خواجہ غلام فرید شاہ
خواجہ غلام فرید شاہ کا شمار میانوالی کے بلند پایہ اولیاء کرام میں ہوتا ہے۔ آپ پیر سیال کے جانشین خواجہ محمد الدین سیالوی کے خلیفہ تھے۔ آپ نو سال تک خواجہ آباد شریف میں اپنے والد ماجد کے جانشین کے طور پر خدمات سر انجام دی۔
خواجہ غلام فرید شاہ کاظمی | |
---|---|
ذاتی | |
پیدائش | (1302ھ بمطابق 1885ء) دندی میانوالی |
وفات | (11 جمادی الثانی 1342ھ بمطابق 19 جنوری 1924ء) |
مذہب | اسلام |
والدین |
|
سلسلہ | چشتیہ |
مرتبہ | |
مقام | خواجہ آباد شریف |
دور | انیسویں، بیسویں صدی |
پیشرو | خواجہ محمد الدین سیالوی ، خواجہ محمد پیر بخش کاظمی |
جانشین | خواجہ غلام نصیر الدین شاہ |
نام و نسب
ترمیمغلام فرید شاہ کی ولادت 1302ھ بمطابق 1885ء میں خواجہ محمد پیر بخش رحمۃ اللہ علیہ کے گھر ہوئی۔ [1] [2] آپ کی جائے پیدائش دندی میانوالی کی وہ بستی تھی جو دریائے سندھ کے کنارے ہونے کی وجہ سے دریا کی نظر ہو کر تباہ ہو گئی تھی۔ [1]
سلسلہ نسب
ترمیمخواجہ غلام فرید شاہ کا تعلق سادات کاظمی سے ہے۔ آپ سلسلہ نسب امام موسی کاظم تک کچھ یوں ہے۔
- خواجہ غلام فرید شاہ بن محمد پیر بخش شاہ بن شرف حسین شاہ بن میاں محمد شاہ بن گل حسین شاہ بن عبد النبی شاہ بن دوست محمد شاہ بن علاء الدین شاہ بن آدم شاہ بن جلال شاہ بن محمد شاہ بن عبد الوہاب شاہ بن موسی شاہ بن عبد المالک شاہ بن عبد المعروف شاہ بن صدر الدین شاہ بن سعید الدین شاہ بن عبد الطیف شاہ بن اسحاق شاہ بن یعقوب شاہ بن اسماعیل شاہ بن سلطان حسین شاہ بن سلطان محمود شاہ بن سلطان ابراہیم شاہ بن محمد شاہ بن فیروز حسین شاہ بن رجب الدین شاہ بن شاہ قطب الدین بن شاہ شمس بابا (قبرش در غزنی) بن شاہ ناصر الدین (قبرش در مشہد بود) بن شاہ ابراہیم بن امام موسی کاظم رضی اللہ عنھم اجمعین [3]
تعلیم و تربیت
ترمیمغلام فرید شاہ کاظمی نے ابتدائی دینی تعلیم ہی حاصل کی تھی۔ [1] آپ کی تعلیم فقہ اور صرف و نحو کی ابتدائی کتب تک ہی محدود تھی۔ [2] چونکہ آپ کا مزاج صوفیانہ اور قلندرانہ تھا اس لیے مزید تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ [1]
بیعت و خلافت
ترمیمخواجہ غلام فرید شاہ کاظمی پیدائشی ولی اللہ تھے اور بچپن ہی سے آپ کی شہرت تھی۔ آپ نے بیعت سیال شریف کے سجادہ نشین خواجہ محمد الدین سیالوی کے دست حق پرست پر کی۔ مرشد کامل کے زیر سایہ سلوک کی منازل طے کی۔ خواجہ محمد الدین سیالوی نے آپ کو 1326ھ بمطابق 1908ء میں سند خلافت عطا کی۔
شیخ سے محبت
ترمیمخواجہ غلام فرید شاہ کے مزاج میں شیخ کی محبت کا عنصر بہت زیادہ تھا۔ آپ اکثر اوقات سیال شریف میں قیام کر کے اپنے شیخ کی خدمت کیا کرتے تھے۔ [4] آپ سیال شریف میں قیام کے دوران لنگر کے تمام کاموں میں حصہ لیتے رہتے تھے۔ [1]
والد ماجد کا وصال
ترمیمخواجہ غلام فرید شاہ کاظمی کے والد ماجد خواجہ محمد پیر بخش نے 22 صفر 1334ھ بمطابق 1915ء کو وفات پائی۔ [5] والد ماجد کے وصال کے بعد چونکہ آپ بڑے صاحبزادے تھے اس لیے والد کے جانشین مقرر ہوئے۔ [6]
والد ماجد کے مزار کی منتقلی
ترمیمخواجہ غلام فرید شاہ کے والد ماجد خواجہ محمد پیر بخش کی تدفین دندی میانوالی میں کی گئی تھی اور یہ آبادی دریائے سندھ کے کنارے پر آباد تھی۔ [7] تدفین کے ایک سال بعد دریائے سندھ میں زبردست طغیانی آئی جس سے کافی شہر نذر طوفان ہو گئے۔ خواجہ غلام فرید شاہ کے گھرانے و خولیش اقرباء کو بھی شہر چھوڑنے کے متعلق سوچنا پڑا لیکن رات کو خواجہ محمد پیر بخش نے اپنے صاجزادے خواجہ غلام نصیر الدین شاہ کو خواب میں فرمایا کہ ابھی شہر چھوڑنے کا ارادہ ترک کر دو۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ اللہ تعالی ہمارے شہر کو بچا لے۔ اس سلسلہ میں مَیں نے حضرت خضر علیہ اسلام سے گزارش کی ہے۔ دوسرا دن اسی اضطراب میں گذر گیا۔ تمام علاقہ گرتا رہا لیکن محمد پیر بخش کے مزار کے آس پاس کا ٹکڑا بالکل محفوظ رہا۔ آپ نے پھر رات کو خواب میں فرمایا کہ فکر نہ کرو تا حال مجھے کوئی خاص جواب نہیں ملا۔ تیسرا دن بھی اسی بے چینی میں گذر گیا۔ نگاہوں کے سامنے بیسیوں پر رونق شہر نیست و نابود ہو چکے تھے۔ بالآخر تیسری رات آپ نے خواب میں فرمایا کہ کل ظہر تک میں نے مہلت لی ہے۔ اس لیے ظہر سے پہلے ممکن ہو تو شہر یہاں سے منتقل کر دو اور میرا مزار بھی منتقل کر دو۔ علی الصبح کام شروع ہو گیا۔ سب سے پہلا کام آپ کے جسد مبارک کی منتقلی تھی۔ کافی آدمی جمع ہوکر روضہ شریف میں حاضر ہوئے اور قبر کھودنا شروع کی لیکن جسوقت قبر کھودی جاچکی تو جسد اطہر موجود نہ تھا۔ تمام لوگوں کے ہوش و حواس اڑ گئے۔ صاجزادگان نہایت پریشان ہوئے اور قبر بند کر دی گئی۔ اس وقت خواجہ غلام فرید شاہ کاظمی اور خواجہ غلام نصیر الدین کاظمی پر نیند کا غلبہ ہو گیا۔ آپ دونوں حضرات وہیں سو گئے۔ آپ نے بیک وقت دونوں صاحبزادوں کو خواب میں فرمایا کہ تمھیں معلوم نہیں کہ بعد از دفن مردہ کے حالات عوام سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔ تم نے اتنا اجتماع کر لیا لہذا میں ابھی مدینہ شریف چلا گیا۔ تم صرف دو یا تین آدمی باوضو ہو کر درود شریف پڑھتے ہوئے قبر کھولو۔ میں ابھی آجاتا ہوں لیکن اس کے بعد عوام کو چہرہ دکھانے کی ضرورت نہیں۔ مامور افراد نے حکم کے مطابق باوضو ہوکر درود شریف پڑھتے ہوئے قبر پھر سے کھودی۔ آپ کا جسد مبارک موجود تھا اور ریش مبارک سے پانی کے قطرے گر رہے تھے گویا کہ آپ خواب استراحت میں محو ہیں۔ چار پانچ آدمیوں نے آپ کی زیارت کی۔ اس کے بعد آپ کا جسد وہاں سے ایک میل مشرق کی طرف سپرد خاک کیا گیا۔ جس جگہ آپ کی تدفین کی گئی اس جگہ کا نام آپ کی مناسبت سے خواجہ آباد شریف رکھا گیا۔ ظہر کے بعد دریا نے اس طرف اس شدت کا گراو شروع کیا کہ چشم زدن میں خواجہ محمد پیر بخش کا آبائی شہر صفحہ ہستی سے عدم میں داخل ہو گیا۔ [8]
سیرت و کردار
ترمیمخواجہ غلام فرید شاہ نہایت سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ آپ نہایت شکیل و جمیل تھے۔ جسمانی طور پر طاقت ور تھے۔ صاحب سلوک و صفا تھے۔ اپنے والد ماجد کی قدم بقدم پیروی کرتے تھے۔ سجادہ نشین ہونے کے بعد آپ کا فیض ہر عام و خاص کے لیے یکساں حثیت رکھتا تھا۔ آپ نو سال کے مختصر عرصہ کے لیے سجادہ نشین رہے لیکن اس مختصر عرصہ حیات میں بھی ولایت کے آفتاب بن کر چمکتے رہے۔ [9]
وصال
ترمیمخواجہ غلام فرید شاہ نے بروز ہفتہ گیارہ جمادی الثانی 1342ھ بمطابق 19 جنوری 1924ء میں وفات پائی۔ [9] آپ کی تدفین خواجہ آباد شریف میں اپنے والد محترم کے پہلو میں کی گئی۔ [1] آپ کا عرس ہر سال گیارہ جمادی الثانی کو منایا جاتا ہے۔ [10]
اولاد
ترمیمخواجہ غلام فرید شاہ کو اللہ پاک نے تین صاحبزادوں سے نوازا تھا۔
- غلام نظام الدین شاہ
- غلام کمال الدین شاہ
- سید محمد حسن شاہ [11] [9]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ ت ٹ ث سرزمین اولیاء میانوالی مولف سید طارق مسعود شاہ صفحہ 219
- ^ ا ب فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد دوم مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 179
- ↑ فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 191
- ↑ فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد دوم مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 179 180
- ↑ فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 196
- ↑ فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 198
- ↑ سرزمین اولیاء میانوالی مولف سید طارق مسعود شاہ صفحہ 278
- ↑ فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 197 198
- ^ ا ب پ فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد دوم مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 180
- ↑ فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد دوم مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 181
- ↑ سرزمین اولیاء میانوالی مولف سید طارق مسعود شاہ صفحہ 220