محمد شفیع چترالی
محمد شفیع چترالی، محمد شفیع ان کا اسم گرامی، شاہد تخلص اور چترالی علاقائی نسبت ہے۔ 15 اگست 1977ء کو چترال کے یخ بستہ خطے میں جنم لیا، ٹھنڈا پن و میٹھا پن جہاں کا خاصہ اور حسن و اعتدال جہاں ہر بستی کے خمیر اور ہر باسی کے ضمیر کا جز ہے۔ سادہ و ملنسار قبائلی حبیب اللہ کے گھر پیدا ہوئے۔ گرم چشمہ نامی گاؤں میں پرورش پائی، اپنی محنت و لگن سے اپنا مقام بنایا اور آج آسمان صحافت کے تابندہ ستارہ ہیں۔[1]
محمد شفیع چترالی نے ہوش سنبھالا تو ایوان صدر میں جنرل ضیاء الحق کا راج اور وزارت کا تاج محمد خان جونیجو کے سر پر تھا، میٹرک اپنے گاؤں سے کیا، تب تک سائنس کا یہ اسٹوڈنٹ میڈیکل ڈاکٹر بننے کے خوابوں میں مگن تھا، لیکن دسویں میں ایک قریبی گورنمنٹ اسکول کے ہیڈ ماسٹر سے ملاقات نے ان کے خیالات کا دھارا بدل دیا۔ قاری جلال الدین کے صرف چند کلمات نے انھیں جسم کا ڈاکٹر بننے کی بجائے روح کا معالج بنا دیا۔ نوے کی دہائی میں کراچی وارد ہوئے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا۔ 2000ء میں یہیں سے دستار فضیلت حاصل کی۔ اگلے سال جامعہ کی شاخ مدرسہ تعلیم الاسلام گلشن عمر میں تدریس کا آغاز فرمایا۔ دار العلوم کورنگی کے قدیم استاد مفتی نعمت اللہ چترالی ان کے سسر ہیں۔[1]
بچپن سے تخلیقی ذوق پایا ہے، تحریر سے رشتہ تیسری کلاس میں ہی جڑ گیا تھا جب انھوں نے کراچی میں موجود اپنے ان پڑھ والد کو لکڑی کے کوئلے سے خط لکھنے کی کوشش کی تھی۔ چوتھی جماعت میں انھوں نے اسی شہر میں مقیم اپنے تایا جی کو محبت نامہ بھیج کر بطور انعام معروف برانڈ کی قیمتی گھڑی حاصل کی تھی۔ ششم میں بی بی سی اور ریڈیو پاکستان کے اردو پروگرام سننے شروع کیے تھے۔ ہفتم میں اپنی تقریر خود لکھ کر اسکول کی بزم ادب میں پیش کی تھی جبکہ دسویں جماعت میں وہ اپنی اولین نظم تک لکھ چکے تھے۔ سٹوڈنٹ لائف سے جمعیۃ طلبہ اسلام میں متحرک رہے ہیں۔ آج بھی ان کا فکری تعلق اول و آخر تحریک شیخ الھند اور نظریاتی بندھن جمعیت علما اسلام سے ہے۔[1]
لکھنے کا آغاز زمانہ طالب علمی میں کیا تھا۔ 1996ء میں ضرب مومن سے اپنے صحافتی سفر کی ابتدا کی، "عزم نو" سمیت دیگر جرائد میں بھی لکھتے رہے۔ روزنامہ اسلام کا آغاز ہوا تو اداریہ نویسی کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آپڑی۔ اگرچہ ان کا اصل شوق کالم نگاری اور شاعری سے ہے لیکن باوجود ایں ہمہ اس بار گراں کو جس حسن و خوبی کے ساتھ حضرت نے سنبھالا یہ ان کی خداداد صلاحیتوں اور کمالات کا مظہر ہے۔ وہ اب تک تین ہزار سے زائد اداریئے لکھ چکے ہیں۔ روزنامہ اسلام کے لیے انھیں دریافت کرنے کا کریڈٹ اخبار کے بانی ایڈیٹر قاری عبد الرحمن کو جاتا ہے۔ مولانا شفیع چترالی کے اداریوں میں معروضیت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ جذباتیت ان کی تحریر میں مفقود اور خیالی تصورات عنقاء ہوتے ہیں۔ ان کے تمام مضامین میں معقولیت کو اولیت دی جاتی ہے۔ الفاظ کے پیچ و خم میں الجھنے کی بجائے مقصدیت اور معنویت پر توجہ مرکوز ہوتی ہے اور یہی انفرادیت انھیں اپنے دیگر معاصر سے ممتاز بناتی ہے۔ ان کا اسلوب تحریر ادبیانہ کی بجائے صحافیانہ ہے۔ بھاری بھرکم الفاظ اور ثقیل جملوں کی بجائے آپ تسہیل نگارش کو ترجیح دیتے ہیں۔ مولنا سید مناظر احسن گیلانی ان کے پسندیدہ لکھاری جبکہ عبد القادر حسن فیورٹ کالم نگار ہیں۔[1]
سات ستمبر 2003ء کو انھوں نے "دوائے دل" کے عنوان سے اپنے نام کے ساتھ کالموں کی دنیا میں قدم رکھا۔ روزنامہ اسلام کے صفحات پر "دوائے دل" کے نسخے انہی کے مطب سے تیار ہوکر آتے ہیں۔ اسی نام سے ان کے منتخب کالمز کا مجموعہ بھی چھپ چکا ہے۔ ضرب مومن کے صفحات پر "مسٹر کلین" کی آڑ میں لبرل حضرات کو آڑے ہاتھوں لینے والے "ملا مسکین" کو ہمراز احباب موصوف کا ہمزاد بتاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جدوجہد آزادی کو سمجھنے اور انقلابی تاریخ سے واقفیت کے لیے "تحریکات حریت" کے نام سے ان کی شاہکار تالیف تمام علمی و ادبی حلقوں سے داد تحسین وصول کرچکی ہے۔ مولنا آزاد کے نجی خطوط پر مشتمل "غبار خاطر" ان کی پسندیدہ کتاب ہے۔[1]
اکابر میں شیخ الہند اور مدنی سے محمد شفیع کو خاص عقیدت ہے۔ امام الہند کی سیاسی بصیرت کے اور ادبی مہارت دونوں کے قائل ہیں۔ اپنے اساتذہ و مشائخ میں وہ سب سے زیادہ مولانا یوسف لدھیانوی شہید سے متاثر ہیں۔ آپ موصوف کی تحریروں کے عاشق رہے ہیں۔ مفتی نظام الدین شامزئ شہید بھی ان کی آئیڈیل شخصیات میں شامل ہیں۔ محمد شفیع کی کتاب "تحریکات حریت" کا انتساب اسی "مرد حر" کے نام ہے۔ اولین کتاب کا انتساب بھی اپنے ایک استاد مولانا یسین صاحب کے نام ہے۔ بنوری ٹاؤن کے مہتمم ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر ان کے پسندیدہ اسکالر ہیں۔ سیاست میں حافظ حسین احمد کے مداح اور مولانا فضل الرحمن کے پرستار ہیں۔ فقاہت میں مفتی تقی عثمانی کے گرویدہ جبکہ شعرا میں علامہ محمد اقبال سے متاثر ہیں۔[1]