خواجہ محمد پیر بخش کا شمار میانوالی کے بلند اولیاء کرام میں ہوتا ہے۔ آپ دادا دوست محمد شاہ کاظمی کی اولاد میں سے ہے۔ آپ پیر سیال خواجہ شمس الدین سیالوی کے خلیفہ ہے۔ آپ دربار خواجہ آباد شریف کے روحانی پیشوا تھے۔

خواجہ محمد پیر بخش شاہ کاظمی
ذاتی
پیدائش(1276ھ بمطابق 1860ء)
وفات(22 صفر المظفر 1334ھ بمطابق 1915ء)
مذہباسلام
والدین
  • سید شرف حسین شاہ (والد)
سلسلہچشتیہ
مرتبہ
مقامخواجہ آباد شریف
دورانیسویں، بیسویں صدی
پیشروشمس الدین سیالوی
جانشینخواجہ غلام فرید شاہ

نام و نسب ترمیم

محمد پیر بخش شاہ کی ولادت 1276ھ بمطابق 1860ء کو دادا دوست محمد شاہ کاظمی کی اولاد میں سے بزرگ ہستی سید شرف حسین شاہ کاظمی کے گھر ہوئی۔ [1] [2] آپ کی جائے پیدائش دندی میانوالی ہے۔ یہ بستی دریائے سندھ کے کنارے پر آباد تھی جو بعد طوفان کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ [3]

سلسلہ نسب ترمیم

محمد پیر بخش شاہ کاظمی کا سلسلہ نسب دادا دوست محمد شاہ کاظمی (دلے والی) سے ہوتا ہوا موسی کاظم تک جاتا ہے۔

محمد پیر بخش شاہ بن شرف حسین شاہ بن میاں محمد شاہ بن گل حسین شاہ بن عبد النبی شاہ بن دوست محمد شاہ بن علاء الدین شاہ بن آدم شاہ بن جلال شاہ بن محمد شاہ بن عبد الوہاب شاہ بن موسی شاہ بن عبد المالک شاہ بن عبد المعروف شاہ بن صدر الدین شاہ بن سعید الدین شاہ بن عبد الطیف شاہ بن اسحاق شاہ بن یعقوب شاہ بن اسماعیل شاہ بن سلطان حسین شاہ بن سلطان محمود شاہ بن سلطان ابراہیم شاہ بن محمد شاہ بن فیروز حسین شاہ بن رجب الدین شاہ بن شاہ قطب الدین بن شاہ شمس بابا (قبرش در غزنی) بن شاہ ناصر الدین (قبرش در مشہد بود) بن شاہ ابراہیم بن امام موسی کاظم رضی اللہ عنھم اجمعین [4]

تعلیم و تربیت ترمیم

محمد پیر بخش شاہ نے ابتدائی قرآن پاک کی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ علوم دینیہ کی تعلیم بھی اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ [5] آپ نے اعلی دینی تعلیم کہاں سے حاصل کی اس بات کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ آپ کا لڑکپن ہی سے عبادت و ریاضت کی طرف رجحان تھا۔ [6]

عبادت و ریاضت ترمیم

محمد پیر بخش شاہ نے عبادت و ریاضت اور زہد و تقوی میں وہ کمال حاصل کیا کہ سالکان طریقت کے لیے ہمیشہ وہ سنگ میل کا کام کرے گا۔ آپ نے عبادت کے لیے ملاخیل کے پہاڑوں اور دریائے سندھ کے کنارے کو منتخب کیا اور پھر ان مقامات پر وہ سجدے ادا کیے جنہیں پہاڑ کی فلک بوس چوٹیاں اور دریائے سندھ کی متلاطم موجیں کبھی نہ بھول سکیں گی۔ ملاخیل میں آپ کی عبادت گاہ پہاڑ کی چوٹی پر زمین سے ہزاروں فٹ بلند تھی۔ جہاں نہ کسی کا گذر ہوتا تھا اور نہ ہی کوئی دیکھتا تھا۔ اس طرح ایک فقیر ہے نوا اپنے پروردگار حقیقی کے سامنے بے ربا عبادت میں ہمہ تن مصروف رہتا تھا۔ آپ کی عبادت گاہ سے کافی فاصلے پر ایک دشوار گزار پہاڑی راستہ تھا۔ آپ رات کو پانچ میل دور پہاڑی چشموں سے پانی لاکر راستے پر رکھ دیتے جو دن بھر تھکے ماندے مسافروں کے کام آتا۔ شب و روز کی عبادتیں اور ریاضتیں تقریبا دس سال تک جاری رہیں لیکن کسی سے یہ عقدہ حل نہ ہو سکا کہ اس بے آب و گیاہ پہاڑ میں پانی کی سبیل کس کے وجود باوجود سے قائم ہے۔ کثیر بوجھ اٹھانے سے آپ کے کندھوں پر زخم ہو جاتے تھے۔ [7] محمد پیر بخش نے ملا خیل میں موجود خاصہ بابا کے مزار پر اکثر تشریف لے جایا کرتے تھے اور اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ آپ اکثر پہاڑوں کی غاروں میں چلہ کشی فرماتے تھے۔ [8]

