ایک اصطلاح۔ جس کی بنیاد ایک تقریر بنی۔ جس نے دور رس سیاسی نتائج پیدا کیے۔

جنرل ایوب خان کے "سنہری ترقیاتی دور" میں 15 جون 1964ء کو ممبر قومی اسمبلی اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر محبوب الحق نے بجٹ تقریر کے دوران انکشاف کیا کہ پاکستان (جو اس وقت موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش پر مشتمل تھا) کی 60 سے 80 فیصد دولت پر صرف "22 خاندان" قابض ہیں۔ ان کے مطابق 66 فیصد صنعتیں ، 79 فیصد بیمہ کمپنیاں اور 80 فیصد بینکوں کا سرمایہ صرف "بائیس خاندانوں" کے تصرف میں ہے[1]

محبوب الحق کے اس انکشاف کی بنیاد وزارت مالیات کے ایک اعلیٰ افسر جناب ظہیر الدین کی کریڈٹ کمپنی کی رپورٹ پر استوار کی گئی تھی۔ انھوں نے انکشاف کیا تھا کہ جدولی اور تجارتی بینکوں نے عوام کی امانتوں میں سے جو روپیہ کاروباری طبقے کو ادھار دینے کے لیے مخصوص کر رکھا ہے اس میں بڑی بڑی رقوم معدودے چند خاندان کے افراد نکلوا کر لے جاتے ہیں اور نام بدل بدل کر ان سے استفادہ کرتے رہتے ہیں۔[2]

اس کمیٹی نے بتایا کہ 22 دسمبر 1957 کو صرف 23 شخصیات ایسی تھیں، جنہیں 33 کروڑ 83 لاکھ روپے بطور قرض دیا گیا تھا۔ 31 مارچ 1959 تک ان افراد کی تعداد بڑھ کر 31 اور 31 دسمبر 1961 تک41 ہو گئی۔ ان 41 افراد کو جو رقوم بطور قرض دی گئی تھیں وہ 62کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ 1961 میں اسی بات کو منصوبہ بندی کمیشن کے شعبہ تحقیق کے سربراہ مسٹر آر ایچ کھنڈیکر نے آگے بڑھایا اور ان کی تحقیق کی بنیاد پر 64-1963 کے بجٹ میں وزیر خزانہ مسٹر محمد شعیب نے انکشاف کیا کہ بینکوں نے جو رقم ادھار کے لیے علاحدہ کر رکھی ہے اس سے صرف 20 خاندان مستفیض ہو رہے ہیں۔[2]

انھوں نے مزید بتایا کہ ان خاندانوں نے جو شراکتی ادارے اور لمیٹڈ کمپنیاں بنا رکھی ہیں ان کے بیشتر حصص پر ان کی یا ان کے عزیز رشتے داروں کی اجارہ داری قائم ہے۔ اس کے بعد مشرقی پاکستان کے ماہر مالیات ڈاکٹر ایم این ہدیٰ نے کہا کہ پاکستان کی قومی دولت کے 60 سے 80 فیصد حصے پر صرف 22 خانوادے قابض ہیں۔ یہی بات 15 جون 1964 کو ڈاکٹر محبوب الحق نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہی اور یوں یہ انکشاف ان سے ہی منسوب ہو گیا۔[2]

ڈاکٹر محبوب الحق کے اس انکشاف کا ذو الفقار علی بھٹو نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور جب انھوں نے 1968 میں صدر ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تو ڈاکٹر محبوب الحق کی اس تقریر کو اپنی تحریک کا مرکزی نکتہ بنادیا۔[2]

ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک کا ایک اہم نعرہ یہ بھی تھا کہ ’’اس ملک پر بائیس خاندانوں کا قبضہ‘‘ ہے۔ یہ نعرہ اس قدر مقبول تھا کہ ذو الفقار علی بھٹو جیسا بڑا زمیندار جس کی پارٹی میں مصطفی جتوئی، طالب المولیٰ اور مصطفی کھر جیسے لاتعداد بڑے بڑے زمیندار تھے، اس نے بھی ووٹ کی سیاست اور عوامی مقبولیت کے لیے سرمایہ داری کے خلاف پارٹی پوزیشن اس حد تک لی کہ پیپلز پارٹی کے منشور کے چار بنیادی نکات میں سے تیسرا نکتہ یہ تھا کہ ’’سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘۔ ملک پر بائیس خاندانوں کا قبضہ ہے، یہ فقرہ بھٹو کی تقریروں کا جزوِلاینفق تھا۔ اور اس نعرے سے وہ اپنے جلسوں میں عوام کا لہو گرماتا تھا۔ آج نصف صدی گزرنے کے بعد اب ان بائیس خاندانوں کا دائرۂ اثر بڑھ کر اس ملک کی ایک فیصد آبادی تک پھیل چکا ہے۔ یعنی بائیس کروڑ لوگوں کی آبادی میں سے بائیس لاکھ لوگ ایسے ہیں جو اس ملک کے نوے فیصد سے زیادہ سرمائے پر قابض ہیں۔ اس کیفیت کو دنیا بھر میں "Elite Capture" یعنی اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ کہتے ہیں۔ یہ اصطلاح گذشتہ دو دہائیوں سے پاکستان میں مسلسل استعمال کی جا رہی ہے، لیکن اس ’’اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ‘‘ پر ایک خالصتاً تحقیقاتی کام آسٹریلیا کی نیشنل یونیورسٹی کے علم بشریات (Anthropology) ڈیپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر روزیٹا آرمیٹج (Rosita Armytage) نے کیا ہے۔ [3]


واقعات ترمیم

میٹنگ ترمیم

اپریل 1968ء میں منصوبہ بندی کمشن کے چیف معاشیات دان ڈاکٹر محبوب الحق نے کراچی کے ایک منتخب اجلاس میں صدر ایوب خان کے دس سالہ عہد ترقی میں جمع شدہ دولت کے موضوع پر تقریر کی۔ ڈاکٹر صاحب نے صرف ان بڑے خاندانوں سے متعلق اعداد و شمار کا سہارا لیا تھا جو کراچی سٹاک اکسچینج کی فہرست کے مطابق تجارتی و صنعتی فرموں کے مالک یا منتظم یا نگران تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان اعداد و شمار سے جو نتائج اخذ کیے وہ بلاشبہ ڈرامائی تو تھے ہی لیکن پوری طرح درست نہ تھے انھوں نے بتایا کہ پاکستان کی دو تہائی صنعتی اثاثے پر بائیس خاندانوں کا قبضہ ہے۔ کراچی سٹاک ایکسچینج میں درج شدہ فرموں کے اثاثے کے معاملے تو یہ بات درست ہو سکتی تھی لیکن انھوں نے اپنے اعداد و شمار میں ان غیر رجسٹرڈ اور چھوٹی فرموں کو شامل نہیں کیا جنھوں نے ملک کی صنعتی پیداوار بڑھانے میں انتہائی فعال کردار ادا کیا تھا۔

بعد از اثرات ترمیم

اس تقریر سے معاشیات کے سیاسی حالات پر گہرا اثر پڑا۔ تقریر اور رپورٹ کے اعداد و شمار اور دولت کے طریق ارتکاز و استعمال کو فراموش کر دیا گیا، بس ایک لفظ بائیس خاندان سیاسی زبان کا محاورہ بن گیا۔ سیاست دانوں نے عوام کو یہ تاثر دیا کہ صدر ایوب کی دہائی میں پاکستان میں غریب تو غریب تر ہو گیا ہے اور امیر، امیر تر۔ ڈاکٹر محبوب کے اس تقریر کے نتیجے میں بایس خاندان گویا دولت کی ذخیرہ اندوزی اور معاشی استحصال کی علامت بن گئے۔ وہ بائیس خاندان تو کسی بھی یاد نہ رہے۔ البتہ بائیس خاندان تو کسی کو بھی یاد نہ رہے البتہ بائیس خاندان سیاسی صحافت کی اصطلاح بن گیا جس سے بالخصوص اس وقت کے حزب اختلاف کے رہنما ذو الفقار علی بھٹو نے خوب فائدہ اٹھایا اور اپنی تقریروں میں بائیس خاندانوں کے خلاف سخت غصے اور ناراضی کا اظہار کیا جس نے بالآخر جنوری 1972ء کو ایک مقبول سیاسی حربے کی طور پر بڑی بڑی صنعتوں کو قومیانے کی شکل اختیار کر لی۔[1]

معروف شاعر حبیب جالب نے اسی موضوع پر ایک مشہور نظم لکھی تھی جس کا پہلا شعر تھا:

