داؤد گروپ ہے ایک پاکستانی ہولڈنگ کمپنی[1] ہے جو حسین داود،[2]  کی زیر سرپرستی قائم ہوئی۔ اس کمپنی کی مصنوعات میں  کھاد، کھانے کی اشیاء، ٹیکسٹائل، فنانس[3] اور کمپیوٹر شامل ہیں۔[4] حسین داود داؤد گروپ اور اینگرو کارپوریشن کے چیئرمین ہیں۔[5]

یہ کمپنی کھاد، کھانے پینے کی اشیا اور توانائی کے شعبے میں کام کرتی ہے[6]

خاندان ترمیم

جد اعلی ترمیم

پاکستان کے سب سے بڑے صنعت کاروں میں شامل داؤد فیملی نے 20ویں صدی کے اوائل میں ایک پتھارے سے کاروبار کا آغاز کیا اور چند دہائیوں میں اس خاندان کا شمار خطے کے امیر ترین گھرانوں میں ہونے لگا۔[6]

آج اس خاندان کی کئی درجنوں صنعتیں و تجارتی ادارے ہیں۔ ان کا کاروبار پاکستان سے برطانیہ تک پھیلا ہوا ہے۔[6]

داؤد فیملی کے سربراہ احمد داؤد کی پیدائش 1905 میں انڈیا کے صوبے کاٹھیاواڑ کے علاقے بانٹوا میں ہوئی۔ ان کے والد تاجر تھے۔ انھوں نے صرف تین جماعتوں تک تعلیم حاصل کی تھیں۔ بچپن میں ہی والد کی وفات ہو گئی جس کے بعد ان کی پروش کی ذمہ داری دادا پر آگئی۔[6]

کاروباری آغاز ترمیم

یتیم نوجوان احمد داؤد نے 1920 میں بمبئی میں یارن کی دکان کھولی تھی۔[7]

انھوں نے کاٹن جننگ پریسنگ فیکٹری کے علاوہ تیل کی مِل اور ویجیٹیبل آئل کی فیکٹری قائم کی اور دیکھتے ہی دیکھتے داؤد فیملی کے دفاتر اور ان کی شاخیں کلکتہ، مدراس، کانپور، متھورہ، لدھیانہ اور دلی وغیرہ میں پھیل گئیں۔[8]

جب انھوں نے خوردنی تیل کا کارخانہ لگایا تو پھر ان کے کاروبار میں وسعت آئی اور یہ کامیابی سے چل پڑا۔ اس کاروبار میں ان کے بھائی سلیمان داؤد، علی محمد داؤد، صدیق داؤد اور ستار داؤد بھی شریک رہے۔

قیام پاکستان ترمیم

برصغیر کے بٹوارے اور قیام پاکستان کے بعد وہ برطانیہ چلے گئے جہاں کچھ عرصہ رہے۔ بعد میں وہاں سے پاکستان آ گئے۔ انھوں نے مانچسٹر اور پاکستان میں داؤد پرائیوٹ لمیٹڈ کے نام سے کمپنی قائم کی۔[9]

پاکستان کے فوجی ادوار داؤد فیملی کے لیے سازگار رہے، پھر چاہے فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت ہو یا جنرل ضیالحق کی۔[9]

احمد داؤد نے پاکستان میں کاٹن کی بروکری شروع کی۔ ایوب خان کے دور حکومت میں کراچی میں اور بورے والا میں ٹیکسٹائل فیکٹریاں غیر فعال ہوگئیں جو سرکاری ادارے پاکستان انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن (پی آئی ڈی سی) کے زیر انتظام تھیں لیکن وہ انھیں چلا نہیں پا رہے تھے۔[9]

لہذا ایوب خان کو مشورہ دیا گیا کہ اگر یہ فیکٹریاں احمد داؤد کو دی جائیں تو اچھا پرفارم کریں گی۔ انھیں یہ پیشکش کی گئی تو انھوں نے اور ان کے بھائیوں نے اس کو قبول کر لیا۔ حالیہ نجکاری کے طریقہ کار کے مطابق ماضی میں اس کام کے لیے کوئی بولی وغیرہ نہیں لگی نہ نیلامی ہوئی۔ فیکٹریاں انھیں سپرد کی گئیں اور انھوں نے رقم ادا کی۔ اس سے قبل ان کے پاس لانڈھی میں داؤد کاٹن ملز موجود تھیں جو 1952 سے کام کر رہی تھی۔[9]

مغربی پاکستان کے بعد وہ مشرقی پاکستان میں بھی قسمت آزمانے چلے گئے۔ یہ موقع بھی ایوب خان حکومت میں انھیں میسر ہوا۔ وہاں کرنافلی پیپر ملز اور کرنافلی ٹیکسٹائل ملز مزدوروں کے احتجاج اور دیگر معاملات کی وجہ سے غیر فعال ہو چکی تھیں۔