تلاش مرشد ترمیم

محمد پیر بخش نے طویل عرصہ تک سلوک کی کافی کھٹن منازل طے کی لیکن اس کے باوجود دل میں خواہش تھی کہ کسی مرد حق شناس کی بیعت کروں۔ [9] خواب میں آپ کو راہبر شریعت کی نشان دہی کی گئی۔ [10] آپ صبح صادق کی وقت سیال شریف کے لیے پیدل چل پڑے۔ پچاس میل کا فاصلہ پیدل طے کرنے سے پاؤں میں ابلے پڑ گئے لیکن دل کی تسکین کے لیے اس کی پروا نہ کی۔ رات کو تھوڑی دیر آرام کیا اور پھر سفر جاری کر دیا۔ دوپہر کے وقت سیال جا پہنچے جب خواجہ شمس الدین سیالوی قیلولہ فرما رہے تھے۔ دربان اجازت نہیں دیتا تھا۔ دربان کے ساتھ مختصر سی چپقلش کے بعد اندر سے دھیمی آواز آئی محمد پیر بخش شاہ صاحب کل سے تمھاری انتظار کر رہا ہوں۔ [11]

بیعت و خلافت ترمیم

محمد پیر بخش اپنے مرشد خواجہ شمس الدین سیالوی کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ آپ نے اپنے مرشد کی صحبت میں سلوک کی منازل طے کی۔ [12] چند سال آپ اپنے شیخ کی خدمت میں رہے اور شیخ نے خرقہ خلافت عطا فرمایا۔ اس کے بعد مرشد نے اپنے علاقے میں جانے کا حکم دیا تا کہ اس علاقے کی عوام آپ کے فیض سے فائدہ اٹھا سکے۔ آپ نے میانوالی، بنوں، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان، رحیم یار خان، ملتان اور کراچی کے اضلاع کو جو فیض دیا وہ غیر معمولی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم دینی و ملی خدمت تھی۔ [13]

شیخ سے عقیدت ترمیم

خواجہ محمد پیر بخش اپنے شیخ سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ اپنے گھر سے سو کوس سے زیادہ کی مسافت پیادہ پا طے کرتے اور جب سیال شریف پہنچے تو اپنی سیادت سے بے نیاز ہو کر لنگر کے کاموں میں مشغول بوجاتے۔ لکڑیاں پھاڑتے، گارا تک اٹھاتے اور دوسرے مشکل کاموں کے اپنانے میں ذرا عار نہ سمجھتے تھے۔ ۔آپ نے جس طرح اپنے شیخ کامل کی خدمت کی اور جو آپ کو اپنے شیخ طریقت سے محبت تھی اس کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ آپ اپنے شیخ کے لیے نسوار لینے پشاور پیدل جایا کرتے تھے۔ وہاں سے نسوار لاکر اپنے شیخ کے حضور تحفہ پیش کیا کرتے تھے۔

سیرت و کردار ترمیم

خواجہ محمد پیر بخش کی طبیعت تواضع و انکسار سے معمور تھی۔ آپ صالح اور شکر و قانع تھے۔ اپنے دست مبارک سے کام کرتے تھے اور قلیل بضاعت پر شاکر تھے۔ آپ نے تاحین حیات وہ سجدے ادا کیے جنہیں بسیط ارض کبھی فراموش نہیں کر سکتی اور وہ آنسو بہائے جنہیں چشم فلک کبھی نہیں بھول سکتی۔ آپ کی تمام زندگی اسی ذوق و شوق کی زنده تصویر تھی۔ وظائف اور معمولات چشتیہ نظامیہ کے نہایت پابند تھے۔ آپ کا ہر قول و فعل سنت نبوی کے عین مطابق تھا۔ آپ جسامت کے لحاظ سے بڑے مضبوط وجیہ اور قد کاٹھ کے انسان تھے۔

