محمد حسین نیلوی
محمد حسین نیلوی شاہ صاحب دیوبندی مکتب فکرکے مشہور عالم دین ہیں۔
محمد حسین نیلوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1922ء نیلہ، چکوال |
تاریخ وفات | 18 فروری 2006ء (83–84 سال) |
شہریت | پاکستان |
عملی زندگی | |
استاذ | حسین علی نقشبندی میانوالوی ، کفایت اللہ دہلوی |
پیشہ | عالم ، مصنف |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیمآپ کاپورانام محمدحسین ہے آپکانسب کچھ یوں ہے :محمدحسین بن گل محمدبن محمدافضل بن بدرالدین بن سلطان احمدبن الغازی لطف الله بن نورمحمد[1]
پیدائش
ترمیمآپ صفرالمظفر 1341ھ بمطابق ستمبر 1922ء کو بمقام نیلہ ضلع چکوال میں اپنے ننہال کے ہاں پیدا ہوئے اور اسی نسبت سے آپ نیلوی کہلائے [1]
خاندان
ترمیمآپ کا تعلق ایک دیندار گھرانے سے تھا جو بھگوال ضلع چکوال میں آباد تھا آپ کے چچا محمد شاہ جہلمی معروف عالم دین اور حسین علی الوانی کے خلیفہء مجاز تھے۔ آپ کے جد امجد نور محمد بھی صوفی منش انسان تھے جن کا مزار آج بھی چکوال میں واقع ہے
تعلیم و تربیت
ترمیمآپ چارسال کے تھے کہ آپ کے چچامحمدشاہ جہلمی انھیں اپنے ساتھ چنیوٹ لے آئے اورآپ کی تعلیم و تربیت کاغیرمعمولی انتظام فرمایاآپ نے15سال تک چنیوٹ کی مختلف مساجدمیں رہ کراپنے چچاسے مختلف علوم وفنون میں مہارت حاصل کی اس کے علاوہ عصری علوم اورفن کتابت سیکھنے کے لیے ماسٹرعنایت الله گجراتی کی خدمات حاصل کیں(ناشرالقرآن ص 14،15)۔ عصری علوم اورفنون میں مہارت حاصل کرنے کے بعدآپ کے چچانے خط دے کرآپ کواپنے پیربھائی ولی الله کے ہاں موضع انہی تحصیل ملکوال ضلع منڈی بہاو الدین بھیجاجہاں آپ نے مختلف علوم وفنون میں مہارت تامہ حاصل کی اسی دوران میں آپ کوحسین علی الوانی سے درس قرآن پڑھنے اور بیعت ہونے کاشرف حاصل ھواانہی میں آپ کے ساتھی شاگردوں میں رشیداحمد لدھیانوی اوربشیراحمدخوشابی بھی شامل تھے ۔[2] دورہ حدیث کے لیے آپ کومدرسہ امینیہ دہلی میں مفتی کفایت الله دہلوی کے ہاں بھیجنے کافیصلہ ہواجہاں آپ نے مفتی صاحب کے علاوہ خدابخش بھیروی اورضیاءالحق دیوبندی سے20سال کی عمرمیں دورۂ حدیث کی تکمیل کی آپ نے مفتی صاحب کی زیرنگرانی فتوی نویسی اورخوشخطی پر بھی دسترس حاصل کی۔
شادی
ترمیمآپ کو دہلی میں مفتی صاحب کی خصوصی شفقت حاصل رہی اور انھی کی زیرنگرانی آپ رشتہء ازدواج سے منسلک ہوئے۔
تدریسی اورتبلیغی سرگرمیاں
ترمیمآپ اسی مدرسہ میں درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے جہاں آپ نے قیام پاکستان تک اپنے فرائض بخوبی نبھائے اس دوران میں آپ نے مختلف علوم وفنون کے نقشے اور رسالہ "انوارالمطالع فی ہدایات المطالع" تالیف فرما کرشائع فرمایاجن کو بحمدالله مقبولیت عامہ حاصل ہوئی۔1947ءسے1965ءتک کے اٹھارہ سالوں میں آپ نے بھیرہ،موچھ، فیصل آباد،سرگودھااور چوکیرہ کے مختلف اداروں میں تدریسی خدمات سر انجام دیں قیام موچھ ضلع میانوالی کے دوران میں آپ نے روزنامہ "شان" میانوالی اورروزنامہ "سرحد" پشاورکے لیے متفرق مضامین تحریرفرمائے ۔