نواب آف کالا باغ نے سیٹھ احمد کو پیشکش کی کہ ان کو خرید لیں، انھوں نے اس کو قبول کیا اور محنت کی تو یہ بحال ہوگئیں۔ پیپر ملز اس وقت پاکستان کی واحد مل تھی جس میں بانس سے پیپر بنایا جاتا تھا۔[9]

17 جنوری 1969 میں نیویارک ٹائمز نے اپنی اشاعت میں احمد داؤد فیملی کو پاکستان کا دوسرا سب سے امیر خاندان قرار دیا جس کے اثاثوں کی مالیت اس وقت 200 ملین ڈالرز تھی۔ ان کے پاس کاٹن، وولن، ٹکسٹائل، یارن، کیمکلز، مائننگ، بینکنگ، انشورنس، پیپر اور فرٹیلائزر کے کارخانے تھے۔[6]

1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجہ سے کرنافلی پیپر ملز، داؤد مائننگ، داؤد شپنگ سمیت کئی کارخانے اور کاروبار متاثر ہوئے۔ ان دنوں ان کے نقصان کا تخمینہ 30 سے 35 کروڑ روپے لگایا گیا تھا۔[6]

نیشنلائزیشن کا نقصان ترمیم

ذوالفقار علی بھٹو سوشلزم کے نعرے کے ساتھ جب برسرِ اقتدار آئے تو انھوں نے ڈاکٹر محبوب الحق کے بیان کیے گئے ان 22خاندانوں کی نشان دہی کی اور متنبہ کیا کہ اس وقت پاکستان کو سرمائے کی ضرورت ہے، لہذا یہ خاندان اپنا سرمایہ واپس لائیں ورنہ وہ انھیں گرفتار کر لیں گے۔[6]

بعد میں انھوں نے داؤد فیملی سمیت کئی خاندانوں کی املاک کو قومی تحویل میں لے لیا، یعنی انھیں نیشنلائز کر دیا۔[6]

ان بائیس خاندانوں میں سے 14 میمن گھرانے تھے اور داؤد فیملی دوسرے نمبر پر تھی۔ اس عرصے میں سیٹھ داؤد کو نظر بند کر دیا گیا اور جب وہ رہا ہوئے تو امریکہ چلے گئے۔ خیال ہے کہ اس وقت انھیں ’دو ارب روپے کا نقصان‘ ہوا تھا۔[9]

احمد داؤد نے امریکا میں آئل ایکسپلوریشن کمپنی کے ساتھ کاروبار کا آغاز کیا اور ایک جگہ ڈرلنگ کی تو وہاں سے پیٹرول نکل آیا اور ان کے اچھے دن دوبارہ آگئے جب پاکستان میں جنرل ضیا الحق بھٹو کی حکومت کو برطرف کر کے اقتدار پر قابض ہو گئے۔[6]

اس دور میں احمد داؤد واپس پاکستان آگئے اور ان کی صنعتوں اور سرمایہ کاری کا دوبارہ آغاز ہو گیا۔ خیال ہے کہ ان کے جنرل ضیا الحق کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔[6]

ان کے 20 ایسے منصوبے تھے جو انھوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بھائیوں سلیمان داؤد، علی محمد داؤد، صدیق داؤد اور ستار داؤد میں تقیسم کیے اور ہر ایک کے حصے میں صنعتیں آئیں جن کو انھوں نے آگے بڑھایا۔[9]

حالیہ دور ترمیم

فی زمانہ داؤد فیملی کا شمار پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے۔ شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے نائب چیئرمین تھے۔ یہ کمپنی کھاد، کھانے پینے کی اشیا اور توانائی کے شعبے میں کام کرتی ہے[6]

یہ خاندان صحت اور تعلیم جیسے سماجی کاموں میں بھی حصہ لیتا ہے۔[6]

مشہور افراد ترمیم

داؤد فاؤنڈیشن کے سربراہ اس وقت احمد داؤد کے بیٹے حسین داؤد ہیں۔[6]

پاکستان میں داؤد خاندان کا ایک اور معروف نام رزاق داؤد ہیں جو سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں مشیر تجارت رہے اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں بھی وزارت تجارت کا قلمدان ان کے پاس تھا۔[6]

رزاق داؤد سلیمان داؤد کے بیٹے ہیں جو احمد داؤد کے بھائی تھے۔ رزاق داؤد ڈیسکون انجیئنرنگ کمپنی کے مالک ہیں۔[6]

دوسری جانب شہزادہ داؤد کے والد حسین داؤد اور ان کا خاندان اینگرو کارپوریشن اور داؤد ہرکولیس کارپوریشن کے مالک ہیں۔[6]

ٹائٹن حادثے میں ہلاک ہونے والے شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے نائب چیئرمین تھے۔[6]