کرامت ترمیم

خواجہ محمد پیر بخش کی چند کرامات درج ذیل ہیں۔

  1. خواجہ محمد پیر بخش جن دنوں ملا خیل کے پہاڑوں میں خالق لایزال کے حضور عبادت و ریاضت میں مشغول تھے انہی ایام میں ملاخیل کے قریب ایک اژدها آفت بن کر رونما ہوا۔ اس کی آمد پر علاقہ میں زبردست دہشت پھیل گئی ۔ وہ اپنی جسامت کے اعتبار سے زندہ جانوروں اور انسانوں کو نگل جاتا تھا۔ علاقہ کے لوگوں کی معیشت تباہ ہو کر رہ گئی تھی۔ آخر وہ لوگ ایک دن ایک بزرگ کو لے آئے تا کہ وہ انھیں اس آفت سے نجات دلائے۔ علاقے کے تمام لوگ جمع ہو گئے۔ محمد پیر بخش بھی یہ خبر پا کر وہیں آگئے۔ آپ ایک گوشہ میں قدرت ربی کا مظاہرہ کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے ۔ سانپ کے آنے کا وقت ہو گیا۔ یکایک سانپ نمودار ہوا اور بڑے بڑے پتھروں کو ریڑھتا ہوا ہجوم کی طرف چل دیا۔ اس بزرگ نے کافی کوشش کی لیکن کوئی اثر نہ ہوا۔ جب سانپ قریب گیا تو آپ آگے بڑھے۔ ایک آدمی سے دستار لے کر اس پر دم کیا اور اسے چیرنا شروع کیا۔ قدرت ایزدی سے ادھر دستار چیرتی گئی اور اس کے مطابق ادھر سانپ چیرتا گیا۔ حتی کہ سانپ کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ لوگوں نے چین کا سانس لیا اور آپ کی اس کرامت کو دیکھ کر علاقہ کے پانچ ہزار سے زیادہ لوگ آپ کے حلقہ ارادت میں اس وقت داخل ہو گئے۔
  2. حضرت شیخ الاسلام سیالوی نے ارشاد فرمایا کہ خواجہ آباد شریف میں خواجہ محمد پیر بخش شاہ حضرت خواجہ شمس العارفین کے خلیفہ ہوئے ہیں۔ وہ خواجہ آباد شریف سے سیال شریف تک کی مسافت جو تقریبا سو کوس ہے ساٹھ سانس میں طے کر لیتے تھے۔

وصال ترمیم

گندم کی کٹائی سے کچھ دن پہلے آپ نے فرمایا کہ کیا گندم پک گئی ہے یا نہیں؟ صاجزادگان نے عرض کیا۔ ابھی نہیں پکی ۔ کچھ دنوں کے بعد آپ کے صاحبزادگان نے بتایا کہ اب کچھ اس قابل ہو چکی ہے کہ کاٹ کر خشک کر لی جائے تو کام آجائے گی۔ آپ نے فرمایا گندم کاٹ لو کاٹنے کے بعد خشک کر لی گئی اور بعد میں صاف کر لی گئی۔ [14] آپ کو معمولی تکلیف ہوئی تو آپ نے دریافت فرمایا کہ آج کی تاریخ اور کونسا مہینہ ہے؟ لوگوں نے عرض کیا صفر المظفر کا مہینہ اور بائیس تاریخ ہے۔ آپ نے فرمایا اچھا۔ پھر تو اپنے شیخ طریقت کی وفات کا دن ہے۔ آپ نے کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے رخ قبلہ شریف کی طرف پھیر دیا۔ اسی حالت میں آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ آپ کا یوم وصال 22 صفر المظفر 1334ھ بمطابق 1915ء ہے۔ [15] [16] آپ کی تدفین دندی میانوالی میں کی گئی تھی اور یہ آباد کاری دریائے سندھ کے کنارے پر تھی۔