بائیس گھرانے ہیں آباد

اور کروڑوں ہیں ناشاد ،

صدر ایوب زندہ باد

خاندانوں کے نام ترمیم

ڈاکٹر محبوب الحق نے ان امیر ترین "22 خاندانوں" کے نام تو نہیں بتائے تھے لیکن 1963ء میں جنرل ایوب خان کے دور میں ان کے سمدھی لیفٹیننٹ جنرل ایم حبیب اللہ خان خٹک اور بیٹے کیپٹن گوہر ایوب نے مبینہ طور پر خاندانی اثرورسوخ اور غیر قانونی طریقے سے جنرل موٹرز کے ٹھیکے حاصل کیے جس سے وہ ان امیر ترین خاندانوں میں شامل ہو گئے تھے۔ ان کی گندھارا انڈسٹریز ، کرپشن اور اقربا پروری کی ایک بدترین مثال بن گئی تھی جس کے قصے زبان زد عام تھے۔[1]

22 خانوادوں کے بارے میں ممتاز محقق جناب اے آر شبلی نے ایک کتاب بھی تحریر کی، جس کا نام اگرچہ ’22 خانوادے‘ تھا مگر اس میں پاکستان کے صف اول کے 30 خاندانوں کا کچا چٹھا بیان کیا گیا تھا۔[4]

اے آر شبلی کی تحقیق کے مطابق یہ 30 خاندان حسب ذیل تھے۔ احمد داؤد، آدم جی، باوانی، سہگل، امیر علی فینسی، رنگون والا، اصفہانی، نصیر اے شیخ، قاسم دادا، خٹک فیملی، حبیب، میاں محمد امین محمد بشیر، ولیکا، سید واجد علی شاہ، رستم کاوس جی، ہارون، سی ایم لطیف، رانا خداداد، ریاض خالد، نون، ہوتی ، حاجی دوسہ، حاجی دوست محمد، حاجی اے کریم، منوں خاندان، حئی سنز، ظفر الاحسن، مولا بخش، تاجی محمد خانزادہ اور فقیر فیملی۔[4]

وہ میمن، بوہرے، خوجے اور اسماعیلی، تجارت جن کی گھر کی لونڈی سمجھی جاتی تھی، چنیوٹیوں کے ہاتھوں مات کھا گئے۔ 1990 میں نجکاری کے نام پر صنعتی اداروں کی بندر بانٹ کا عمل شروع ہوا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں ہی کے عہد میں بھٹو کے دور میں قومیائے گئے ادارے کہیں اونے پونے داموں اور کہیں مفت، پرانے مالکان کو واپس کر دیے گئے، ساتھ میں انھیں کروڑوں روپے کے قرضے دیے گئے اور اسی پر بس نہ چلا تو کچھ عرصے بعد یہ قرضے معاف کر دیے گئے۔

[4]

گندھارا انڈسٹریز لمیٹڈ ترمیم

جنرل موٹرز اوورسیز ڈسٹری بیوشن کارپوریشن یو ایس اے نے کراچی میں 1963 میں لیفٹیننٹ جنرل ایم حبیب اللہ خان خٹک نے جنرل موٹرس سے یہ سہولیات حاصل کیں۔ [1]

حکومت پاکستان نے 1972 میں گندھارا انڈسٹریز لمیٹڈ کو قومی شکل دے دی اور اس کا نام نیشنل موٹرز لمیٹڈ رکھ دیا۔ 1992 میں میس۔ بیبوجی سروسز (پرائیوٹ) لمیٹڈ اسے حکومت کی نجکاری پالیسی کے تحت حاصل کیا اور اپنا اصلی نام گندھارا انڈسٹریز لمیٹڈ رکھا۔[1]

لیفٹیننٹ جنرل ایم حبیب اللہ خان خٹک ترمیم

جنرل حبیب اللہ 17 اکتوبر 1913 کو وانا میں پیدا ہوئے تھے۔ اسلامیہ کالج پشاور سے ، وہ ان 25 افراد میں شامل تھے ، جنھوں نے ہند پاک برصغیر کے پورے ہندوستان سے ہندوستانی ملٹری اکیڈمی ، دہرادون میں فرسٹ کورس کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ انھیں 1934 میں کمیشن بنایا گیا تھا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران انھوں نے برما میں انتخابی مہم چلائی تھی۔ دسمبر 1958 میں انھوں نے امپیریل ڈیفنس کالج ، لندن (اب آر سی ڈی ایس) سے گریجویشن کی اور انھیں لیفٹیننٹ جنرل رینک پر ترقی دے کر پاک فوج کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا گیا۔ وہ ستارہ پاکستان اور امریکی حکومت سے لیجن آف میرٹ کے وصول کنندہ تھے۔ 46 سال کی عمر میں آرمی سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے کاروبار / صنعت میں ایک نیا کیریئر شروع کیا اور بہت جلد ہی انھوں نے اپنے کاروبار سے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ اس نے جس کاروبار کا آغاز کیا وہ ٹیکسٹائل ، آٹوموبائل ، ٹائر ، تعمیرات اور انشورنس کی طرح متنوع تھا۔ 24 دسمبر 1994 کو ان کا انتقال ہو گیا۔ اب بوبجی گروپ ان کے بچے چلا رہے ہیں۔ خاندان کی تیسری نسل بھی اس کاروبار میں شامل ہو گئی ہے اور وہ گروپ کی مختلف نشستوں پر کام کر رہے ہیں۔[1]