داؤد فیملی کا نام جون 2023 میں ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں زیر گردش رہا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ٹائٹن آبدوز کے حادثے میں جن پانچ مسافروں کی ہلاکت ہوئی ان میں سے دو کا تعلق اسی خاندان سے ہے۔[6]

شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان اس آبدوز میں سوار تھے جو تفریحی مقاصد کے لیے بحر اوقیانوس میں ڈوبے جہاز ٹائٹینک کا ملبہ دکھانے کے لیے سمندر کی گہرائیوں میں گئی۔ حکام کے مطابق اس دورے پر زیر آب دباؤ کی وجہ سے آبدوز دھماکے کا شکار ہوئی اور اس میں سوار پانچ مسافر ہلاک ہو گئے۔[6]

اثاثے ترمیم

یہ ادارہ مجموعی طور پر تقریباً 750 ارب روپے کے اثاثوں کی مالک ہے۔[10]

2022 سے لے کر اب تک یہ گروپ توانائی، فوڈ اینڈ ایگری کلچر، پیٹرو کیمیکل، کیمیکل سٹوریج، قابل تجدید توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل شعبوں میں سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔[6]

2022 کے سالانہ مالیاتی گوشواروں کے مطابق اس نے پورے سال میں 46 ارب روپے کا منافع کمایا۔ داؤد ہر کولیس کارپوریشن کے سالانہ مالیاتی نتائج کے مطابق اس کا 2022 میں منافع ساڑھے تین ارب روپے سے زائد رہا۔[10]

اینگرو کارپویشن کی مختلف کمپنیوں میں کام کرنے والے افراد کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے زائد ہے۔[10]

سنہ 2022 میں سماجی شعبے میں 84 کروڑ روپے خرچ کیے جن میں صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر، ماحولیات کی بہتری وغیرہ شامل ہیں۔[10]

حکومت کو ٹیکس کی مد میں 2022 میں ساڑھے 29 کروڑ ڈالر جمع کرائے جبکہ اس کی ذیلی کمپنی اینگرو انرجی نے ملک کے نوے لاکھ افراد کے گھر میں توانائی کی ضرورت پوری کی۔

کمپنیاں ترمیم

  • اینگرو فرٹیلائرز - 56 فیصد حصص ( بمطابق جون 2023)[6]
  • داؤد ہرکیولس کارپوریشن لمیٹڈ (سابقہ نام:  داؤدہرکولیس کیمیکلز لمیٹڈ).[11]
  • اینگرو ایگزمپ ایگری - 100 فیصد حصص ( بمطابق جون 2023)[6]
  • اینگرو انرجی ٹرمینل - 56 فیصد حصص ( بمطابق جون 2023)[6]
  • اینگرو انرجی لمٹیڈ - 100 فیصد حصص ( بمطابق جون 2023)[6]
    • اینگرو پاور جن تھر پاور پلانٹس - 100 فیصد حصص ( بمطابق جون 2023)[6]
    • اینگرو پاور جن قادر پور - 100 فیصد حصص ( بمطابق جون 2023)[6]
    • سندھ حکومت کی اینگرو کول مائئگ کمپنی - 11 فیصد حصص ( بمطابق جون 2023)[6]
  • اینگرو پولیمر اینڈ کیمیکل - 56 فیصد حصص ( بمطابق جون 2023)[6]
  • داؤد لارنس پور[12]
  • سنٹرل  انشورنس کمپنی۔[13]
  • کھانے کی اشیاء۔[4]

فلاحی کام ترمیم

پاکستان میں 1961 میں داؤد فاؤنڈیشن قائم کی گئی جس کا افتتاح جنرل ایوب خان نے کیا تھا۔ داؤد فیملی نے تعلیم کے فروغ پر توجہ دی۔[6]

مشرقی پاکستان کے شہر میسور میں انھوں نے اسکول کی عمارت قائم کی ہے، اس کے ساتھ بورے والا میں گورنمنٹ کالج میں سائنس بلڈنگ کی تعمیر کرائی گئی اور کراچی کے دیہی علاقے درسانو چھنو میں اسکول تعمیر کیا گیا۔[6]

داؤد فاؤنڈیشن نے 1962 میں کراچی میں داؤد کالج آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی قائم کیا جو پاکستان کے نجی شعبے میں انجینیئرنگ کی تعلیم فراہم کرنے والا پہلا پروفیشنل کالج تھا۔ یہاں کیمیکل انجینیئرنگ، میٹالرجی اور میٹریلز انجینیئرنگ کے شعبوں میں تعلیم دی جاتی تھی۔[6]

بعد میں ذو الفقار علی بھٹو حکومت میں اس کو نیشنلائز کر دیا گیا اور اس کا کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس آگیا۔[6]

