردالمتعہ۔
  • الفائدة البہیہ فی ردالتقیہ۔
  • وفیات المشاہیر۔
  • التعریفات۔
  • التوہینات۔
  • انوارالمطالع فی ہدایات المطالع۔
  • الفائض فی الدعا بعد الفرائض۔
  • اظہارالحق(روداد مناظرہ سمندری)۔
  • مظلوم کربلا رض۔
  • اپریل فول۔
  • رذیل عادتیں۔
  • القائد فی العقائدعربی۔
  • المصطلحات المختلفہ۔
  • جمع الفنون علی نہج القانون۔
  • تلخیص الاصول۔
  • نظم الاصول فی علم الاصول۔
  • تحقیق من دون الله۔
  • منظوم کلام۔
  • طریقہء مناسک حج۔
  • اسلام کے سات کلمات۔
  • تصویرکی شرعی حثیت۔
  • بدرمنیرحاشیہ تفسیربے نظیر۔
  • اصلاح النیة فی تحصیل علوم الدینیہ۔
  • منزل۔
  • اسراء ومعجزة النبی ص۔
  • التلبیس والتدلیس۔
  • شرائط ایمان۔
  • مسائل ضروریہ۔
  • رسمی مسلمان۔
  • خیرالصلوة۔
  • البیان التام فی التلاوة علی الطعام۔
  • خلاصة الافکارمن کلام الرحمن والآثار۔
  • غسل رجلین۔
  • حسین علی الوانی کااسلوب تفسیر۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب ناشرالقرآن ص 14،محمد حسین نیلوی،گلستان پرنٹنگ پریس سرگودھا
  2. سعادت دارین قلمی ص 97،محمدطیب واسطی
  3. ندائے حق ج1ص385،محمدحسین نیلوی،مکتبہ اشاعت الاسلام دہلی ہندوستان
  4. ضلع سرگودھاکی علمی و دینی شخصیات ص 210،محمداحمدشاہ،تحقیقی مقالہ برائے ایم فل علوم اسلامیہ،2002ء-2004ء،اسلامک سنٹرپنجاب یونیورسٹی لاہور