محمد منیر نانوتوی
غالباً یہ مضمون ویکیپیڈیا میں معروفیت کے عمومی اصول کے مطابق نہیں ہے۔ (جانیں کہ اس سانچہ پیغام کو کیسے اور کب ختم کیا جائے) |
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
مولانا محمد منیر نانوتوی
حیات اور تعلیم
ترمیممشہور عالم و مصنف مولانا محمد احسن نانوتوی اور مولانا محمد مظہر کے چھوٹے بھائی تھے، 1247ھ مطابق 1831ء میں نانوتہ میں پیداہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے والد حافظ لطف علی سے حاصل کی، پھر دہلی کالج میں داخل ہو گئے، وہاں حضرت مولانا مملوک علی نانوتوی، مفتی صدرالدین آزردہ اور حضرت شاہ عبد الغنی دہلویؒ سے علمی استفادہ کیا، مولانا محمد منیرؒ جنگِ آزادی 1857ء کے ایک سرگرم کارکن اور مجاہد تھے، شاملی کے معرکے میں دوسرے اکابر کے دوش بدوش شریک رہے اور خوب دادِ شُجاعت دی، جنگِ شاملی کے بعد روپوش ہو گئے تھے، معافئ عام کے بعد اپنے بڑے بھائی مولانا محمد احسن کے پاس بریلی پہنچے اور 1861ء مطابق 1278ھ میں بریلی کالج میں ملازم ہو گئے، پنشن مِلنے تک بریلی میں قیام رہا، قیامِ بریلی کے زمانے میں اپنے بھائی مولانا محمد احسن کے مطبع صدیقی بریلی کے مہتمم بھی رہے، مولانا محمد منیر نقشبندی سلسلے میں بیعت تھے، انھوں نے امام غزالی کی کتاب منہاج العابدین کا اردو میں ترجمہ سراج السالکین کے نام سے کیا ہے جو مطبع صدیقی بریلی میں 1281ھ مطابق 1864ء میں طبع ہوا ہے، ان کی دوسری تصنیف فوائدغریبہ ہے یہ بھی تصوف کے مسائل پر مشتمل ہے۔ ایک سال سے کچھ زائد مدت تک مہتمم رہے، دار العلوم میں خارج اوقات میں طلبہ کو عربی ادب کی کتابیں پڑھاتے تھے۔
دیانت و امانت
ترمیمدیانت و امانت میں مولانا محمد منیر صاحب ؒ کا بڑا پایہ تھا، ارواحِ ثلاثہ میں ان کے متعلق ایک واقعہ لکھاہے کہ مولانا دار العلوم کی سالانہ روداد چھَپوانے کے لیے ڈھائی سو روپئے لے کر دہلی گئے، اتفاق سے وہاں روپئے چوری ہو گئے، مولانا منیر اس حادثہ کی کسی کو اطلاع کیے بغیر اپنے وطن نانوتہ آئے، اپنی زمین فروخت کرکے روپیہ فراہم کیا اور اس سے روداد چھپواکر لائے، مجلسِ شوری کے ارکان کو جب اس کا علم ہوا تو انھوں نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سے اس کے متعلق مسئلہ دریافت کیا، وہاں سے جواب آیا کہ 'مہتمم صاحب امین تھے اور روپیہ چونکہ بلاتعدی کے ضائع ہوا اس لیے ان پع تاوان نہیں آسکتا'، ارکانِ مجلس نے حضرت گنگوہی کا فتوی دِکھا کر مولانا منیر سے درخواست کی کہ اپنا روپیہ واپس لے لیں، مولانا نے فرمایا کہ 'فتوی کی بات نہیں ہے، اگر خود مولانا رشید احمد صاحب کو ایسا واقعہ پیش آتا تو کیا وہ بھی روپئے لے لیتے؟' چنانچہ اصرار کے باوجود پیسہ لینے سے انکار کر دیا۔