کراچی میں 1983 کے دوران احمد داؤد گرلز پبلک سکول کی بنیاد رکھی جو اس وقت بھی فاؤنڈیشن کے زیر انتظام ہے جہاں 2500 سے زیادہ لڑکیوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ لمس لاہور، کراچی یونیورسٹی میں بھی داؤد فیملی کے نام سے بزنس اسکول موجود ہیں۔[6]

کراچی میں 1991 سے قائم پاکستان میں گردوں کے سب سے بڑے ہسپتال انسٹیٹوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ یعنی ایس آئی یو ٹی میں بھی داؤد فیملی کا بڑا کردار ہے۔[6]

ایس آئی یو ٹی کے ڈاکٹر گوہر کے مطابق بشیر داؤد انھیں اربوں روپے کے عطیات کر چکے ہیں جن سے تین بڑی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ یہاں بچوں اور کینسر کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈائلاسز اور ٹرانسپلانٹ کی مشنری کی خریداری میں بھی معاونت کی جاتی ہے۔[6]

سائنس کے فروغ کے لیے کراچی میں اپنی نوعیت کا پہلا سائنس میوزیم قائم کیا گیا۔ میگنیفائی سائنس نامی اس میوزیم میں سائنس کی نمائشیں اور تعلیمی پروگرام بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔[6]

ریلوے کے گودام کو تین منزلہ سائنسی میوزیم میں تبدیل کیا گیا ہے جہاں سائنس، فزکس اور ریاضی کی تھوریز کے حوالے سے تجربات اور مشقیں کی جاتی ہیں۔[6]

داؤد فاؤنڈیشن نے کراچی میں پبلک سپیس کے فروغ کے لیے ٹی ڈی ایف گھر بنایا۔ 1930 میں تعمیر کیے گئے اس گھر میں کراچی کی تاریخ اور پرانی یادوں سے وابستہ فرنیچر، گراموں فون سمیت دیگر اشیا موجود ہیں اور یہاں سے پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے مزار کا نظارہ بھی کیا جا سکتا ہے۔[6]

ٹی ڈی ایف گھر کراچی میں متوسط طبقے کے لیے بنائی گئی پہلی کوآپریٹو سوسائٹی جمشید کواٹرز میں واقع ہے جو کراچی کی ثقافتی تاریخ کا اہم حصہ رہی ہے۔[6]

اس سوسائٹی کی بنیاد 1920 میں جمشید نسروانجی نے رکھی تھی اور یہاں مسلمان، ہندو، مسیحی، پارسی اور یہودی ساتھ ساتھ رہتے تھے۔[6]

مزید پڑھیے ترمیم

بیرونی روابط ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. Nagendra Kr. Singh (2003)۔ Encyclopaedia of Bangladesh۔ Anmol Publications۔ صفحہ: 82۔ ISBN 978-81-261-1390-3  الوسيط |ISBN= و |isbn= تكرر أكثر من مرة (معاونت)
  2. "Brief Recordings about the Burewala Textile Limited"۔ بزنس ریکارڈر۔ 17 April 2002۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مئی 2009 
  3. Stanley A. Kochanek (1983)۔ Interest groups and development: business and politics in Pakistan۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 339۔ ISBN 978-0-19-561467-1  الوسيط |ISBN= و |isbn= تكرر أكثر من مرة (معاونت)
  4. ^ ا ب "Dawood group acquires majority stake in Inbox"۔ بزنس ریکارڈر۔ 18 December 2004۔ 08 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مئی 2009 
  5. Engro Corporation: Oil and Gas Department 
  6. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر​ ڑ​ ز ژ س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک گ ل​ م​ ن و ہ ھ ی ے اا اب ات ریاض سہیل اور تنویر ملک (24 جون 2023)۔ "پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک 'داؤد فیملی' کون ہے؟"۔ بی بی سی اردو۔ BBC London۔ اخذ شدہ بتاریخ 11-جولائی 2023 
  7. داؤد انویسٹمنٹ - رسمی ویب گاہ
  8. عمر عبدالرحمان۔ میمن شخصیات 
  9. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج عثمان باٹلی والا۔ احمد داؤد ایک پیکر اوصاف 
  10. ^ ا ب پ ت "Engro Corporation"۔ اخذ شدہ بتاریخ 11-جولائی 2023 
  11. Anwar S. Dil (1970)۔ Toward developing Pakistan۔ Bookservice۔ صفحہ: 211۔ OCLC 257839  الوسيط |oclc= و |OCLC= تكرر أكثر من مرة (معاونت)
  12. "Saleem new managing director of Dawood Lawrencepur"۔ بزنس ریکارڈر۔ 30 December 2004۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مئی 2009 
  13. "Govt eyes bonds to help HBL privatisation bid"۔ Daily Times۔ 22 November 2003۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مئی 2009