[3] چوکیرہسے آپ کی ہی استدعاپراحمدشاہ چوکیروی نے الفاروق جاری کیاتھا۔1965ءمیں آپ ضیاءالعلوم سرگودھاتشریف لائے اوراپنے پیر بھائی محمدامیربندیالوی کے ساتھ مل کردین حق کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ محمدامیر بندیالوی اورآپ کارشتہ سگے بھائیوں سے بھی بڑھکرتھاچنانچہ دونوں نے ملکرایک بڑے کام کی نیواٹھائی اوراس دوران میں تلقین شیعہ اوردعاءبریلویہ کی تردید میں "شفاءالصدورفی تحقیق عدم سماع من فی القبور"(عربی)،حیات النبی ص سے متعلق مختلف مکاتب فکر مثلامرزائی،بریلوی،روافض وغیرہ کے عقائدکی تردیدمیں"الصراط المستقیم فی اثبات الحیاۃ البرزخیہ للنبی الکریم علیہ صلوۃوالتسلیم"(اردو) اورتقسیر "فیض الجلیل فی تسہیل التنزیل"(اردو،15جلدیں) جیسی نادرالوجودتصانیف معرض وجودمیں آئیں محمد امیربندیالوی کی وفات کے بعد آپ نے مدرسہ ضیاءالعلوم کا انتظام انتہائی متانت اورسنجیدگی سے چلایااورتقریباً 36سال تک اس سے وابستہ رہے اس دوران میں آپ نے فتوی نویسی،تصنیف وتالیف اوردرس وتقریرکاکام بھی جاری رکھااورخلق خداتک حق کاپیغام پہنچایاآپ سنہری مسجدبلاک اے سیٹلائیٹ ٹاؤن میں خطیب رہے۔۔[4] آپ نے2000ءکے آواخرمیں ضیاءالعلوم سے علیحدگی اختیارکرلی اور 2001ءمیں محمدیہ کالونی گلی نمبر2سرگودھامیں جامعہ محمدیہ حسینیہ کی داغ بیل ڈالی لیکن معاشی بدحالی کی وجہ سے ادارہ کامیاب نہ ہو سکا۔
سفر آخرت
ترمیم2004ءمیں آپ نے کتاب"مظلوم کربلارض" شائع فرمائی جس کی بناپربعض لوگوں نے آپ پر گستاخئ حسین رض کامقدمہ درج کروایاجس کی وجہ سے آپ گرفتارہوکرپہلے سرگودھاجیل اورپھراڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل ہو گئے جہاں آپ شدیدبیمارپڑگئے اور18فروری2006ءبمطابق20 محرم الحرام1427ھ بروزاتوار کووفات پائی۔
تصانیف
ترمیمجس کام نے نیلوی شاہ کوجماعتی حلقوں میں سب سے زیادہ مقبول بنایاوہ ان کی تصنیفی خدمات ہیں۔ بلامبالغہ آپ نے جماعت کی نظریاتی بنیادوں کی وضاحت کی۔آپ کی تصانیف جماعت کی ترجمانی کرتی نظرآتی ہیں۔ آپ کواپنی زندگی میں معاشی بدحالی نے کچھ نہ کرنے دیا اورآپ کی وفات کے بعدنہ ہی جماعتی سطح پراورنہ ہی کسی ناشرنے یک سوہو کران کی کتابوں پرکام کیا۔اس فہرست میں وہ کتب اوررسائل شامل نہیں ہیں جوتفسیرفیض الجلیل یافتاوی حسینیہ کاحصہ ہیں مثلاتبیین القرآن،مرآۃالقرآن،رفع الاشتباہ،رفع عیسی ع وغیرہ کیونکہ یہ کوئی مستقل تصانیف نہیں ہیں بلکہ تفسیراورفتاوی حسینیہ کاہی حصہ ہیں:
|
|
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب ناشرالقرآن ص 14،محمد حسین نیلوی،گلستان پرنٹنگ پریس سرگودھا
- ↑ سعادت دارین قلمی ص 97،محمدطیب واسطی
- ↑ ندائے حق ج1ص385،محمدحسین نیلوی،مکتبہ اشاعت الاسلام دہلی ہندوستان
- ↑ ضلع سرگودھاکی علمی و دینی شخصیات ص 210،محمداحمدشاہ،تحقیقی مقالہ برائے ایم فل علوم اسلامیہ،2002ء-2004ء،اسلامک سنٹرپنجاب یونیورسٹی لاہور