محمد عبد اللہ گجراتی سیال شریف کے روحانی پیشوا خواجہ شمس الدین سیالوی کے خلیفہ خاص تھے۔

شیخ محمد عبد اللہ گجراتی
ذاتی
پیدائش(1250ھ بمطابق 1834ء)
ہینہ جہلم
وفات(1340ھ بمطابق 1921ء)
چک عمر گجرات
مذہباسلام
والدین
  • صدر الدین (والد)
سلسلہچشتیہ
مرتبہ
مقامچک عمر گجرات
دورانیسویں بیسویں صدی
پیشروشمس الدین سیالوی
جانشینمحمد سلام اللہ شائق

ولادت ترمیم

شیخ محمد عبد اللہ کی ولادت اپنے ننھال میں موضع ہینہ ضلع جہلم میں 1250ھ بمطابق 1834ء کو ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام مولانا صدر الدین (متوفی 1259ھ) تھا۔ شیخ محمد عبد اللہ کے نانا جان حافظ نور جی (متوفی 1270ھ) تھے۔ وہ زاہد اور عابد تھے۔

تعلیم ترمیم

محمد عبد اللہ گجراتی نے بچپن کے چند سال اپنے نانا جان کے زیر سایہ گزارے۔ ساڑھے چار سال کی عمر میں حافظ نور دین چک عمر کی خدمت میں حاضر کیے گئے اور حافظ صاحب کی توجہ سے جلد ہی قرآن پاک یاد کر لیا۔ بعد ازاں علوم متداولہ کی تحصیل و الد ماجد سے کی جو اپنے دور کے نامور اساتذہ میں شمار ہوتے تھے۔ ان کے علاوہ میکی ڈھوک میں مولانا محمد احسن چشتی اور اپنے عم محترم مولانا میاں مخدوم علم سے بھی استفادہ کیا۔

بیعت و خلافت ترمیم

محبوب سبحانی خواجہ سید غلام حیدر علی شاہ جلالپوری نے محمد عبد اللہ کو خواجہ شمس العارفین سیالوی سے بیعت کرایا۔ مجاہدے و ریاضت اور منازل سلوک طے کر کے خرقہ خلافت حاصل کیا۔ قادریہ، سہروردیہ اور نقشبندیہ سلاسل میں بھی آپ کو اجازت حاصل تھی۔

درس و تدریس ترمیم

علوم متداولہ کی تحصیل و تکمیل اور خرقہ خلافت ارزانی ہونے کے بعد محمد عبد اللہ گجراتی نے چک عمرمیں درس و تدریس اور رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری فرمایا۔ بے شمار علما آپ کے چشمہ فیض سے سیراب ہوئے۔ چک عمر اگرچہ آپ کے پردادا مولانا حافظ شیخ محمد شکر اللہ رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ مجاز خواجہ محمد فخر الدین دہلوی کے زمانہ سے ہی منبع فیض چلا آرہا تھا لیکن شیخ محمد عبد اللہ گجراتی کی شبانہ روز مساعی کی بدولت علم و فضل کا گہوارہ بن گیا۔ علامہ اصغر علی روحی نے ایک دفعہ فرمایا : میں نے لاہور کی مساجد اور علما کی فہرست تیار کی تو نصف سے زیادہ مولانا شیخ محمد عبد اللہ کے شاگرد ثابت ہوئے۔

تلامذہ ترمیم

عبد اللہ گجراتی کے مشہور تلامذہ کے نام یہ ہیں:

  1. مولانا محمد عبد المالک ساکن کھوڑی مشیرمال ریاست بہاولپور
  2. قاضی عطا محمد گجراتی تحصیلدار پنشنر
  3. مولانا نیاز احمد ساکن نبوڑه
  4. مولانا حکیم محی الدین قریشی ساکن دیالی
  5. مولانا محمد عالم قریشی ساکن سرکڈھن ضلع جہلم
  6. مولانا حافظ نور دین مفتی اپل سنت جلالپور جٹاں ضلع گجرات
  7. مولانا نور احمد ساکن باگڑیانوالہ ضلع گجرات
  8. سید بقا شاہ ساکن کیرانوالہ شہانہ ضلع گجرات
  9. سید محمد انور شاہ ساکن گولیکی
  10. سید فضل شاه چک عبد الخالق سیداں ضلع جہلم
  11. مولانا نعمت اللہ صابری لالہ موسی
  12. مولانا سردار شاہ سکن کوٹلہ سارنگ خان ضلع گجرات
  13. منشی فضل حسین اجمل

