"سی ایم لطیف" یا چوہدری محمد لطیف ایک پاکستانی ویژنری صنعت کار تھے اور پاکستانی صنعت کے بڑے ناموں میں سے ایک تھے۔ ان کی فیکٹریوں کے بزنس ماڈل اور ان کے انتظامی اصولوں کے باقاعدہ نقشے بنوا کر چین جیسے ممالک لے جانے کا شرف رکھتے ہیں ۔ چو این لائی، شام کے بادشاہ حافظ الاسد اور تھائی لینڈ کے بادشاہ ان کی فیکٹری دیکھنے کے لیے لاہور آتے تھے۔

ابتدائی حالات

ترمیم

پاکستان کی آزادی کے بعد، سی ایم لطیف پاکستان واپس آئے اور نئے کاروبار کا آغاز کیا۔ وہ لاہور میں بٹالہ انجینئرنگ کمپنی کے نام سے ایک ادارہ بنائے جسے بعد میں "بیکو" کے نام سے جانا جانے لگا۔

تعلیم

ترمیم

وہ مشرقی پنجاب کی تحصیل بٹالہ میں پیدا ہوئے‘ والد مہر میران بخش آرائیں اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے تھے لیکن وہ لطیف صاحب کے والد بچپن میں فوت ہو گئے‘ لطیف صاحب نے والد کی خواہش کے مطابق اعلیٰ تعلیم حاصل کی‘ یہ 1930ء میں مکینیکل انجینئر بنے

کاروبار

ترمیم

تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے دو کمروں اور ایک برآمدے میں اپنی پہلی مل لگائی‘ یہ صابن بناتے تھے‘ان کے چھوٹے بھائی محمد صدیق چودھری بھی ان کے ساتھ تھے‘ صدیق صاحب نے بعد ازاں نیوی جوائن کی اور یہ قیام پاکستان کے بعد 1953ء سے 1959ء تک پاکستان نیوی کے پہلے مسلمان اور مقامی کمانڈر انچیف رہے‘ لطیف اور صدیق دونوں نے دن رات کام کیا اور ان کی فیکٹری چل پڑی‘ یہ ہندو اکثریتی علاقے میں مسلمانوں کی پہلی انڈسٹری تھی‘ یہ صابن فیکٹری کے بعد لوہے کے کاروبار میں داخل ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے علاقے میں چھا گئے اور لاکھوں میں کھیلنے لگے‘ پاکستان بنا تو ان کے پاس دو آپشن تھے‘ یہ اپنے کاروبار کے ساتھ ہندوستان میں رہ جاتے یا یہ کاروبار‘ زمین جائداد اور بینک بیلنس کی قربانی دے کر پاکستان آ جاتے‘ سی ایم لطیف نے دوسرا آپشن پسند کیا‘ یہ بٹالہ سے لاہور آ گئے‘ لاہور اور بٹالہ کے درمیان 53 کلومیٹر کا فاصلہ ہے لیکن اگر حقیقی طور پر دیکھا جائے تو یہ دونوں شہر دو دنیاؤں کے فاصلے پر آباد ہیں‘

بیکو

ترمیم

آزادی نے سی ایم لطیف کا سب کچھ لے لیا‘ یہ بٹالہ سے خالی ہاتھ نکلے اور خالی ہاتھ لاہور پہنچے‘ بٹالہ میں ان کی فیکٹریوں کا کیا سٹیٹس تھا؟ آپ اس کا اندازہ صرف اس حقیقت سے لگا لیجئے‘ ہندوؤں اور سکھوں نے ان کی ملوں پر قبضہ کیا‘ کاروبار کو آگے بڑھایا اور آج بٹالہ لوہے میں بھارتی پنجاب کا سب سے بڑا صنعتی زون ہے‘ سی ایم لطیف بہرحال پاکستان آئے اور 1947ء میں نئے سرے سے کاروبار شروع کر دیا‘ انھوں نے لاہور میں بٹالہ انجینئرنگ کمپنی کے نام سے ادارہ بنایا‘ یہ ادارہ آنے والے دنوں میں ”بیکو“ کے نام سے مشہور ہوا‘


بیکو نے پاکستان میں صنعت کاری کی بنیاد رکھی‘ لوگ زراعت سے صنعت کی طرف منتقل ہوئے اور ملک میں دھڑا دھڑ فیکٹریاں لگنے لگیں۔ سی ایم لطیف نے ملک میں بے شمار نئی چیزیں متعارف کرائیں‘ یہ سائیکل سے لے کر جہازوں کے پرزے تک بناتے تھے‘ بیکو گروپ یورپ سے لے کر چین اور جاپان تک مشہور تھا‘ جاپان اور چین کی حکومتیں اپنے لوگوں کو ٹریننگ کے لیے بیکو بھیجتی تھیں