اصفہانی ترمیم

مرزا ابو طالب اصفہانی کو 1799ء میں انگریز نے لندن بلا کر رچمنڈ کے علاقے میں جائداد ”عطا“ فرمائی اور پھر جب ”ایسٹ انڈیا کمپنی“نے سراج الدولہ کے جرنیل میر جعفر کی غدّاری سے بنگال فتح کیا تو پھر اپنے ”لاڈلوں“ کو یہاں لا کر آباد کیا جانے لگا۔ یوں اصفہانی خاندان لندن سے آ کر یہاں آباد ہو گیا اور چائے کا کاروبار کرنے لگا جس کی وسعت پورے برصغیر اور پھر دنیا بھر میں پھیل گئی۔ متحدہ پاکستان تک اصفہانی چائے مغربی پاکستان میں بھی مقبولِ عام برانڈ تھا۔ پاکستان بننے کے بعد یہ خاندان کلکتہ سے چٹاگانگ منتقل ہو گیا، جس کی پہاڑیوں پر چائے کے وسیع باغات تھے۔ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں، بہاریوں اور دیگر قومیتوں پر 1971ء میں کیا کیا مظالم نہیں ٹوٹے، لیکن اصفہانی خاندان کی کاروباری سلطنت کو اس سانحے کے دوران بھی تحفظ فراہم کیا گیا۔[5]

حبیب خاندان ترمیم

یہ پاکستان کا ایک ممتاز شیعہ خوجا کاروباری خاندان ہے-

سیگل گروپ ترمیم

سیگول گروپ (Saigol Group)، جسے کوہ نور گروپ بھی کہا جاتا ہے، ایک پاکستانی کمپنی گروپ ہے جو لاہور ، پاکستان میں واقع ہے۔ کمپنی کی بنیاد رکھنے والے محمد امین سیگل تھے

چوہدری محمد لطیف ترمیم

"سی ایم لطیف" یا چوہدری محمد لطیف ایک پاکستانی ویژنری صنعت کار تھے اور پاکستانی صنعت کے بڑے ناموں میں سے ایک تھے۔انھوں نے لاہور میں بٹالہ انجینئرنگ کمپنی کے نام سے ادارہ بنایا‘ یہ ادارہ آنے والے دنوں میں ”بیکو“ کے نام سے مشہور ہوا‘

داؤد گروپ ترمیم

ان بائیس خاندانوں میں سے 14 میمن گھرانے تھے اور داؤد فیملی دوسرے نمبر پر تھی۔نیشنلائزیشن کے عرصے میں سیٹھ داؤد کو نظر بند کر دیا گیا اور جب وہ رہا ہوئے تو امریکا چلے گئے۔ خیال ہے کہ قومیائے جانے کے عمل سے انھیں ’دو ارب روپے کا نقصان‘ ہوا تھا۔


مزید پڑھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث مظہر اقبال (سوموار 15 جون 1964)۔ "بائیس خاندان"۔ تاریخ پاکستان۔ Pak Magazine 
  2. ^ ا ب پ ت عقیل عباس جعفری (بدھ 15 جون 2022 10:30)۔ "'بیس گھرانے ہیں آباد اور کروڑوں ہیں ناشاد'"۔ INDEPENDENT اردو 
  3. "بائیس خاندانوں سے بائیس لاکھ تک (1)"۔ منگل 07 مارچ 2023ء 
  4. ^ ا ب پ عقیل عباس جعفری (بدھ 15 جون 2022 10:30)۔ "'بیس گھرانے ہیں آباد اور کروڑوں ہیں ناشاد'"۔ INDEPENDENT اردو 
  5. اوریا مقبول جان (08 مارچ 2023ء)۔ "بائیس خاندانوں سے بائیس لاکھ تک (آخری قسط)"۔ 12 جولا‎ئی 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جولا‎ئی 2023