شاعری ترمیم

آپ نغز گو اور قادر الکلام شاعر تھے۔ اس کے علاوہ تاریخ گوئی میں آپ کو قدرت کاملہ حاصل تھی۔ برجستہ تاریخ کہنے میں آپ اپنی مثال نہ رکھتے تھے۔ آپ نے سینکڑوں کی تعداد میں تاریخیں رقم فرمائیں۔ 1896ء میں پیسہ اخبار نے انعای مقابلہ کرایا۔ آپ نے عربی ، فارسی اور اردو میں قطعات تاریخ لکھ کر ارسال کیے اور اول نمبر آنے پر آپ کی خدمت میں تین انعام پیش کیے گئے۔ آپ عربی، فارسی، اردو اور پنجابی میں طبع آزمائی فرمایا کرتے تھے۔ آپ کا فارسی کلام حافظ شیرازی، جان جانان اور ناصر علی سرہندی کی زمینوں اور انہی کے رنگ میں ہے۔

تصانیف ترمیم

شیخ محمد عبد اللہ گجراتی کی تصانیف میں دو کتابیں شامل ہیں۔

  1. تاریخ الدیوان
  2. نشان شیخ

وصال ترمیم

شیخ محمد عبد اللہ گجراتی کا وصال 1340ھ بمطابق 1921ء کو چک عمر میں ہوا۔ آپ کی تدفین چک عمر میں ہی کی گئی۔ آپ کا خوبصورت مزار مرجع خلائق ہے۔ چونکہ دونوں بیٹے آپ کی زندگی میں ہی وفات پا گئے تھے اس لیے جانشین آپ کا حقیقی بھتیجا مولانا محمد سلام شائق اللہ ہوئے۔

اولاد ترمیم

شیخ محمد عبد اللہ گجراتی کے دو بیٹے تھے۔

  1. مولانا محمد بقا (مولوی فضل)
  2. حافظ محمد رضا

یہ دونوں والد صاحب کی زندگی میں وفات پا گئے تھے۔

خصائص ترمیم

مولانا شیخ محمد عبد اللہ گجراتی بے نظیر فاضل اور مناظرہ میں یکتائے روزگار تھے۔ آپ کے معتقدین کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ امیر حبیب اللہ خان والی کابل اور مہاراجا بنیر سنگھ حاکم ریاست جموں و کشمیر آپ کے مداحوں میں سے تھے۔ آج سے تقریبا پون صدی قبل موضع جانی چک تحصیل ڈنگہ ضلع گجرات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موئے مبارک تھا۔ مزاور عید قربانی کے موقع پر اس کی زیارت کرایا کرتے تھے۔ اس کی زیارت کے لیے بے انداز خلق خدا حاضر ہوا کرتی تھی۔ مزاور اسے اپنے رہائشی مکان پر رکھتے تھے جہاں اس کی بے ادبی کا احتمال ہوتا تھا۔ اس لیے مولانا شیخ محمد عبد اللہ نے اپنی گرہ اور اپنے احباب کے چندہ سے ایک مسجد اور ایک زیارت گاہ تعمیر کرا دی جہاں بصد ادب و احترام موئے مبارک رکھوا دیا۔ شیخ محمد عبد اللہ گجراتی سادات کا بے حد احترام فرمایا کرتے تھے۔ جب کبھی قبرستان سے گزرنے کا اتفاق ہوتا تو گھوڑی سے اتر جاتے تھے اور اپنے جوتے بھی پاؤں سے اتار دیتے تھے۔ برجسته تاریخ کہنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ شریعت مطہرہ کے بہت پابند تھے۔ [1]

حوالہ جات ترمیم

  1. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 555 تا 559