نیشنلائزیشن

ترمیم

‘ 1971ء میں پاکستان ٹوٹ گیا اور ذو الفقار علی بھٹو موجودہ پاکستان کے صدر بن گئے‘ بھٹو نے 1972ء میں ملک کے تما م صنعتی گروپ قومیا لیے ، یوں صدر کے ایک حکم سے ملک بھر کے تمام بڑے صنعت کار فٹ پاتھ پر آ گئے‘

ایک ایک اینٹ رکھ کر ایسی عمارت کھڑی کی جسے دیکھنے کے لیے دنیا کے ان ملکوں کے حکمران آتے تھے جنہیں مستقبل میں ”اکنامک پاورز“ بننا تھا لیکن پھر ایک رات اس کا سارا اثاثہ اس ملک نے چھین لیا جس کے لیے اس نے 1947ء میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا۔

آخری ایام

ترمیم

‘ آپ تصور کیجئے‘ اس شخص کی ذہنی صورت حال کیا ہو گی؟ سی ایم لطیف حوصلہ ہار گئے‘ وہ پاکستان سے نقل مکانی کر گئے‘ وہ جرمنی گئے اور جرمنی کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں زندگی گزار دی‘ انھوں نے دوبارہ کوئی کمپنی بنائی‘ کوئی کاروبار کیا اور نہ کوئی فیکٹری لگائی‘ وہ طویل العمر تھے‘ ان کا انتقال 2004ء میں 97 سال کی عمر میں ہوا‘ وہ باقی زندگی صرف باغبانی کرتے رہے‘ ان کا کہنا تھا‘

دنیا کا کوئی شخص مجھ سے پودے اور پھول نہیں چھین سکتا‘

افضل رحمٰن لکھتے ہیں


اس المیے کا میں عینی شاہد ہوں۔ میرے سامنے فلیٹیز ہوٹل میں ڈاکٹر مبشر حسن نے صنعتوں کو قومیانے کا اعلان کیا۔ اگلے روز مال روڈ پر واقع بیکو کے صدر دفتر میں سی ایم لطیف کی جگہ ڈائیریکٹر انڈسٹریز پنجاب بیٹھا سگار پی رہا تھا۔

میں نے ریڈیو کے لیے انٹرویو کیا تو موصوف نے گول مول جواب دیے کیونکہ اس کو کچھ پتہ نہیں تھا بیکو کیا کچھ مینوفیکچر کرتا ہے۔

اس کے بعد کشمیر روڈ پر واقع میں سی ایم لطیف کے بنگلے پر گیا اور اندر پیغام بھیجا مگر انھوں نے ملنے سے انکار کر دیا۔ پھر درخواست کی مگر نہیں مانے۔

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

اور کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

جنرل ضیاء الحق نے 1977ء میں انھیں بیکو واپس لینے کی درخواست کی لیکن سی ایم لطیف نے معذرت کر لی‘ 1972ء میں جب بھٹو نے سی ایم لطیف سے بیکو چھینی تھی‘ اس وقت اس فیکٹری میں چھ ہزار ملازمین تھے اور یہ اربوں روپے سالانہ کا کاروبار کرتی تھی لیکن یہ فیکٹری بعد ازاں زوال کا قبرستان بن گئی‘ حکومت نے اس کا نام بیکو سے پیکو کر دیا تھا‘ پیکو نے 1998ء تک اربوں روپے کا نقصان کیا‘

یہ ہر سال حکومت کا جی بھر کر خون چوستی تھی‘ بیکو ‘ بادامی باغ کے پسماندہ علاقہ میں تھی اس کی وجہ سے یہ علاقہ کبھی پاکستانی صنعت کا لالہ زار ہوتا تھا اور دنیا بھر سے آنے والے سربراہان مملکت کو پاکستان کی ترقی دکھانے کے لیے خصوصی طور پر بادامی باغ لایا جاتا تھا لیکن حکومت کی ایک غلط پالیسی اور ہماری سماجی نفسیات میں موجود حسد اور خودکشی کے جذبے نے اس لالہ زار کو صنعت کا قبرستان بنا دیا اور لوگ نہ صرف بیکو کی اینٹیں تک اکھاڑ کر لے گئے بلکہ انھوں نے بنیادوں اور چھتوں کا سریا تک نکال کر بیچ دیا اور یوں پاکستان کا سب سے بڑا وژنری صنعت کار اور ملک کی وہ صنعت جس نے جاپان اور چین کو صنعت کاری کا درس دیا تھا‘ وہ تاریخ کا سیاہ باب بن کر رہ گئی[1]

مزید پڑھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. جاوید چوہدری۔ "سی ایم لطیف جیسے لوگ"۔ ایکسپریس اردو۔ اخذ شدہ بتاریخ اتوار 9 اگست 2015