مزار کی منتقلی ترمیم

خواجہ محمد پیر بخش کی تدفین دندی میانوالی میں کی گئی تھی اور یہ آباد کاری دریائے سندھ کے کنارے پر تھی۔ [17] آپ کے وصال کے ایک سال بعد دریائے سندھ میں زبردست طغیانی آئی جس سے کافی شہر نذر طوفان ہو گئے۔ آپ کے صاجزادگان و خولیش اقرباء کو بھی شہر چھوڑنے کے متعلق سوچنا پڑا لیکن رات کو آپ نے اپنے صاجزادے خواجہ غلام نصیر الدین شاہ کو خواب میں فرمایا کہ ابھی شہر چھوڑنے کا ارادہ ترک کر دو۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ اللہ تعالی ہمارے شہر کو بچا لے۔ اس سلسلہ میں مَیں نے حضرت خضر علیہ اسلام سے گزارش کی ہے۔ دوسرا دن اسی اضطراب میں گذر گیا۔ تمام علاقہ گرتا رہا لیکن آپ کے مزار کے آس پاس کا ٹکڑا بالکل محفوظ رہا۔ آپ نے پھر رات کو خواب میں فرمایا کہ فکر نہ کرو تا حال مجھے کوئی خاص جواب نہیں ملا۔ تیسرا دن بھی اسی بے چینی میں گذر گیا۔ نگاہوں کے سامنے بیسیوں پر رونق شہر نیست و نابود ہو چکے تھے۔ بالآخر تیسری رات آپ نے خواب میں فرمایا کہ کل ظہر تک میں نے مہلت لی ہے۔ اس لیے ظہر سے پہلے ممکن ہو تو شہر یہاں سے منتقل کر دو اور میرا مزار بھی منتقل کر دو۔ علی الصبح کام شروع ہو گیا۔ سب سے پہلا کام آپ کے جسد مبارک کی منتقلی تھی۔ کافی آدمی جمع ہوکر روضہ شریف میں حاضر ہوئے اور قبر کھودنا شروع کی لیکن جسوقت قبر کھودی جاچکی تو جسد اطہر موجود نہ تھا۔ تمام لوگوں کے ہوش و حواس اڑ گئے۔ صاجزادگان نہایت پریشان ہوئے اور قبر بند کر دی گئی۔ اس وقت خواجہ غلام فرید کاظمی اور خواجہ غلام نصیر الدین کاظمی پر نیند کا غلبہ ہو گیا۔ آپ دونوں حضرات وہیں سو گئے۔ آپ نے بیک وقت دونوں صاحبزادوں کو خواب میں فرمایا کہ تمھیں معلوم نہیں کہ بعد از دفن مردہ کے حالات عوام سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔ تم نے اتنا اجتماع کر لیا لہذا میں ابھی مدینہ شریف چلا گیا۔ تم صرف دو یا تین آدمی باوضو ہو کر درود شریف پڑھتے ہوئے قبر کھولو۔ میں ابھی آجاتا ہوں لیکن اس کے بعد عوام کو چہرہ دکھانے کی ضرورت نہیں۔ مامور افراد نے حکم کے مطابق باوضو ہوکر درود شریف پڑھتے ہوئے قبر پھر سے کھودی۔ آپ کا جسد مبارک موجود تھا اور ریش مبارک سے پانی کے قطرے گر رہے تھے گویا کہ آپ خواب استراحت میں محو ہیں۔ چار پانچ آدمیوں نے آپ کی زیارت کی۔ اس کے بعد آپ کا جسد وہاں سے ایک میل مشرق کی طرف سپرد خاک کیا گیا۔ جس جگہ آپ کی تدفین کی گئی اس جگہ کا نام آپ کی مناسبت سے خواجہ آباد شریف رکھا گیا۔ ظہر کے بعد دریا نے اس طرف اس شدت کا گراو شروع کیا کہ چشم زدن میں خواجہ محمد پیر بخش کا آبائی شہر صفحہ ہستی سے عدم میں داخل ہو گیا۔

مزار اور عرس ترمیم

خواجہ محمد پیر بخش کے مزار پر آپ کے پوتے خواجہ سید غلام کمال الدین شاه کاظمی نے روضہ بنوایا ہے جس کا گنبد سنگ مرمر سے مرصع ہے اور اندرونی حصہ نقش و نگار اور چپس سے سجایا ہے۔ آپ کا عرس ہر سال 18 اور 19 ربیع الاول کو خواجہ آباد شریف میانوالی میں بڑے تزک و احتشام کے ساتھ انعقاد پزیر ہوتا ہے۔ [18]


اولاد ترمیم

خواجہ محمد پیر بخش کو اللہ تعالی نے دو صاحبزادوں سے نوازا تھا جن کے نام یہ ہے۔

  1. خواجہ غلام فرید شاہ
  2. خواجہ غلام نصیر الدین شاہ [19] [20]

حوالہ جات ترمیم

  1. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 191
  2. سرزمین اولیاء میانوالی مولف سید طارق مسعود شاہ صفحہ 276
  3. سرزمین اولیاء میانوالی مولف سید طارق مسعود شاہ صفحہ 276
  4. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 191
  5. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 192
  6. سرزمین اولیاء میانوالی مولف سید طارق مسعود شاہ صفحہ 276
  7. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 192
  8. سرزمین اولیاء میانوالی مولف سید طارق مسعود شاہ صفحہ 276 277
  9. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 193
  10. سرزمین اولیاء میانوالی مولف سید طارق مسعود شاہ صفحہ 277
  11. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 193
  12. سرزمین اولیاء میانوالی مولف سید طارق مسعود شاہ صفحہ 277
  13. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 194
  14. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 194 تا 196
  15. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 196
  16. سرزمین اولیاء میانوالی مولف سید طارق مسعود شاہ صفحہ 278
  17. سرزمین اولیاء میانوالی مولف سید طارق مسعود شاہ صفحہ 278
  18. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 197 198
  19. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 197
  20. سرزمین اولیاء میانوالی مولف سید طارق مسعود شاہ صفحہ 279